میجر کو کوئی خط نہیں لکھتا۔۔۔مشرف عالم ذوقی

مشرّف عالم ذوقی

گابرئیل گارسیا مارخیز کی ایک مشہور کہانی کا نام ہے۔ کرنل کو کویی خط نہیں لکھتا۔ اس کہانی میں ایک مقام پر کرنل کہتا ہے۔ جس دن میں بیمار محسوس کرونگا، خود کو ڈسٹ بن میں ڈال دونگا۔ کیا معنی خیز جملہ ہے۔ کرنل کی زندگی اور اسکی نفسیات کے تمام پہلو اس ایک جملے میں پوشیدہ ہیں۔ لیکن مارخیز کے کرنل کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ہمارا معاشرہ جس تیزی سے بیمار ہو رہا ہے، وہاں کسی کو بھی خود کو کسی کوڑے دان میں پھیکنے کا خیال نہیں آے گا۔

برق رفتاری سے تبدیل ہوتی دنیا کو نہ انسانی حقوق یاد رہے نہ انسان اور جانوروں میں فرق کرنا یاد رہا۔ بارود سے کھیلنے والی انسانی تھذیب کے لئے جنگ محض کھلونا ہے۔ ہلاکت اور بربادی اس خوفناک کھلونے کا تماشہ ہیں ۔ ۔ہمارے بچے بھی ان کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ انسانی نفسیات کبھی کبھی کسی خطرناک وائرس کا شکار لگتی ہے۔

مہذب دنیا میں جینے کی سزا یہ بھی ہے کہ آیین اور قانون نے بولنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مثال کے لئے اروندھتی راے کشمیر پر بول بھی سکتی ہیں یا لکھ سکتی ہیں۔ یہ حق انکو اس لئے بھی حاصل ہے کہ عالمی سطح پر انہوں نے اپنے قد کو اتنا بڑا کر دیا ہے کہ ایک بار حکومت کو بھی انکو گرفت میں لینے سے قبل سوچنا ہوگا۔ مگر عام آدمی کشمیر کے بارے میں زبان کھولنے سے بھی خوف کھاتا ہے۔ کشمیر میں پتھر بازی کا سلسلہ شروع ہوا تو فاروق عبد الله نے اپنے ایک بیان میں کھا کہ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ پتھر باز پیدا ہی کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ ظلم کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے، جس نے بہت سے کشمیری نوجوانوں کو پتھر اٹھانے پر مجبور کر کر دیا ہے؟ میں فاروق عبد الله یا عمر عبد الله کی حمایت نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ لوگ بھی کشمیر میں سیاست کرتے رھے۔ اسی طرح کانگریس کے پاس بھی کشمیر کو پر امن بناہے رکھنے کا کویی حل نہیں تھا۔ ۔اس لئے کانگریس کے وقت بھی کشمیر میں بہت کچھ ایسا ہوا جو انسانی دائرے سے باہر تھا۔ بی جے پی کی حکومت تو اب بنی ہے۔ بہت حد تک اٹل بہاری باجپایی اس معاملے میں سنجیدہ تھے کہ کشمیر کا حل نکلنا چاہیے۔ پاکستان سے صلح اور دوستی کے لئے انہوں نے کچھ بڑے قدم بھی اٹھاے مگر حاصل کچھ نہ ہو سکا۔ کشمیر آج بھی وہیں ہے، جہاں کانگریس کے وقت تھا۔آنے والے برسوں میں بھی کسی تبدیلی کی امید نہیں ہے۔

٢٠١٧ مئی میں جی آئی، چنڈی گڑھ کے ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر ایک مریضہ کا علاج کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ کشمیری ہے، اور بقول ڈاکٹر، ”وہ لوگ کشمیر میں فوجیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں “جبکہ طبی پیشہ سے منسلک افراد کو یہ کہنے کا حق نہیں ۔ ایک مریضہ کے ساتھ اس واقعہ کو بھی غیر انسانی عمل کہا جائے گا۔ تقسیم اور آزادی کے بعد بھی ایسے کیی حادثے ہوئے جنہوں نے انسانیت کو شرمسار کیا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات تو ہوتے رھے لیکن آھستہ آھستہ ہلاکت، اذیت اور ذائقہ کے درمیان ایک غیر انسانی رشتہ بنتا چلا گیا۔ ہاشم پورا، بھاگلپور سے گودھرا تک ہلاکت اور ذائقے کی ہزاروں مثالیں دل دہلانے کے لئے کافی ہیں ۔ ہاشم پورا، ملیانہ میں پولیس مسلمانوں کو بندوق کی نوک پر رکھتی ہے۔ سہمے ہوئے مسلمان ہاتھ اٹھاے پولیس کے آگے چلتے ہیں۔ پھر پولیس انھیں ہلاک کر دیتی ہے۔ گودھرا میں معصوم عورتوں اور بچوں کے ساتھ درندگی کی خوفناک کہانیاں لکھی گیئں۔ ایسی کہانیاں کہ روح تک کانپ اٹھے۔

آزادی یا تقسیم کے وقت جلی ہوئی اور خون میں سنی ہویی لاشوں کا بوجھ اٹھاے ٹرینیں ہوا کرتی تھیں جو کسی ا سٹاپ پر رکتیں تو موت کا ننگا تماشا دیکھنے والے پاگل ہو جاتے۔ لیکن سوال تو یہی کہ ملک آزاد ہو چکا تھا۔ دو قومی نظرئیے نے دو آزاد ملکوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔ لیکن جلی ہوئی ٹرینوں کا آنا بند ہوا تو وحشت اور دہشت کا رقص بھی بدل گیا۔ ۔پشاور کے اسکول میں معصوم بچوں کو گولیوں سے بھونا گیا کبھی لال مسجد سے گولیاں چلایی گین۔ ۔ہمارے یہاں بھی غیر انسانی نظارے کچھ کم نہ تھے۔ حقیقت یہی تھی کہ انسان، انسان کو ہلاک کر رہا تھا۔ ۔۔سعادت حسن منٹو نے اسی لئے ناراض ہو کر لکھا کہ یہ مت کہو کہ اتنے ہندو مارے گئے یا اتنے مسلمان مارے گئے۔ یہ کہو کہ کتنے انسان مارے گئے۔ آزادی سے اب تک غیر انسانی واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے اور یہ سوال اپنی جگہ کہ میزائل، اسلحوں، بارود، اور خطرناک بموں کی موجودگی میں کیا ہم کسی مہذب دنیا کا تصور کر سکتے ہیں؟

غیر انسانی سلوک کو جایز قرار دینے والوں  کی فہرست میں ایک نام میجر گگویی کا بھی ہے۔٢٠١٧ میں کشمیر کے بڈگام میں سنگباری سے بچنے کے لئے میجر گگویی نے وہ کیا، جس کا اس مہذب دنیا میں تصور بھی محال ہے۔ میجر گگویی نے ایک عام کشمیری شہری کو جیپ کے بونٹ کے ساتھ باندھ دیا اور فاروق احمد ڈار نام کے نوجوان کو دور تک گاڑی کے ساتھ نچاتے اور دوڑاتے رہے۔ یہ واقعہ چنگیز، ہلاکو یا ہٹلر کے عھد میں نہیں ہوا، یہ واقعہ اس ڈیجیٹل انڈیا میں پیش آیا، جہاں ہم خود کو مہذب دنیا کی ریس میں کافی ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھلے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہو لیکن حکومت کی طرف سے میجر گگویی کو شاباشی دینے والوں کی کویی کمی نہیں تھی۔ ایک بوجھل کرنے والا سوال تو یہ بھی تھا کہ کیا میجر گگویی کے پاس حقیقت میں کویی دوسرا راستہ نہیں تھا؟ کیا یہ سنگباری سے بچنے کے لئے اٹھایا گیا قدم تھا ؟ یا کسی مسلمان سے نفرت کے لئے؟ وہ بھی کشمیری مسلمان سے۔ ۔؟ایسے خوفناک خیال جس دماغ میں جمع ہوتے ہوں کیا آپ اسے نفسیاتی مریض کہیں گے ؟ اگر ایسا ہے تو تسلیم کیجئے کہ اس وقت ہندوستان کی ایک بڑی آبادی اس مرض کا شکار ہو چکی ہے۔ موجودہ صورت حال میں آپکا پروموشن اس بات سے طے ہے کہ آپ مسلمانوں کو کتنا برا کہتے ہیں۔ میجر گگویی نے جو کیا، وہ غیر انسانی فعل سے زیادہ انتقام اور نفرت کی انتہا ہے۔ لیکن ایک بڑا سچ یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں اب بیداری واپس آنے لگی ہے۔ اس لئے حادثے کے ایک برس بعد میجر گگویی کی مذمت کرنے والے سوشل میڈیا سے لے کر اخباروں تک نظر آ رہے ہیں ۔ یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے۔

 ابھی حال میں ٢٣ مئی ٢٠١٨کو سرینگر کے ایک ہوٹل سے میجر گگویی کو رنگ رلیاں مناتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ اصل کہانی کچھ اس  طرح  ہے۔ سرینگر کے ہوٹل میں ایک لڑکی کے ساتھ میجر گوگوئی کو پکڑا گیا تھا۔۔ ہوٹل کے عملے نے گوگویی کو  کمرہ دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد میجر کی عملے سے بحث ہوئی اور پولیس نے میجر کو حراست میں لیا۔ بعد میں میجر کو ان کی  یونٹ میں  بھیج دیا گیا تھا۔ میجر ليتل گوگوئی کے ساتھ پکڑی گئی لڑکی کی ماں نے میجر پر سنگین الزام لگایا ہے۔ ۔ لڑکی کی ماں نے کہا  کہ گوگویی  کئی بار رات میں پہلے بھی  ان کے گھر میں زبردستی داخل ہو چکے  ہیں۔  ان کے ساتھ انکا ملازم یا ڈرائیور  سمیر احمد بھی ہوتا ہے۔ یہ وہی سمیر احمد ہے جس کو  ہوٹل میں بھی دیکھا گیا تھا۔ میجر ليتل گوگوئی گزشتہ سال بڈگام میں سنگباری  سے تحفظ  کے لئے، ایک عام شہری کو آرمی کی جیپ کی بونٹ پر باندھنے کی وجہ سے سرخیوں میں اہے  تھے۔ ۔پولیس کو پتہ چلا کہ ہوٹل میں پہلے ہی میجر  گوگوئی کے نام سے کمرہ بک تھا۔  لڑکی کی ماں نے کہا کہ ‘وہ صبح گھر سے یہ کہہ کر نکلی تھی کہ بینک جا رہی ہے اور اس کے بعد نہیں لوٹی۔ ان کی لڑکی کی عمر 17 سال کی  ہے۔

 اس طرح کی خبریں ہمارے لئے نیی نہیں رہ گیی ہیں ۔ فوجیوں کے ساتھ ایسے معاملات پہلے بھی رھے ہیں  اور اس خبر میں بھی کویی حیرت کرنے والی بات نہیں ہے۔ کیونکہ ذہنی طور پر قلاش انسان کے پاس اخلاقیات کا کویی سبق نہیں ہوتا۔ ۔ہماری اخلاقیات اور ذہنیت جب چادر کھول کر عریاں ہو جاتی ہے تو انسان اور جانور کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ ۔میجرگگویی کا وہی چہرہ ابھرتا ہے، جب ایک کشمیری مسلمان کو اپنے تحفظ کے لئے انہوں نے ڈھال کی طرح استعمال کیا۔ یہ منظر ہندوستان کے، تیزی سے بدلتے نقشے کی طرف ایک خوفناک اشارہ ہے۔ ہوٹل میں نوجوان لڑکی کو بلانا اور کمرہ بک کرنا ان کی بیمار ذہنیت کی طرف اشارہ ہے۔  ہم ایک بیمار نظام کی طرف خاموشی سے بڑھتے چلے گئے، اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔

ملک کے مسلمانوں کا بھروسہ آج بھی ملک کے آیین، قانون، فوج پر قایم ہے۔ فوج ہماری طاقت بھی ہے۔ کچھ حادثے پریشان کرتے ہیں۔ کچھ باتیں تکلیف پہچاتی ہیں اور ملک کی جمہوریت کو زخمی بھی کرتی ہیں ۔ کچھ چہرے فاشزم سے کافی قریب ہوتے ہیں۔ میری منشا فوج پر تنقید کرنے کی نہیں ہے، ان لوگوں پر تنقید کرنے کی ہے جو ملک کی رسوایی کا سبب بن جاتے ہیں۔ فوج اور پولیس میں ایسے چہروں کی مداخلت بڑھنے لگی ہے۔ فسادات ہوتے ہیں تو مسلمانوں کو دوسری ذات کے لوگوں سے ڈر نہیں لگتا، پولیس والوں سے ڈر لگتا ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ انہیں فوج اور پولیس کی ٹریننگ کے ساتھ انسان بننے کی بھی ٹریننگ دی جائے۔

مسلمان ہونا کویی جرم نہیں ہے۔ لکھنؤ میں ایک نوجوان ابھیشیک مشرا نے ٹیکسی بک کرائی اور جب معلوم ہوا کہ ڈرائیور مسلمان ہے تو اپنی بکنگ کینسل کرادی۔ ابھیشیک وشو ہندو پریشد کا ممبر ہے۔ ایسے واقعات اب ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ آپ مسلمان ہیں تو کرایے دار نہیں ہو سکتے۔ بہت سی کولونیوں میں کراےدار کی حیثیت سے مسلمانوں کا داخلہ تک ممنوع ہے۔ دادری میں فساد ہوا تو مسلمانوں کو دادری چھوڑنے کے لئے کہا گیا۔ یہی بات مظفر نگر میں ہوئی۔ کاس گنج میں، مسلمانوں نے جمہوریت کا جشن منانا چاہا تو بھگوا بریگیڈئر کو مسلمانوں کی حب الوطنی کا جذبہ راس نہیں آیا۔ فساد برپا کیا۔ جمہوریت کے جشن میں شامل ہونے کا انعام یہ ملا کہ مسلمانوں کی گرفتاری ہوئی۔ فساد میں بھگوا بریگیڈئر کا ایک شخص مارا گیا تواسکے خاندان پر سرکار یوگی کی طرف سے دھن راشی برسایی گیی۔  ملک کی محبت کا مارا بھگوا بریگیڈیر شمبھو لال تو ہیرو ہی بن گیا۔ وہ ایک مسلمان کو دھوکے سے جنگل میں لے گیا۔ ہلاک کیا۔ لاش کے ٹکرے کیے۔ پھر لاش کو جلا دیا۔ اور اسکا باضابطہ ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر وائرل کیا۔ اب جیل میں ہے اور اسکے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ ان واقعات کا سچ صرف ایک ہے۔ آپ مسلمان ہیں تو مجرم ہیں۔ آپ مسلمان ہیں تو بھگوا تنظیمیں آپ سے دیش بھکتی کی امید نہیں کر سکتیں

میں نے شروعات مارخیز کی کہانی سے کی تھی۔ ۔۔کرنل کو کویی خط نہیں لکھتا۔ ۔میجر گگویی کو بھی ہماری نسل یاد نہیں رکھے گی۔  کویی خط نہیں لکھے گا۔ ۔ہمارے درمیاں اکثر ایسے بیمار لوگ فاشزم کے وائرس کا شکار ہو کر ایک دن خود کو کوڑے دان کے سپرد کر دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply