شرح سود 6.5 فیصد ہونے سے معاشی خطرات بڑھ گئے

مرکزی بینک نے رواں برس شرح سود میں اضافے کی وضاحت پیش کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ جاری کیا۔

خیال رہے کہ رواں مالی سال کے آغاز میں مرکزی بینک نے 25 بیسس پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ شرح سود 6 فیصد تک کردی تھی۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ صحت مند ترقی کے لیے بیلنس آف رسک کا استحکام کم ہوتے ہوئے افراطِ زر کے ساتھ ادائیگیوں کے توازن میں خطرات کی وجہ سے منتقل ہوچکا ہے۔

مرکزی بینک کی جانب سے کہا گیا کہ نظرثانی شدہ مالی خسارہ جس کا تخمینہ 4.1 فیصد لگایا گیا تھا لیکن وہ 5.5 فیصد تک پہنچ گیا جو عدم توازن کی ایک اور وجہ ہے۔

ایس بی پی کا مزید کہنا تھا کہ اس خسارے کی وجہ سے قریب مدتی میکرو اکانومکس استحکام پر ناموافق طریقے سے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے اس امید کا اظہار کیا کہ مالی سال 2018 میں اقتصادی ترقی عبوری طور پر گزشتہ 13 سال کی ریکارڈ سطح 5.8 فیصد پر رہنے کا امکان ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ افراطِ زر بھی امید کے مطابق سالانہ ہدف 6 فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔

صارف کی قیمت اعشاریہ (سی پی آئی) افراطِ زر رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں 3.8 فیصد تک رہی جبکہ کھانوں کے حوالے سے افراطِ زر کی شرح 1.8 فیصد تک رہی۔

ایس بی پی کے مطابق مالی سال 2018 میں مرکزی بینک کے ماڈل کے تحت افراطِ زر 3.5 فیصد سے 4.5 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، تاہم مالی سال 2019 میں 6 فیصد سے بھی زائد ہوسکتی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق زرعی شعبے میں ریکارڈ بہتری آئی ہے اور اس نے اپنی سالانہ ترقی کے ہدف 3.5 فیصد سے زائد ترقی کی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے میں 5.8 فیصد ترقی دیکھنے میں آئی ہے جس کی بڑی وجہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر پیداواری سرگرمیوں میں بہتری آئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیال رہے کہ اس بہتر ہوتے اقتصادی توازن اور پاکستان میں آٹو انڈسٹری اور تعمیراتی شعبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کی وجہ سے حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے شرح نمو کا حدف 6.2 فیصد مقرر کیا ہے

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply