سعودی خواتین کا ڈر ۔۔۔لوڈی مورس

محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ کے کچھ عرصہ بعد ہی مشہور فیمنسٹ لوجین ہتھلول کو سکیورٹی آفیسرز نے ابو ظہبی یونیورسٹی کے قریب ڈرائیونگ کرتے ہوئے روک لیا۔ 28 سالہ خاتون کو گاڑی سے نکلا کر جہاز کے ذریعے سعودی عرب لے جایا گیا۔ کافی دن قید میں گزارنے کے بعد ہتھلول کو رہا کر دیا گیا لیکن انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روک دیا گیا۔ ایکٹوسٹ کو ابو ظہبی سے سعودی عرب گرفتار کر کے لے جانے کا واقعہ سعودع عرب کے اصلاحات کے معاملے کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے جس میں خواتین کو دی گئی آزادیوں کی دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔

اس واقعہ سے یو اے ای اور سعودی عرب کے بیچ معاشی اور سیاسی تعلقات کی گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں  کو اس واقعہ کے بارے میں معلوم تھا انہوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی لیکن اپنی شناخت ظاہر کرنے سے ہچکچاتے رہے جس کی وجہ گرفتاریوں کا ڈر تھا۔ واقعہ کے بارے میں جب سعودی حکام سے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب نہ ملا۔ اگرچہ سعودی عرب نے ہتھلول کی آواز کو دبانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے اپنے لاکھوں فالوورز کو حالات سے متنبہ کردیا ۔ ٹویٹ کرنے کے عوض انہیں ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب تک سات سعودی شہریوں  کوگرفتار کیا گیا جن میں پانچ خواتین ہیں ۔ گرفتار شدگان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر ملکی ایجسنیوں کے ساتھ مشکوک روابط جوڑ رکھے ہیں۔ اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔ جمال خاگوشگی نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لوجین کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ ایم بی ایس کی محنت کے بعد بھی اسطرح کے واقعات افسوسناک ہیں ۔ اس تحریک کو کسی حد تک کامیابی ملی اور ایسا لگا جیسے محمد بن سلمان کے سعودی عرب ماڈرنائز کرنے کی کوششیں رنگ لائیں گی۔

سعودی حکومت نے خواتین کو پچھلے سال ستمبر میں ڈرائیونگ کی اجازت قانونی طور پر دے دی۔ اب وہاں  کی خواتین گورنمنٹ سروسز سے بھی مستفید ہو سکتی ہیں اور اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر بھی بزنس شروع کر سکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود  ذرائع کے مطابق اب بھی خواتین سے شوہر کی مرضی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ شادی اور سفر کے لیے بھی خواتین کو اپنے سرپرست سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ لیکن سعودی حکومت کے ان اعلانات کے بعد ایکٹوسٹس کی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے اور تبدیلی کی حمایت کرنے والے کارکنان کو گرفتاریوں کا سامنا ہے۔

ہیومن رائٹ واچ کے مطابق اب ملک میں خوف کی فضا قائم ہو گئی ہے ۔ ایک خاتون ایکٹوسٹ نے کہا: یہ گرفتاریوں کی مہم سعودیہ میں فیمنسزم کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ جن مردوں کو گرفتار کیا گیا وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ 15 مئی رات دو بجے ہتھلول کے گھر چھاپہ پڑا اور القسط کے مطابق انہیں اپنے بیڈ روم سے گرفتار کیا گیاانہیں الخیر جیل بھیج دیا گیا۔ یہ خاتون گرفتاریوں کی صعوبت سے ناواقف نہیں ہیں۔ ہتھلول نے 2014 میں شہرت حاصل کی جب انہوں نے ابو ظہبی میں پہلی بار سعودی عرب کے بارڈر کی طرف خود ڈرائیو کرنے کی ہمت دکھائی ۔ انہیں  گرفتار کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور73 دن تک گرفتار رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔

اگلے سال وہ لوکل کونسل الیکشن میں شامل ہوئیں جب خواتین کو الیکشن لڑنے اور ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ لیکن ان کا نام  کبھی بیلٹ میں شامل نہیں کیا گیا انہیں جون 2017 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا ۔ ان کے ایکٹوسٹ ہونے کی وجہ سے انہیں دنیا بھر میں شہرت ملی ۔ پچھلے سال انہوں  نے میگل مارکل کے ساتھ تصاویر بنوائیں جن کی حال ہی میں برطانوی شہزادے سے شادی ہوئی ہے اور جو دنیا  کی  سب سے زیادہ با اثر خواتین میں 45ویں نمبر پر ہیں۔ لیکن یہ اعزاز آسانی سے انہیں نہیں ملا ہے۔

سعودی عرب کے اوکز اخبار کے مطابق گرفتار شدگان کو 20 سال قید کی سزا دیے جانے کے امکانات ہیں اور ان لوگوں کو عوامی سطح پر غدار قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کی قید کئی نسلوں تک جاری رہ سکتی ہے۔عزیز ہ الیوسف جو ایک کنگ سعود یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں نے بھی خواتین کے لیے مہم چلائی تھی اور کئی دہائیوں تک جدو جہد کرتی رہی ہیں۔ جب خواتین نے گارڈین شپ سسٹم کے خلاف پٹیشن پر سائن کیے تو عزیزہ ہی اس پٹیشن کو حکومت تک لے کر گئیں۔ ان کے علاوہ گرفتار ہونے والی شخصیت عائشہ المانا ہین جن کی عمر 70 برس ہے ۔ انہوں نے ہی ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف آواز اٹھائی اور 1990 میں ریاض میں احتجاجا ً  گاڑی چلانے والی چالیس خواتین میں سے تھیں۔ ڈرائیونگ پر پابندی ختم کرنے کے اعلان کے کچھ گھنٹے بعد ان تمام خواتین کو بلوایا گیا جنہوں نے اس پابندی کے خلاف مہم چلائی تھی اور انہیں عوام کے سامنے اس اعلان پر تبصرہ کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا۔

ان گرفتاریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک خاتون ایکٹوسٹ کا کہنا تھا کہ ان کے پیچھے کوئی پرانا کیمپ ہے جو محمد بن سلمان کی اصلاحات کا نفاذ نہیں چاہتا۔ دوسرے ایکٹوسٹس کا خیال ہے کہ پورا اختیار سلمان کے ہاتھ میں ہے ۔ خاشوگی نے کہا : کوئی پرانا گارڈ نہیں ہے۔ پورا اختیار سلمان کے ہاتھ میں ہے ۔ جو ہو رہا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یہ پرانا نہیں نیا سعودی عرب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

source : https://www.dawn.com/news/1409218/some-are-paying-a

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply