غیرت۔۔۔ معاذ بن محمود

گھر میں قدم رکھتے ہی میری پہلی فرمائش دیوار پہ سجی وہ دونالی بندوق اتارنے کی تھی۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ ہاشم کے لیے یہ خاندانی توقیر اور جاہ و جلال کا مظہر تھی جبکہ میرے نزدیک بابا کی موت کا مؤجب۔

خاندانی تنازعہ تھا۔ ظالم نے صبح صادق کا وقت چنا۔ بابا مجھے سکول چھوڑنے جا رہے تھے۔ اس نے ہماری گاڑی روکی اور بابا پہ سیدھے دو فائر کر دیے۔ وہ کارتوس بھی ایسے ہی تھے جیسے ہاشم خان کی الماری میں پڑے ہیں۔ دو کارتوس۔ دیوار پہ سجی بندوق کے لیے خاص۔

ہماری پہلی اولاد دنیا میں آنے سے پہلے ہی روٹھ گئی تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے میری کم عمری کے باعث ایسا ہوا۔ ڈاکٹر نے ہاشم خان کو چند سال انتظار کی تاکید کی۔ ہاشم خان کو مگر صبر کہاں تھا۔ اگلے برس پھر اسی ہسپتال میں اسی ڈاکٹر کے پاس۔ ڈاکٹر معائنے کے بعد فکرمند تھا۔ اس نے پلوشے کی پیدائش سے پہلے ہی ہمیں دو آزمائشوں کی وعید سنا دی تھی۔ “آپ کی یہ اولاد نارمل نہیں، اور نہ ہی اس کے بعد آپ کبھی ماں بن سکیں گی”۔ ہم دونوں پر بجلی سی گر پڑی۔ پلوشے ڈاؤن سنڈروم کا شکار تھی۔ اس کے بعد ہمارے یہاں اولاد کے امکانات بھی صفر تھے۔ آئیندہ کی زندگی نری آزمائش تھی۔

ہاشم خان مجھ سے محبت کرتا تھا۔ شاید اسی لیے اصرار کے باوجود دوسری شادی سے انکار کرتا رہا۔ وقت کے ساتھ ہم نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ ہاشم گاؤں کا مشر تھا، بڑا تھا، اور پھر بیرون ملک سے تعلیم یافتہ لہذا گاؤں والے اس کی بہت عزت کرتے۔ علاقے کے لوگ پلوشے سے بھی بہت محبت کرتے اور اس کا حتی الامکان خیال رکھتے۔ پلوشے گھر کی چار دیواری میں روتی رہتی تاہم گھر سے باہر پھرتی خوب خوش رہتی۔ کبھی ہاشم خان پلوشے کو گود میں لیے باہر پھرتا رہتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہاشم خان اور میں عمر رسیدہ ہوتے گئے اور پلوشے قد کاٹھ نکال گئی۔ وہ ناشتے کے بعد ایک سے دوسرے دوسرے سے تیسرے ہمسائے سے ہوتی عصر کے وقت تک گھر واپس آجاتی۔

ایک دن پلوشے گھر نہیں لوٹی۔ عصر سے مغرب اور پھر عشاء تک اس کا کوئی نام و نشاں نہیں تھا۔ ذہنی معذور ہی صحیح مگر جوان بیٹی کا معاملہ تھا۔ ہاشم خان نے پولیس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن بھی پلوشے نہ مل سکی۔ میں اور ہاشم پریشان تھے۔ پلوشے نہ بول سکتی تھی نہ لکھ سکتی تھی۔

دو راتیں اس کی تلاش میں رہنے کے بعد بالآخر تیسری صبح وہ واپس گھر پہنچ گئی۔ اس کے چہرے سے معصومانہ شرارتی مسکراہٹ غائب تھی۔ وہ بار بار اپنی رانوں کے درمیان ہاتھ لے جاتی اور رو پڑتی۔ پلوشے کرب میں تھی۔ جانے ان دو راتوں کتنے جانور معصوم کا جسم نوچتے رہے۔ ہاشم خان کا چہرا آنسووں سے بھیگا ہوا تھا۔ کافی دیر تک وہ پلوشے کو سپاٹ آنکھوں سے دیکھتا رہا اور پھر گھر سے باہر چلا گیا۔

ہاشم خان کی زبان کو اس دن کے بعد جیسے چپ سی لگ گئی تھی۔ پلوشے نے ہنسنا چھوڑ دیا تھا۔ کئی دن تک گھر میں سناٹے کا راج تھا۔ پھر ایک دن میری آنکھ کھلی۔ صبح کا وقت تھا۔ پلوشے ابکائیاں کر رہی تھی۔ میں اس کی پیٹھ سہلانے لگی لیکن اندر ہی اندر میں بری طرح لرز رہی تھی۔ ہاشم خان خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی خاموشی مجھے مزید خوفزدہ کر رہی تھی۔

تین دن بعد پلوشے ایک بار پھر گھر سے غائب ہوگئی۔

اگلی صبح گاؤں سے باہر ایک کھیت سے پلوشے کی لاش ملی۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور چہرے پہ ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ اس کے سینے میں دو گہرے سوراخ تھے۔ کم و بیش ویسے ہی جیسے بابا کے سینے میں تھے۔

پلوشے کو خاموشی سے دفنا دیا گیا۔ گھر میں سب کچھ ویسا ہی تھا سوائے پلوشے کے قہقہوں کے۔ میں بھی وہی تھی۔ ہاشم خان بھی وہی تھا۔ بندوق بھی وہی جو خاندان کی توقیر اور جاہ و جلال کی مظہر تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر چیز اپنی جگہ پہ ویسی ہی ساکت تھی۔ ہاں ہاشم خان کی الماری میں ایک تبدیلی آئی تھی۔ وہاں سے دیوار پہ سجی خاندانی بندوق کے دو کارتوس اب غائب ہوچکے تھے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”غیرت۔۔۔ معاذ بن محمود

  1. This is one of the tragedies of all the societies in the world. Mentally incapable children, especially girls are victims of such monstrosity. Parents of such daughters need to be extra careful.

Leave a Reply to Dr Saleem Cancel reply