مصر اور پاکستان ۔ عسکری وسائل کا تقابل

پوری اسلامی  دنیا میں   عسکری  وسائل اور افواج میں سب سے زیادہ طاقتور   سمجھے جانے والے ممالک میں صرف پاکستان اور مصر کا ہی نام آتا ہے۔مصر دو براعظموں میں واقع ہے ، کچھ حصہ افریقی اور کچھ حصہ  ایشیا میں آتا ہے ، عرب میں مصر کو خلیجی ممالک کی فہرست میں نہیں گنا جاتا، لیکن عرب ممالک کی فہرست میں گنا جاتا ہے، براعظم  ایشیا اور  افریقہ کے مصر  کے حالات کو بالکل پاکستان کی تقسیم سے پہلے کے مغربی اور مشرقی پاکستان  کی معاشی حالات اور ترقی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایشیا میں موجود مصر کا تعلیمی نظام اور معاشی ڈھانچہ  افریقی مصر سے   خاصا بہتر ہے ۔ باقی افریقی مصر کا حال بالکل پاکستان کے  دیہاتی عوام جیسا ہی ہے، اور افریقی مصر کے لوگ ایشیائی مصر کے مقابلے میں زیادہ محنتی اور جفا کش لوگ ہیں۔ یہاں  ۹۲ فیصد آبادی مسلم ہے اور ۸ فیصد آبادی کا تعلق  عیسائیت سے ہے ۔ شہری آبادی میں موجود لوگوں کی پہنچ میں اچھی تعلیم ہے، اس لئے شہری علاقوں کے مصری افراد اگر ملک سے باہر روزگار کے لئے جانے کی خواہش رکھتے ہیں تو  یورپ اور امریکا جانے کو ترجیح دیتے ہیں  ، لیکن دیہاتی علاقوں کی آبادی کا کم و بیش  بالکل پاکستان جیسا حال ہے، سوائے اس کے کہ یہاں کے محنتی افراد خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور وہاں زبان کی یکسانیت کی بنیادوں پر انہیں معقول روزگار یا پھر چھوٹے موٹے کاروبار کے مواقع مل جاتے ہیں ، علاوہ اپنے ملک میں وسائل اور بنیادی چیزوں کا حصول کم و بیش پاکستان جیسا ہی ہے۔مصر کا المیہ بھی یہی ہے کہ یہاں یا تو بہت ہی زیادہ امیر لوگ رہتے ہیں یا پھر بہت ہی غریب لوگ۔ حکومتی سطح پر عوام کی فلاح، تعلیم اور صحت  کے لئے کوئی بہتر  انتظامات نہیں ہیں ، یہاں بھی این جی اوز ہی کافی سطح تک عوامی فلاح کا کام کرتیں ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ خلیج کے ممالک میں روزگار کے لئے جانے والے مصری ڈاکٹرز اور انجینئرز کا یہ حال ہے کہ ان  میں سے اکثریت انگریزی سے نابلد ہیں اور  کئی بنیادی  میڈیکل اصلاحات تک کو  نہیں جانتے ۔بین الاقوامی اداروں کے سروے کے مطابق دنیا کے بد اخلاق ترین لوگوں میں مصری لوگوں کا شمار ہوتا ہے، اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا میں  بازار یا روڈ پر چلنے والی عورتوں کو سب سے زیادہ غیر مناسب رویوں  کا سامنا بھی عوامی سطح پرمصر میں ہی کرنا پڑتا ہے ۔تاریخی حوالوں کی وجہ سے مصر سیاحتی طور پر پوری دنیا کو متوجہ کرنے والا ملک ہے ، لیکن یہاں کی پولیس بھی  ایشیائی یا عرب ممالک کے سیاحوں سے رقم اور رشوت اینٹھنے میں کافی مشہور ہے،مصری عوام میں اخلاقی رویوں میں اپنے جد امجد فرعون کا عکس نظر آتا ہے اور  مصر کاشمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں فوجی آمر وں نے عرصہ دراز تک حکومت کی ، اور ان کی تیسری نسلیں آج بالکل پاکستان کی طرح ذہنی اپاہج  اور ایک عجیب قسم کی شدت پسندی  کا شکار ہیں۔جیسے پاکستان کی فوج کے زیر انتظام ۵۰ کاروباری کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ ویسے ہی مصر کی مسلح افواج بھی مختلف طرح کے کاروباروں میں ملوث ہے۔اور مصر میں بھی پاکستان کی طرح مقامی  کرنسی ڈالر کے مقابلے میں روز بروز گر رہی ہے، اور مہنگائی کا طوفان عام آدمی کہ زندگی مشکل بنا رہا ہے ۔

پاکستانی افواج کے کاروبار:

کچھ عرصہ قبل تک تو عوام  صرف ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فوجی فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام  چلنے والے کاروباری اداروں کو ہی افواج کے تحت چلنے والے کاروبار سمجھتی تھی، لیکن   ان کاروباروں کے علاوہ بھی کئی ایک  کاروباری اداروں میں رہائشی سکیمیں، فارمز، کھاد، چینی اور سیمنٹ بنانے کے کارخانے، ریسٹورنٹ، بینک، انشورنس کمپنی، کپڑے بنانے کے کارخانے، بجلی گھر، گوشت پراسیسنگ یونٹ اور سکیورٹی فراہم کرنے کی کمپنیاں شامل ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ ملک کی آمدن میں سے خطیر رقم دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے فوج کو فراہم کی جاتی ہے لیکن پاکستان کی فوج اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف کاروباری ادارے بنانے اور انھیں وسعت دینے میں کیوں  دلچسپی لیتی ہے؟

پاکستان میں دفاعی اُمور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وہ ممالک جہاں فوج کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جاتے وہاں فوج کو محدود پیمانے پر کاروبار کرنے کی اجازت دی جاتی تھی  لیکن پاکستانی حکومت تو خطیر پیمانے پر ایک بجٹ مختص کرکے  فوج کو پورے وسائل فراہم کرتی ہے۔ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق  ۵۰  کی دہائی میں یہ ادارے فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران کو مراعات فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن ان  ریٹائرڈ فوجیوں کو پینشن بھی ملتی ہے۔ عائشہ صدیقہ کا مزید کہنا ہے کہ ’پیشہ وارانہ افواج اپنے آپ کو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف نہیں کرتیں اور فوج کو ملنے والے فنڈ کا آڈٹ تو ہوتا نہیں اس لیے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا فوج کو ملنے والا بحٹ کہیں ان نجی کاروباری اداروں میں تو استعمال نہیں ہوتا۔ یہ بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہے کہ ان میں کتنے ریٹائرڈ اور کتنے حاضر سروس افراد شامل ہیں۔‘

مصری افواج کے کاروبار:

مصر پر ۴۰ برس تک حکومت کرنے والےفوجی  آمر حسنی مبارک کے بعد حزب التحریر کے نتیجے میں آنے والے انقلاب کے بعد آنے والی جمہوری حکومت بھی زیادہ عرصے تک چل نہ سکی اور ایک بار پھر  فوج کی طرف سے تختہ الٹنے کے بعد عبد الفتاح سیسی کی حکومت بنا دی گئی ، اورمصر کی مسلح افواج کے سابق جنرل اور اب ملک صدر عبدالفتاح سیسی کی صدارت کے دوران فوج کی ملکیت والی کاروباری کمپنیاں طاقت ور ہوتی جارہی ہیں۔ ایسی ایک کلیدی کاروباری کمپنی مادی کارپوریشن ہے جو مصر کی وزارت برائے دفاعی پیداوار کی ملکیت ہے۔ یہ کمپنی ۱۹۵۴ء میں قائم کی گئی تھی، جو اس وقت گرنیڈ لانچر، پستول اور مشین گن بناتی تھی۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہ کمپنی گرین ہاؤس، طبی آلات، پاور ٹولز اور جم کا سازوسامان تیار کر رہی ہے۔ مصری فوج کے ایک ریٹائرڈ اعلیٰ افسر عبدالمجید کہتے ہیں کہ مادی کارپوریشن کو حال ہی میں ۲ کروڑ ۸۰  لاکھ ڈالر کے آرڈر ملے ہیں۔ رائٹرز کا کہنا ہے کہ مادی کاپوریشن مصر میں فوجی ملکیت کی درجنوں کمپنیوں میں سے ایک ہے جو سابق فوجی صدر سیسی کے دور میں پھلی پھولیں۔ مصری فوج کے ایک کمپنی میں ۵۱  فیصد شیئر ہیں، جو قاہرہ سے ۷۵  کلومیٹر مشرق میں ۴۵  ارب ڈالر کی لاگت سے ملک کا نیا دارالحکومت تعمیر کر رہی ہے۔ فوجی ملکیت کی ایک اور کمپنی ملک کا سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ تعمیر کر رہی ہے، جب کہ فوج کے دیگر کاروباروں میں مچھلی فارمز سے لے کر ہالی ڈے ریزارٹ تک شامل ہیں۔ مصر کے کاروباری حلقے اور غیر ملکی سرمایہ کار فوجی کاروباروں کے حوالے سے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں اس سے نقصان پہنچا ہے، کیوں کہ فوجی ملکیت کی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ سمیت کئی مراعات حاصل ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی آئی ایم ایف نے بھی ستمبر ۲۰۱۷ ء میں خبردار کیا تھا کہ فوج کی ملکیت میں چلنے والے کاروباروں کی وجہ سے نجی شعبے کی ترقی اور روزگار کے مواقع متاثر ہوں گے۔ تاہم مصر کی حکومت کا اصرار ہے کہ مصر کے نجی شعبے کے لیے کاروبار کے مساوی مواقع موجود ہیں اور فوجی کاروبار محض مارکیٹ میں موجود گیپ کو پر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے ۲۰۱۶ ء میں نوزائیدہ بچوں کے خوراک کے ڈبوں کی قلت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے اس قلت کو دور کرنے کے لیے بچوں کی خوراک کے ڈبے درآمد کیے اور اب وہ ان کی ملک کے اندر تیاری کے لیے پلانٹ لگا رہی ہے۔ اسی سال ۲۰۱۶ ء میں حکومت نے فوجی کاروباروں کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس سے استثنا دے دیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں بننے والے قانون میں کہا گیا ہے کہ یہ استثنا ایسی اشیا، سازوسامان، خدمات اور خام مال میں دیا جائے گا، جن کی فوجی ہتھیاروں، دفاع اور قومی سلامتی کے لیے ضرورت ہے، لیکن اس بات کا اختیار بھی فوج کو دے دیا گیا کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ اس استثنا کے حقدار کون کون سے کاروبار ہیں۔مصر میں  سویلین بزنس مین شکایت کرتے ہیں کہ اس سے اس رعایت کے ناجائز استعمال کی راہ ہموار ہو گی۔ مثال کے طور پر نجی شعبے کے ایک ہوٹل میں ایک کپ کافی پر ۱۴  فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس کاٹا جاتا ہے، لیکن فوجی ملکیت کے ہوٹل اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ تاہم قاہرہ میں موجود فوجی ملکیت کے الماسا ہوٹل نے شادیوں اور کانفرنسوں کے لیے جگہ کرائے پر دینے پر بھی کوئی ویلیو ایڈڈ ٹیکس چارج نہیں کیا گیا۔ مصر میں  فوجی کاروباروں کو ۳ شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ فوجی پیداوار کی وزارت ۲۰  کاروباروں کو کنٹرول کرتی ہے، جب کہ وزارت دفاع درجنوں کاروباروں کی مالک ہے اور سرکاری ملکیت کی عرب تنظیم برائے صنعتکاری کے ماتحت ۱۲  کاروبار ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ملکی معیشت میں فوجی کاروباروں کا حصہ ۲۰  سے ۵۰  فیصد تک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسے مصر میں لوگوں کی ذہنی ، اخلاقی ، اور معاشی پسماندگی نظر آتی ہے ویسے ہی پاکستان میں مجموعی طور پر معاشرے کا یہی المیہ ہے ، کیونکہ دونوں ممالک کی افواج فقط ڈبل روٹی سیمنٹ اور گوشت بیچنے میں مصروف ہے  اور اپنے اپنے عوام سے وہ کمائی تو  کمرشل بنیادوں پر چاہتے ہیں اور اپنی عوام سے  تعلقات عسکری بنیادوں پر رکھتے ہیں۔علاوہ ازیں جیسے پاکستان میں تمام داخلی و خارجی فیصلے امریکی ڈالروں کی مدد سے تبدیل ہوتے ہیں ویسے ہی مصر کے داخلی و خارجی فیصلے سعودی ریالوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply