ڈُوبتا الحاد، جدید سائنس اور اسلام۔۔۔محمد شاہزیب صدیقی

جُوں جُوں سائنس ترقی کی منازل طے کررہی ہے ویسے ویسے الحاد اپنی آخری سانسوں کی جانب گامزن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دورِ حاضر الحاد کے لئے مشکل ترین حالات لئے کھڑا ہے تو غلط نہ ہوگا،الحاد کے پرخچے اڑانے میں رہی سہی کسر کوانٹم فزکس اور سٹرنگ تھیوری نے پوری کردی ہےاور انہی دو علوم کو سائنس کا مستقبل قرار دیا جارہا ہے،سو مستقبل میں الحاد کے پلے دُشنام طرازی کے سوا کچھ نہیں رہے گا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جدید دور کےملحدین الحاد کو آخری سانسیں لیتا دیکھ کر عقل کی جگہ جذبات سے کام لینا شروع ہوگئے ہیں۔ نہیں یقین تو آج آزما لیں!کسی بھی ملحد سے مکالمے کے دوران اس سے دلائل کم اور اخلاقیات سے عاری زبان زیادہ دیکھنے کو ملے گی۔ ملحدین کے اس بچگانہ رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الحاد خود ایک مذہب کی شکل اختیار کرچکا ہے ، ایک ایسا مذہب جس کے پاس دلیل نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی مگر پھر بھی جذبات سے بھرا چند افراد کا ٹولہ اس کو زندہ رکھنے کے لئے آخری کوششیں کررہا ہے۔

کتنی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کہ جب کوئی مُلحد پوری کائنات میں پھیلی ہوئی مختلف فیلڈز کا تو اقرار کرتا ہےمگر اگلے ہی لمحے خُدا کی ذات کا انکار کر دیتا ہے۔یہ توتسلیم کرتا ہے کہ ہم 3 سے زیادہ ڈائمنشنز نہیں دیکھ سکتے مگرپھر بھی کسی ملٹی ڈائمنشن وجود کی حامل ہستی کا انکار کرتا دِکھائی دیتاہے۔ کچھ وقت پہلے تک جب دین اسلام کہتا تھا پوری کائنات “کُن فیکون” کے تحت وجود میں آئی تو یہی ملحدین ہنستے تھے مگر آج وہی ملحدین انتہائی انہماک سے “انفلیشن تھیوری” کو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جدید فلکیات بتا رہی ہے کہ بیگ بینگ کے فوراً بعد کائنات روشنی سے لاکھوں گنا تیزرفتاری سے ایک نقطے سے”یکدم” پھیل کر انتہائی عظیم ہوگئی، اسلام کے”کُن” کو آج کا ملحد “یکدم” کی صورت میں قبول کرتا دِکھائی تو دیتا ہےمگر کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارہ نہ کرتاکہ 1400 سال پہلے ٹیلی سکوپ اور دوربین کی غیرموجودگی میں جب کائنات کو پوری دنیا ساکن تصور کررہی تھی تو ایسے وقت میں کون”کُن فیکون” کا concept دے سکتا ہے؟

کھُلے دل سے یہ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا کہ قرآن مجید کسی ایسی ذات کی جانب سے لکھا گیا ہے جو پوری کائنات  کے انفراسٹرکچر سے اچھی طرح واقف ہے۔آج سائنس اس متعلق عقل کے گھوڑے دوڑا رہی ہے کہ ہمارے دل میں بھی میموری نیورونز موجود ہوتے ہیں جو میموری سٹور کرتے ہیں اور اُن میموریزکو recallکرنے پہ آپ جذباتی بھی ہوجاتے ہیں، یہی بات جب مذہب کہتا تھا تو ملحدین ہنستے تھے۔ملحدین کی خوش فہمی تھی کہ جدید سائنس تحقیقات کے بعد مذہب کے تمام نظریات کو دیوار کے ساتھ لگا دے گی مگر وقت ثابت کررہا ہے کہ سائنس گزرتے ہروقت کے ساتھ ساتھ اسلام کے آگے سر تسلیم خم کرتی جارہی ہے۔

ہبل نے سو سال پہلے اپنی فلکیاتی دُوربین کے ذریعے جب کائنات کے پھیلاؤ کا عندیہ  دیا  تو  اس کو فلکیاتی تاریخ میں عظیم کارنامہ کہا گیا۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس کو ایک انقلابی دریافت قرار دیا تھا۔یہی بات قرآن مجید نےسینکڑوں سال پہلے ان الفاظ میں کہی تھی:
ترجمہ: ’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘ (سورۃ الانبیاء: آیت نمبر 30)

جدیدسائنس کے مطابق پودوں میںmale اور femaleدونوں جنس کے پودے موجود ہوتے ہیں، قدرت نے ہر چیز جوڑے کی شکل میں بنائی ہے،حتیٰ کہ ایٹم میں موجود پروٹان کوارکس سے مل کر بنتا ہے ، کوارکس کی چھ اقسام ہیں اور ہر کوارک 2 چھوٹے سب-کوارک (sub-quarks) سے مل کر بنتا ہے۔ آج سائنس یہ بھی تسلیم کررہی ہے کہ کائنات جس وقت وجود میں آئی تو مادہ اور ضدمادہ ایک جیسی تعداد میں تھےیعنی مادہ بھی جوڑے کی شکل میں وجود میں آیا۔ دینِ اسلام اس حقیقت کو کئی صدیاں پہلے ان الفاظ میں عیاں کرچکا ہے:
“اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں” (سورۃ الذاریات:آیت نمبر 49)

فنگر پرنٹ کی حقیقت اور اہمیت سے آج کا کوئی انسان انکار نہیں کرسکتا۔ جدید سائنس نے تحقیق کے بعد بتایا کہ اس کائنات میں ہر شخص کا فنگر پرنٹ اپنی نوعیت کا واحد پرنٹ ہے، یہاں تک کہ آپ کے جڑواں بھائی یا بچوں تک کا فنگر پرنٹ کسی طور آپ سے میچ نہیں کرسکتا، لیکن یہی حقیقت جب مذہب عیاں کرتا تھا تو ملحدین اور کفار ہنستے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے:
“کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے میں قادر ہیں” (سورۃ القیامۃ:آیت نمبر 3 اور 4)

آج سائنس اسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے مجرموں کی شناخت کرتی ہے، پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک اپنے شہریوں کے فنگرپرنٹس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔آج سے کئی صدیاں پہلے تک بارش کے متعلق یہی نظریہ رائج تھا کہ سمندر کے اوپر پانی باریک قطروں کی صورت میں موجود ہوتا ہے جسے تیز ہوائیں اپنے ساتھ خشکی کے علاقوں میں لے آتی ہیں اور بارش ہوتی ہے، لیکن تقریباً سو سال قبل سائنس کو بارش کے سائیکل کے متعلق صحیح طرح علم ہواجبکہ دینِ اسلام نےبارش کے چکر کے متعلق کئی صدیاں پہلے حقیقت بیان کردی تھی۔بارش کے چکر کو چھوڑیے ،زمین پر پانی اور لوہے کی موجودگی سائنسدانوں کے لئے ایک عرصے سے سر درد بنی ہوئی تھی،

جدید تحقیقات نے بتایا کہ لوہا ہمارے سورج سے بڑے ستارے میں پیدا ہوتا ہے، جب ہمارے سورج سے بڑے ستارے کے مرکز میں لوہا پیدا ہوتا ہے تو وہ ستارہ عظیم دھماکے سے پھٹتا ہے جس کے باعث اس میں موجود لوہا خلاء میں بکھر جاتا ہےبعدازاں یہی لوہادیگر سیاروں پہ گر جاتا ہے،اسی طرح ہمارے نظام شمسی کے آس پاس پانی کے بادل کہیں دکھائی نہیں دئیے گئے جس وجہ سے سائنسدان حیران تھے کہ پانی، لوہا اور دیگر مادنیات کیسے زمین پر آئیں؟

ابھی کچھ عرصہ قبل سائنسدان اس حقیقت پہ اتفاق کرتے دِکھائی دیئے کہ لوہا اور پانی نظامِ شمسی سے باہر کہیں کسی پتھر کے ذریعے زمین پر آئے، خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ زمین پر پانی برفیلے پتھروں میں قید ہوکر آیا اور جس کےبعد زمین پہ ایک لمبے عرصے کے لئے برفیلا دور بھی آیا جسے Iceage کہا جاتا ہے۔ ان حقائق کو دینِ اسلام نے اس انداز میں بیان کیا:
“اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین پہ ٹھہرا دیا، ہم اسے جسطرح چاہے غائب کرسکتے ہیں”(سورۃ المومنون: آیت نمبر18)
“اور وہ آسمان سے جو ان میں پہاڑ ہیں ان سے برف برساتا ہے” (سورۃ النور: آیت نمبر43)
“اور ہم نے(آسمان سے) لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں ” (سورۃ الحدید: آیت نمبر 25)

قدیم زمانے میں درد وغیرہ کو محسوس کرنے کا ذمہ دار دماغ کو قرار دیا جاتا تھا لیکن جدید سائنس نے اسے رَد کیا اور دنیا کو باور کروایا کہ ہماری skinپر درد محسوس کرنے والے receptorsموجود ہیں اور اگر کبھی جسم اتنا جھلس جائے کہ جلد پر موجود receptors تک جل جائیں تو درد محسوس نہیں ہوپاتا۔اسی حقیقت کی جانب قرآن مجید ایسے اشارہ کرتا دِکھائی دیتا ہے:
“جن لوگوں نے ہماری آیات ماننے سے انکار کردیا ہے انہیں یقیناًہم آگ میں جلائیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں” (سورۃ النساء:آیت نمبر56)

اس آیت میں ان receptorsکے متعلق اتنا واضح اشارہ تھا کہ اٹانومی کے مشہور تحقیق دان Prof. Tagatat Tejasenاس آیت کو پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ جنہیں سچائی کی تلاش ہوتی ہے وہ حق ملنے پر ملحدین کی طرح تاویلیں پیش کرتے دِکھائی نہیں دیتے اور کھُلے دل سے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ بہرحال مزید نظر دوڑائیں تو سائنس آج یہ حقیقت عیاں کرتی دِکھائی دیتی ہے کہ شہد کی مکھیوں میں سپاہی ، مزدور اور بادشاہ تین اقسام موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح چیونٹیوں میں بھی یہ categories پائی جاتی ہیں۔چیونٹیوں کی کالونیوں میں باقاعدہ بازار موجود ہوتے ہیں، یہ آپس میں ملتی ہیں باتیں کرتی ہیں،خوراک کو باقاعدہ سٹاک کرکے رکھتی ہیں۔ دیگر جاندار بھی انسانوں کی طرح کالونیوں کی صورت میں رہتے ہیں اور رہن سہن کا طریقہ کار بھی انسانوں سے میل کھاتا ہے۔

ان حقائق کا مشاہدہ سائنس جدید آلات کے بعد کرپائی ہےمگر قرآن مجید اِس سب کو چودہ سو سال پہلےان الفاظ میں بیان کرچکا ہے:
“زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندےکو دیکھ لو، یہ سب تمہاری طرح کے معاشروں میں (رہتے)ہیں” (سورۃ الانعام: آیت نمبر38)

آج سے 2 سو سال پہلے تک ایٹم کو ناقابل تقسیم ذرہ قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن پھر الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران کی دریافت نے سارا منظرنامہ ہی بدل دیا۔بعدازاں سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ پروٹان کو بھی آگے کوارکس میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، لیکن قرآن مجید نے کئی صدیاں پہلے ہی ایٹم کو قابل تقسیم قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا:
“منکرین کہتے ہیں کیا بات ہےکہ قیامت ہم پہ نہیں آرہی، کہو! قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ(قیامت) تم پر آکر رہے گی۔اس (پروردگار) سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں پوشیدہ ہےنہ زمین میں۔ نہ ذرے سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی۔ یہ سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے” (سورۃ السباء:آیت نمبر 3)

اس آیت میں لفظ “ذرے” کا ذکر ہے،یاد رہے اُس وقت دنیا بھر میں ایٹم کو “ذرہ” ہی کہا جاتا تھا اور اس آیت مبارکہ میں واضح طور پہ ذکر موجود ہے کہ ذرے (ایٹم) سے چھوٹی اشیاء بھی اللہ پاک سے پوشیدہ نہیں ہیں جسے بعد میں سائنس نے تسلیم کیا کہ ایٹم قابل تقسیم ہے۔اسی طرح آج ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں ایسے علاقے موجود ہیں جدھر 2 سمندر ہوتے ہوئے بھی ان سمندروں کا پانی آپس میں mix نہیں ہوتا، جیسےان کے درمیان کوئی دیوار حائل ہو، ان کا بھی تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ فرعون کی ممی کے محفوظ ہونے کےمتعلق قرآن کریم نے صدیاں پہلے پیشنگوئی کردی تھی مگر وہ سو سال پہلے ملی،اور جدید تحقیق نے ثابت کیا کہ یہ وہی فرعون ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں موجود تھا۔سمندر کی ایک کلومیٹر کی گہرائی کے بعد بالکل اندھیرا ہوجانا آج سائنس جان رہی ہے مگر یہی حقیقت قرآن مجید سینکڑوں سال پہلے بیان کرچکا ہے۔

دنیا بھر کے سائنسدان اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں موجود پیشنگوئیاں کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔آج ناسا اور ماہرین فلکیات جانتے ہیں کہ زمین بیضوی ہے اور یہ بیضوی پن اس قدر کم ہے کہ خلاء میں عام آنکھ سے محسوس نہیں ہوپاتا مگر موجود ضرور ہے، اس سے پہلے زمین کو فلیٹ مانا جاتا تھا،جس عہد میں زمین کو فلیٹ مانا جاتا تھاقرآن کریم نے اُس وقت زمین کو شطرمرغ کے انڈے سےتشبیہ دی جو کہ بیضوی ہوتا ہے۔ماہرین فلکیات تسلیم کرتے ہیں کہ چاند زمین کے گرد گھوم رہا، زمین سورج کے گرد گھوم رہی اور سورج بلیک ہول کے گرد گھوم رہا ہے،جدید سائنس کے اس دعوے پر قرآن کریم نے سینکڑوں سال پہلے یہ کہتے ہوئے مہرتصدیق ثبت کی کہ:
“نہ سورج کو مجال ہے کہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آسکتی ہے، اور ہر ایک ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے” (سورۃ یٰس: آیت نمبر 40)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ پاک نے تمام اجسام کے گردش کرنے کو تیرنے سے تشبیہ دی ہے، ان تمام اجسام میں زمین، سورج، چاند، ستارے سب آجاتے ہیں۔سائنس نے کچھ عرصہ قبل بلیک ہولز کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ عظیم ستاروں کو پلک جھپکنے میں ہڑپ کرجاتے ہیں ، اس حقیقت کو بھی قرآن مجید سورۃ الواقعہ کی آیت نمبر 75 میں “ستاروں کے ڈوبنے کے مقام”کا کہہ کر بتا چکا ہے۔سورۃالرحمٰن کی آیت نمبر 33میں اللہ پاک نے واضح طور پہ فرمایا کہ اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ، تم بغیر زور کے نہ نکل سکوگے۔

مذکورہ آیت میں قرآن مجید نے 1400 سال پہلے انسان کے خلاء میں پہنچنے کی پیشنگوئی کردی تھی، آج سائنس مانتی ہے کہ زمین کے کناروں سے نکلنے کے لئے انسان کو بے حد قوت چاہیے ، اتنی قوت کہ اگر کسی چیز کو 11 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اچھالا جائے تب وہ چیز زمین کی کشش ثقل سے نکلنے میں کامیاب ہوپائے گی۔قرآن مجید میں اللہ پاک نے زمین کو قالین کی طرح بچھانے کی بات کی ، ماہر ارضیات مانتے ہیں کہ زمین دراصل plates پر مشتمل ہے جو مائع حالت میں موجود لاوےپہ تیر رہی ہیں ، سو ہم دراصل زمین کے اوپر plates پہ موجود ہیں جو قالین کی طرح بچھی ہوئی ہیں۔قرآن مجیدکئی جگہوں پہ 7 زمینوں کا ذکر کرتا دِکھائی دیتا ہے آج جیولوجی کے ماہرین زمین کی تہوں کو 7 حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، جن کے نام یہ ہیں:
1. Lithosphere (water)
2. Lithosphere (land)
3. Asthenosphere
4. Upper Mantle
5. Lower Mantle
6. Outer Core
7. Inner Core

جی بالکل! یہ سب پہلے سے قرآن کریم میں موجود تھا اور مسلمان مفکرین اس کی تائید بھی کرتے دِکھائی دیئے مگر سائنس کو انہیں سمجھنے میں وقت لگا۔ کچھ گروہوں کی جانب سے سائنس اور مذہب کو جُدا رکھنے پہ زور دیا جاتا ہےمگر حقیقت یہ ہے کہ سائنس اسلام کی ایک شاخ ہے،سو جو مسلمان سائنس کو اسلام مخالف سمجھ کر اس سے نفرت کرتے ہیں انہیں اپنے رویےپہ نظرثانی کی اشدضرورت ہے۔ ہمیں یہ کھُلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر کسی بھی سائنسی تھیوری میں مذہب اور سائنس تصادم کرتے دِکھائی دیتے ہیں تو اُس ضمن میں سائنس کومزید تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں سائنس ابھی اس لیول پہ نہیں پہنچ پائی کہ اِس چیز کو سمجھ پائے یا ثابت کرپائے(جیسےماضی میں ہوتا رہا ہے)۔ الحاد کی بربادی کا انتظام کرتے ہوئے سائنس ملحدین کے تمام اعتراضات کو ایک ایک کرکے رَد کرنا شروع ہوگئی ہے وہ وقت دُور نہیں جب سائنس خُدا کے وجود کو تسلیم کرلے گی، اُس وقت ملحدین کے پاس کچھ نہیں رہنے والا۔

مذکورہ بالا تمام حقائق سمجھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ملحدین بغیر تحقیق کے ہی ہوائی فائرنگ کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ آج مذہب خلائی مخلوق، جنات،ٹائم ٹریول،آسمان کے کناروں سے نکلنے کے دعوے کرتا دِکھائی دیتا ہے یہ سب بھی آنے والے وقت میں سائنس ثابت کردے گی۔ الحاد کے پلے صرف اور صرف رسوائی ہی رہ جانی ہےجو کہ ہر دور میں اس کا مقدر رہی ہے۔ سٹرنگ تھیوری بتارہی ہے کہ ہماری کائنات 11 جہتی ہے جس میں سے ہم انسان صرف 3 جہتیں ہی دیکھ سکتے ہیں، بقیہ جہتوں میں کیا منظرنامے چل رہے ہیں؟ وہاں کی دنیا کیسی ہے؟ جنت و دوزخ کسی اور دائمنشن کی دنیا میں موجود ہوسکتی ہیں ؟

ملحدین کے صف اول رہنمارچرڈڈاکنز کچھ عرصہ پہلے یہ خیال شئیر کرتے دِکھائی دئیے گئے کہ زمین پر جوسب سے پہلا خلیہ وجود میں آیا ہوسکتا ہے کہ وہ خلیہ کسی Advancedمخلوق کی جانب سے زمین پہ بھیجا گیا ہو،یہ سب نظریات تو دین اسلام کی تائید کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ دہریت اپنے آخری عہد میں جی رہی ہے،الحاد ڈوب رہا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈُوبتے الحاد کو زندگی کا پروانہ دینے میں کچھ معصوم مسلمانوں کا بھی ہاتھ ہے جنہوں سائنس کو اسلام مخالف کہہ کر ملحدین کے حوالے کردیا تھا، یہ”معصوم” مسلمان آج بھی موجود ہیں اور سائنس مخالف نظریات کی اشاعت میں دن رات سرگرم ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سائنس تو اسلام کے آگے سرجھکائے کھڑی ہے بس ہمارے دیکھنے میں غلطی ہوسکتی ہے،لہٰذاگزارش ہے کہ سائنس سے محبت کریں، یقین کریں ملحدین کو آپ سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا خطرہ اس بات سے ہے کہ سائنس پر دوبارہ مسلمانوں کا کہیں غلبہ نہ ہوجائے ۔مذکورہ بالا تمام تحقیق سمجھنے اختتام میں یہی کہا جاسکتا ہےکہ:
؎ پھیلاء کے گوشہء دامنِ تجسس اپنا
سائنس محمدﷺ کا پتہ پوچھ رہی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ڈُوبتا الحاد، جدید سائنس اور اسلام۔۔۔محمد شاہزیب صدیقی

Leave a Reply to شہریار عطا Cancel reply