بیلٹ اینڈ روڈ

بیلٹ اینڈ روڈ
سید اسد عباس
ون روڈ فقط ایک شاہراہ نہیں ہے بلکہ ذرائع رسل و رسائل کے ایک بڑے نیٹ ورک پر مشتمل نظام کا نام ہے، جو بنیادی طور پر دو ہزار سالہ قدیم شاہراہ ریشم، جو اس وقت کے چینی وزیر زون کیانگ کے رسوخ سے قائم ہوئی، کی جدید شکل ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم نے کئی صدیوں تک خطے کے ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ون بیلٹ اینڈ ون روڈ (OBOR) موجودہ چینی صدر زی جن پنگ کا پیش کردہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو فقط ذرائع رسل و رسائل کا منصوبہ یا معاشی منصوبہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے سیاسی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ بنیادی طور پر یہ منصوبہ تین براعظموں کے ممالک کو آپس میں جوڑے گا۔ زی جن پنگ نے 2013ء میں یہ منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کے تحت چین سے دنیا کے مختلف ممالک کی جانب مختلف شاہراہوں، ریلوے کے نظام، پائپ لائنز اور گرڈز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سمندری راستے کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقا کے تقریباً ساٹھ ممالک کو جوڑا جائے گا، جن کی مشترکہ جی ڈی پی قریبا 21 ٹریلین ڈالر ہے۔ یوں یہ خطہ باہمی تجارت، لین دین اور روابط کی لڑی میں پرویا جائے گا۔

چینی حکام کے مطابق اس منصوبے کا مقصد شاہراہ ریشم کے خطے کو ایک مضبوط معاشی خطہ بنانا، ثقافتی تبادلہ اور کاربار میں وسعت ہے۔ شاہراہ ریشم جو وسطی ایشیاء، مغربی ایشیاء، مشرق وسطٰی اور یورپ کو آپس میں جوڑتی تھی، کو اب سمندری راستہ کے ذریعے وسعت دے کر جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیاء سمیت بعض افریقی ممالک کو بھی جوڑنے کا ایک ذریعہ بنائے جانے کا منصوبہ پیش نظر ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اس منصوبے کو چینی نیوورلڈ آرڈر کا نام دیا ہے۔ ان کو یہ منصوبہ جی20، ٹرانس پیسفک اور ٹرانس اٹلانٹک منصوبوں کا جواب دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کے کچھ دیگر ممالک کو بھی اس منصوبے کے حوالے سے تحفظات ہیں، جیسا کہ بھارت جس کا خیال ہے کہ اس منصوبے سے بھارت کے بجائے پاکستان یعنی اس کے قدیم حریف کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی لئے ہندوستان نے آج یعنی 14 مئی 2017ء کو چین میں ہونے والی اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کی۔

روس کے صدر پیوٹن، پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ترکی کے صدر رجب طیب اردغان سمیت دنیا کے 29 سربراہان مملکت اس تقریب میں شریک ہیں۔ ان سربراہان نے اس منصوبے کی کامیابی اور اس میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ سی پیک جو ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے، ایک اقتصادی منصوبہ ہے، جو سرحدوں میں مقید نہیں، ہر ملک اس منصوبے کا حصہ بن سکتا ہے، تاہم ضروری ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے، میاں نواز شریف نے مزید کہا کہ جغرافیائی معاشیات جغرافیائی سیاست سے زیادہ اہم اور فائدہ مند ہے، جس سے ممالک کے مابین تصادم کے بجائے تعاون کو فروغ ملے گا۔ وزیراعظم پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس منصوبے کے معاشی و اقتصادی فوائد ظاہر ہونے کے بعد خطے کے وہ ممالک جو اس منصوبے کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، وہ بھی اس کی اہمیت اور ضرورت کے قائل ہو جائیں گے۔ جغرافیائی یگانگت کے سبب ان ممالک کے لئے اس منصوبے سے باہر رہنا آسان نہیں ہوگا۔ یقیناً اس منصوبے میں شراکت داری کے سبب خطے کے بعض اہم سیاسی مسائل بھی حل ہونے کی توقع پیدا ہو جائے گی۔ بہرحال چینی قیادت اور خطے کے بعض دیگر ممالک اس منصوبے کے حوالے سے بہت پر عزم ہیں۔ 2013ء سے 2017ء تک اس منصوبے کے حوالے سے بہت سا سفارتی اور سیاسی ہوم ورک کیا جا چکا ہے۔ چین اس وقت تک متعدد ممالک کے ساتھ عملی منصوبوں پر دستخط کر چکا ہے، جس میں ہنگری، منگولیا، روس، تاجکستان اور ترکی شامل ہیں۔ عملی میدان میں چین اور ایران کے درمیان ریلوے کا نظام جو کہ یورپ تک جائے گا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں ہائی سپیڈ ریلوے کا نظام رو بہ عمل ہے۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے اور مالی وسائل کی فراہمی کے لئے AIIN کے نام سے ایک بینک اور سلک روڈ فند بھی قائم کیا جاچکا ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاری کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

پاکستان میں قائم کیا جانے والا کروٹ ہائیڈرو پاور سٹیشن سلک روڈ فنڈ کا پہلا منصوبہ ہے۔ اسی فنڈ کے تحت چینی حکومت نے 2030ء تک پاکستان میں ہائیڈرو پاور کے منصوبوں میں 350 ملین یو ایس ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چین نے پاکستان کے علاوہ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان میں بھی ذرائع رسل و رسائل کو بہتر بنانے کے حوالے سے سرمایہ کاری کی ہے۔ اسی طرح چین بھارت میں بھی سرمایہ کاری کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ سلک روڈ فنڈ اور AIIN بینک کے حوالے سے چینی صدر زی جن پنگ کا کہنا ہے کہ: "جغرافیائی معیشت کے لحاظ سے سلک روڈ فنڈ اور AIIN بینک معاشی روابط کو بڑھائیں گے، ان کے ذریعے ایک نئی طرح کی صنعت کاری کا ظہور ہوگا، جس سے تمام ممبر ممالک ترقی کریں گے اور ان ممالک کے عوام ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین کو خطے کے ممالک کی ترقی کی اس قدر فکر کیوں ہے اور وہ ان کے عوام کا ہمدرد کیوں ہے۔؟ ماہرین کے مطابق چین میں پیدا ہونے والی افرادی قوت اس کی ملکی استعداد سے بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح اسے اپنی مصنوعات کے لئے نئی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنی معیشت کو ایک نئی جہت سے ترقی دے سکے۔ لہذا چین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر مواقع کی تلاش کرے، بالکل اسی طرح جیسے کسی زمانے میں برطانیہ، پرتگال اور فرانس کو ان مواقع کی ضرورت پڑی۔ ان ممالک نے دنیا پر قبضہ کرکے وہاں لوٹ مار کرکے اپنے لئے مواقع بنائے اور اسی لوٹ کے مار کو قائم رکھنے کے لئے انہوں نے دنیا کو ایک سیاسی نظام اور ڈھانچہ دیا، جو تاحال قائم ہے۔ چین نے اپنی ترقی کے لئے عسکری میدان کے بجائے معاشی میدان کو چنا ہے، جس میں باہمی تعاون اور ترقی کا حسین خواب بھی موجود ہے۔ بہرحال اس میں ترقی اور پیش رفت کا موقع بھی ہے، جس کے لئے مناسب حکمت عملی اور بصیرت کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply