کرشماتی لیڈر شپ

’I know it when I see it‘
۱۹۶۴ میں امریکی سپریم کورٹ کے جج، جسٹس سٹیورٹ نے یہ فقرہ کہا جو پھر ضرب المثال بن گیا۔ یہ مثال اس صورت میں دی جاتی ہے جب آپ کسی خوبی یا وصف کو الفاظ میں بیان نہ کر سکیں لیکن یہ دعویI کریں کہ اس خوبی کی کسی فرد میں موجودگی یا غیر موجودگی ضرور بتا سکتے ہیں۔ اگر اس وصف کے بارے میں بہت سے لوگ یہی کہنے لگیں تو پھر ابہام کا خطرہ ہے۔ کون صحیح رائے رکھتا ہے کون غلط، آپ کچھ کہہ نہیں سکتے۔
کرشماتی لیڈر شپ بھی ایسی ایک اصطلاح ہے۔ ہم اکثر اس کا ذکر سنتے ہیں۔ لیکن یہ ہے کیا؟ ہمیں بھی وہم رہا کہ ہم جانتے ہیں۔ لیکن ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر لیڈر شپ پڑھی تو احساس ہوا کہ یہاں بھی بہت کم جانتے ہیں اور جو جانتے ہیں وہ محض ابہام تھا۔ جو اپنے اساتذہ سے سیکھ سکا، وہ آپ کی نذر ہے۔ آپ کو کچھ نئی بات ملے تو میرے اساتذہ خصوصاً ڈاکٹر عاطف حسن کا فیضان ہے۔ غلطیاں البتہ میری اوریجنل ہیں۔ جملہ حقوق محفوظ! (فقیر تا حیات طالب علم ہے، کسی غلطی کی نشان دہی کو احسان جانوں گا۔ )

کرشمہ (یا کرزمہ) یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں تحفہ۔ خیرہ کر دینے والی قیادت سے یہ لفظ یوں جڑا کہ عوام ان کی متاثر کن شخصیت کو خدا کے کسی خاص انعام سے جوڑنے لگے۔ کچھ ایسی چیز جو خالصتاً خدا کی طرف سے عطا ہو، ریاضت سے حاصل نہ ہو سکے۔ وجہ تسمیہ یوں بنی کہ تب کی مقبول لیڈر، خصوصاً مذہبی لیڈر، جو عوام پر اپنا اثر رسوخ رکھتے تھے وہ کسی دنیاوی منصب کی عطا نہیں تھا۔ اس کو خدا کا تحفہ سمجھا جاتا تھا۔
کرشماتی لیڈر شپ کی اصطلاح زیادہ تر سیاست دانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن جتنی ریسرچ ہم نے اس سے متعلق پڑھی وہ مینیجمنٹ کے اساتذہ اور محققین نے کر رکھی ہے۔ لہٰذا یہاں لیڈر شپ سے مراد زیادہ تر کاروباری اداروں کی قیادت ہے ۔ لیکن شاید یہ معلومات مینیجمنٹ کے شعبہ سے باہر بھی ایسے ہی قابلِ عمل ہوں۔

مینجمنٹ کے محققین کا بھی یہ اصول ہے کہ تحقیق اسی چیز پر ہو گی جس کی وثوق کے ساتھ تشریح بھی ہو سکے اوراس کو اعداد کی مدد سے ناپا بھی جا سکے۔ کرشماتی قیادت کی تشریح شروع ہوئی اس بات سے کیسی قیادت کرشماتی نہیں کہلا سکتی۔ دو موٹی موٹی کیٹگریز بن گئی۔ان میں سے ایک تو ہے لین دین پرمبنی قیادت، یعنی (transactional leadership). کچھ دو کچھ لو۔ اچھا کام کرو، انعام پاؤ۔ بری کارکردگی پر سزا بھگتو ۔

قیادت کی دوسری قسم وہ ہے جہاں لیڈ ر دکان دار یا ’بنیا ‘ نہیں رہتا۔ اس کا اپنے کارکنان سے تعلق ایک خیر خواہ کا بن جاتا ہے۔ لیڈر انہیں پروان چڑھاتا ہے۔ ڈانٹ،پیار، سزا، انعام، نصیحت، دلاسہ، تھپکی، تھپڑ۔۔ یہ سب استعمال کرتا ہے اپنے پیرو کار کو بہتر بنانے کے لیے۔ مثال کی بات کریں تو شیر کو درخت پر چڑھنا بھی سکھا دیتا ہے۔ اس کا نام ٹہرا transformational leadership ۔( اردو ترجمہ بنتا ہے تبدیلی کی قیادت لیکن بوجوہ استعمال نہیں کیا۔ جو الزام مضمون کے آخر تک بہرحال لگ جانا ہے، اسے ٹالناچاہتا ہوں۔)

لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ transformation leadership کی اپنی کم از کم چار اقسام بیان ہوئیں۔ ان میں کھلاڑیوں کے کوچ جیسا لیڈر بھی آتا ہے لیکن وہ کرشماتی نہیں ہوتا۔ سوشل سائنس کرشماتی لیڈر کی کچھ خصوصیات بتاتی ہے:

۱۔ Status quo سے غیر مطمئن ہونا۔یہاں لیڈر کا مقصد بہتری کی گنجائش کی نشاندہی بھی ہو سکتا ہے اور سرے سے کسی نئے نظام کی خواہش بھی۔مقصد کچھ بھی ہو، کرشماتی لیڈر اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ یا تو صورتحال بدل جاتی ہے یا پھر جدو جہد جاری رہتی ہے۔
۲۔ پسندیدگی سے مقبولیت تک: ہر لیڈر کے کچھ فالور ہوتے ہیں۔ فالور اپنے لیڈر کو لازماً پسند بھی کرتے ہیں لیکن کرشماتی لیڈر کی اپنے فالورز میں مقبولیت پسندیدگی سے اونچے درجے تک چلی جاتی ہے۔ کرشماتی لیڈرز کے فالور اپنے لیڈر کی تصاویر آرائش میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کا نام بھی اس کے نام پر رکھتے ہیں۔ غرضیکہ یہ معمولی پسندیدگی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔
۳۔ قدرتِ کلام: کرشماتی لیڈر بہترین خطیب ہوتا ہے۔ اس کے چاہنے والے اس کی آواز، لہجے، کلام کے متن اور اس کی بدن بولی سے مسحور ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اس کی تقریر کی زبان بھی نہیں جانتے، تب بھی اس احساس سے سن سکتے ہیں کہ یہ سچ کہتا ہے۔
۴۔ تصدیق سے بے نیازی: کرشماتی لیڈر اپنے خیالات کے معاملے میں بقیہ افراد سے متفق ہونے کی حاجت نہیں رکھتا۔ جس status quo سے وہ غیر مطمئن ہے، اس کی نئی شکل کیا ہو گی اور وہاں تک کیسے پہنچنا ہے، اس بارے میں وہ اپنی منفرد رائے رکھتا ہے۔ اسے مقبولیت ملتی ضرور ہے لیکن وہ اس کے پیچھے نہیں بھاگتا۔ اس لیے غیر معروف فیصلوں کا بادشاہ بھی کہا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مہاتما گاندھی نے اپنے سے کرشماتی لیڈروں کو بشارت دی تھی کہ تمہارے مخالف پہلے تمہیں نظر انداز کریں گے، پھر کچھ عرصہ بعد تم پر ہنسیں گے، پھر تم سے لڑنا شروع کریں گے اور پھر بالآخر تم جیت جاؤ گے۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں۔ اس مضمون میں کسی لیڈر کی شبیہ ڈھونڈیں یا کسی پروپیگنڈا کی تلاش کریں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اقبال کا دیدہ ور ہو یا فیض کا خاک نشینوں کو جگاتا قائد۔ خون، پسینہ اور آنسو آفر کرتا چرچل ہو یا خواب بیچتا مارٹن لوتھر کنگ ۔ منڈیلا جیساصابر ہو یامافوق الفطرت محمد علی جناح۔ کوئی بڑی، قابل ذکر تبدیلی کسی کونسلر یا تاجر کا کام نہیں۔

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply