مذہب ،تاریخ اور علمی آزادی۔۔۔ابو بکر

یہ بات جاننا نہایت اہم ہے کہ کوئی بھی مذہب محض مجردتصورات اور عقائد کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ہرمذہب اپنے معاشرے کے حالات اور تاریخ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔مادی حالات اور مذہب کا یہ تعلق مذہبی رسوم کے جائزہ سے بھی ثابت ہوتا ہے۔کسی بھی مذہب کی رسوم و روایات اس معاشرے سے براہ راست جڑی ہوتی ہیں جہاں وہ مذہب پیدا ہوتا ہے۔ مزید تفصیل سے دیکھا جائے تو مذہبی عقائد بھی خلا میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ معاشرے کے حالات اور نوعیت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یونانی معاشرہ شہری کاؤنسل کے ماتحت چلتا تھا۔یونانی دیومالا کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔دیوتاؤں کی باقاعدہ مجلس ہوتی ہے جہاں بحث و مباحثہ کے بعد فیصلے کیے جاتے ہیں۔ کئی دیوتا حزبِ مخالف کا کردار ادا کرتے ہوئے ان فیصلوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔مصری اور بابلی معاشرے میں جہاں بادشاہت کا مضبوط نظام موجود تھا وہاں کے دیوتا بھی مطلق العنان ہوتے تھے اورتمام فیصلے اپنی مرضی سے کرتے تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بظاہرمجردنظر آنے والے مذہبی عقائد کا بھی تاریخی ارتقا ہوتا ہےاور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصورات اپنی شکل بدلتے رہتے ہیں۔نئے مذاہب پرانے تصورات میں تبدیلیاں کرتے ہوئے حالات کی مناسبت سے نئے عقائد پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ عقائد ہوں یا رسوم و روایات ان کا معاشرت اور تاریخ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پس کوئی بھی مذہب یا نظریہ مادی حالات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ اہل مذہب کی اکثریت اس امر سے اختلاف رکھتی ہے اور مختلف مذاہب کے باہمی تعلق اور تاریخی ارتقا کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مذہب کو ازلی و ابدی اورتاریخ سے بلند قرار دیتی ہے۔ مذہب تاریخ میں پیدا ہوتا ہے اور تاریخی حالات کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنی شکل و صورت کا تعین کرتا ہے۔یہی بات دیومالا اور ادب کے بارے میں بھی درست ہے۔ تمام عقائد اورنظریات مادی حالات کی مناسبت سے پیدا ہوتے ہیں اور جیسے ہی معاشرہ انہیں اپناتا ہے یہ کلچر کا حصہ بن کر مادی طاقت میں بدل جاتے ہیں۔
مذہب اورتاریخ کا یہی اصولی و بنیادی رشتہ دراصل فلسفہء مذہب کی ضرورت پیدا کرتا ہے۔فلسفہ مذہب سے مراد کسی بھی مذہب کی معنویت اور نوعیت کا مطالعہ ہے۔ایسے مطالعہ میں مذہبی عقائدوتصورات، مذہبی زبان اوراصطلاحات، مذہبی دلائل اور رسوم و روایات کا ایک کلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ مذہب کی تاریخ اور ارتقا کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرے کے ساتھ اس کا تعلق جانچا جاتا ہے۔ فلسفہ مذہب علم الکلام سے مختلف شے ہے۔علم الکلام میں ایک مذہبی شخص اپنے عقائد کا ثبوت فلسفہ و منطق نیز سائنس سمیت دیگر علوم سے پیش کرتا ہے تاکہ وہ اپنے عقیدہ کا لازمی طور پر درست ہونا ثابت کردے۔علم الکلام میں کسی مخصوص مذہبی عقیدے کو درست سمجھتے ہوئے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس عقیدے کے حق میں ایسے دلائل پیش کیے جائیں جس سے وہ لوگ بھی مطمئن ہوکر اس پر ایمان لے آئیں جو ابھی اس کے قائل نہیں ہیں۔علم الکلام میں عقیدے کا مقام اول ہے اور دلیل ثانوی شے ہے جس کا کام محض یہی ہے کہ وہ ایک سچے عقیدے کا سچا ہونا ثابت کرے۔علم الکلام مذہب کا تنقیدی جائزہ نہیں ہے۔یعنی ایسا جائزہ جس کی مدد سے مذہب کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیا جائے۔ایسی تنقید سے مذہب کے کچھ پہلو درست بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔اہم بات یہ ہے کہ فلسفہ مذہب یعنی مذہب کا فلسفیانہ و تنقیدی مطالعہ علم الکلام کی طرح کسی عقیدہ کو پہلے سے ہی درست نہیں سمجھتا بلکہ یہ فیصلہ جائزہ مکمل ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فلسفہ مذہب وہ تنقیدی مطالعہ ہے جس میں کسی مذہب کو تاریخ اور معاشرے سے جوڑتے ہوئے ایک کلیت میں دیکھا جاتا ہے۔یہ غلط فہمی دور کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ فلسفہ لازمی طور پر مذہب دشمن ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے اور فلسفہ مذہب کے باب میں تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ فلسفہ مذہب، مذہب کی اہمیت اور اس کے تاریخی کردار کا قائل ہے اور اس فلسفہ کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کو ان خرابیوں سے پاک کردیا جائے جو اس مذہب کے قائل افراد کو مذہبی فکر کے اندر رہتے ہوئے محسوس نہیں ہوتیں۔ فلسفہ مذہب، مذہب اور انسان کے تعلق کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مذہب کو ممکنہ بہترین اور معقول صورت میں ڈھالا جا سکے تاکہ اس کا افادہ برقرار رہے۔تاہم فلسفہ مذہب علم الکلام کی طرح مذہب کا محض وکیل نہیں ہے۔یہ مذہب کا وہ دوست ہے جو اچھائیوں کی تعریف اورخرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ فلسفہ مذہب کی طویل تاریخ میں مذہبی اور غیر مذہبی ہر دو طرح کی شخصیات موجود رہی ہیں۔ فلسفہ مذہب اور علم الکلام کا دوسرا اہم فرق یہ ہے کہ علم الکلام مذہب کو اولین اور انسانی معاشرے کو ثانوی سمجھتا ہے جبکہ فلسفہ مذہب میں صورتحال اس سے برعکس ہوتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں فلسفہ مذہب کا کردار نہایت قلیل رہا ہے جس کی وجہ سے مذہب کے تنقیدی مطالعہ کی روایت پروان نہ چڑھ سکی۔ اس کی ایک اہم وجہ ابتدائی اسلام کی وہ عرب سلطنتیں ہیں جن میں مذہب اور اقتدار کا تعلق نہایت قریبی تھا۔ چنانچہ مذہب کا تنقیدی مطالعہ حکمران طبقات کے لیے براہ راست خطرہ تھا۔ اسلامی فلسفہ کے ابتدائی مباحث (جبر و قدر) مطلق العنان حکومتوں کے سیاسی حالات سے پیدا ہوئے۔اموی و عباسی خلافت کا اقتدار پر دعویٰ مذہبی پس منظر رکھتا تھا اسی طرح علوی خروج کی طویل تاریخ بھی مذہب اور سیاست کا مجموعہ رہی ہے۔معتزلہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جو شاید اسلام میں فلسفہ مذہب کا واحد مکتب تھا۔ جوں ہی عباسی خلفاء کو اس تحریک سے اپنے سیاسی مفادات خطرے میں نظر آئے اس مکتب کو کچل دیا گیا۔
اس کی دوسری اہم وجہ خود اسلام کی علمی روایت کی نوعیت ہے۔اس روایت میں علم التفسیر، علم حدیث اور فقہ وغیرہ شامل ہیں۔ تدوین قرآن خلفائے راشدین کے دور میں ہوچکی تھی۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ اس عمل کے دوران خلفاء نے نہایت احتیاط سے کام لیا۔ چنانچہ اگرکسی شخص کے پاس کوئی آیت ہوتی تو اس کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا۔ گواہ اور ثبوت طلب کیے جاتے تاکہ اس شخص کے دعویٰ پر فیصلہ کیا جا سکے۔تدوین حدیث کا عمل نسبتاً دیر سے یعنی پہلی اور دوسری صدی ہجری میں باضابطہ طور پر شروع ہوا۔چونکہ حدیث کا ذخیرہ قرآن سے کہیں زیادہ تھااور تدوین سے پہلے یہ روایات سینہ بہ سینہ چلتی آرہی تھیں لہذا ان کو جمع کرنے کے دوران بغرض احتیاط تنقیدی جائزے کو اصول شکل دی گئی اور علم الرجال سامنے آیا تاکہ کسی بیان کردہ روایت کے راویوں کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے اور اس کا ثقہ ہونا معلوم ہو سکے۔حدیث کی اہمیت قرآنی علوم سے تعلق کی وجہ سے بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ احادیث کی مدد سے قرآنی احکام کا تفصیلی علم حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث کے ذخیرے کی مدد سے علم التفسیر کی بنیاد پڑی جس میں قرآنی آیات کا شانِ نزول، پس منظر، احکام کی نوعیت اور تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ فقہ میں ان تمام علوم کی مدد لیتے ہوئے قیاس اور اجتہاد کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ قانونی اصول بنائے جا سکیں۔ اسلامی علمی روایت کے اس مختصر جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس روایت کا جوہر دراصل سند کی تحقیق تھا تاکہ حقیقی ماخذ تک پہنچا جا سکے۔اس روایت میں تنقید کا کردار محض یہ تھا کہ بنیاد اور ماخذات تک رسائی ہو سکے۔گویا اسلامی علمی روایت میں تنقید کا کام یہ نہیں کہ ماخذ کا جائزہ لیا جائے بلکہ یہ ہے کہ ماخذ تک پہنچا جائے۔چونکہ یہ اصول فلسفہ مذہب سے براہ راست متصادم ہے جس میں ماخذات کا تنقیدی مطالعہ کیا جاتا ہے لہذا مسلمانوں میں جب کبھی مذہب کے فلسفیانہ مطالعہ کی کوشش کی گئی اسے اہل روایت کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس علمی روایت میں عقیدہ اولین ہے اور تاریخ و معاشرہ ثانوی۔
اس علمی روایت کی کشادگی کی حد علم الکلام تک ہی ہے اس سے آگے نہیں۔چنانچہ تنقید اوردلیل کا اگر کوئی کام ہے تو محض یہ ہے کہ وہ پہلے سے مانے گئے عقائد کو سچ ثابت کرتی رہے۔علم الکلام کے علاوہ اس روایت میں ایک اور منہاج بھی موجود ہے جو تفصیلی جائزہ چاہتا ہے۔ ہماری مراد” اجتہاد” ہے جس کی مدد سے بدلتے حالات میں نئی مذہبی تشریحات سامنے لائی جاتی ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں اجتہاد کو مسلم ثقافت میں تغیر اور حرکت کا اصول قرار دیا ہے۔ خود علامہ نے اپنے خطبات کے مجموعہ کا نام ”تشکیل جدید الہیات اسلامیہ” رکھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خطبات بھی اجتہادی شان کے حامل ہیں اور جدید دنیا کے حالات کی مناسبت سے اسلامی الہیات کی ایک نئی تشکیل کی طرف اٹھائے گئے قدم ہیں۔لیکن کیا یہ درست ہے؟ اور کیا یہ بات بجائے خود درست ہے کہ اجتہاد کا مطلب تاریخ کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے؟ میری عاجزانہ رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے۔
تاریخی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے اعتقادات کا وقت کے ساتھ ساتھ جائزہ لیتے رہیں اور تنقیدی عمل کی مدد سے فیصلہ کریں۔ یہ کام فلسفہ مذہب کا ہے اجتہاد کا نہیں۔ ثانیاً اجتہاد جس علمی روایت سے پیدا ہوتا ہے (جس کا مختصر جائزہ اوپر لیا گیا ہے) اس میں تنقید کا کام ماخذات تک رسائی ہے یعنی پیچھے کی طرف درست راستہ ڈھونڈنا ناکہ آگے کی طرف کے راستے کی درستی کا جائزہ لینا۔گویا اجتہاد میں بھی تنقید کا کردار اتنا ہی ہے جتنا حدیث اور تفسیر میں ہے۔ اقبال کی مذہبی فکر میں ایک بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ اجتہاد اور فلسفہ مذہب کے تعلق کو درست طرح نہیں سمجھ سکے اور جس شے کو حرکت کا اصول قرار دیتے رہے وہ ایسی تھی ہی نہیں۔سلیم احمد نے اقبال پر اپنے مضمون میں بجا طور پر اس طرف اشارہ کیا ہے۔
” اجتہاد کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ زمانے یا زندگی کے تغیر کے حوالے سے دین کے اصولوں یا قدروں کو تبدیل کیا جائے یا ان میں نئے معنی ڈالے جائیں۔ اقبال کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ وہ زندگی کی حرکت اور تغیر کو اتنی مثبت چیز سمجھتے تھے کہ اس کے تصور کے ساتھ ان پر گویا سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔” (اقبال کا نظریہء ثقافت از سلیم احمد)
سلیم احمد کا اجتہاد پر موقف اس موقف کی تائید ہے کہ اجتہاد تغیر کا اصول نہیں ہے۔اجتہاد ماخذات اور اصولوں کو نہیں چھیڑتا۔
اجتہاد دراصل روایت پسندی کا تسلسل ہے جس میں ماخذات اور اصولوں کو بدلتے حالات میں بھی ساتھ رکھا جاتا ہے۔اجتہاد علمی روایت سے مدد لیے بغیر بھی ممکن نہیں اور اس علمی روایت میں تنقید کا مقام روایت کی حفاظت کرنا ہے۔
تاہم اجتہاد کو حرکت کا اصول قرار دینے کے باوجود اقبال نے اپنے پہلے خطبہ میں ایک اہم بات کی ہے جو دراصل اجتہاد پر ان کی رائے سے بھی متصادم ہے اور یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ اقبال فلسفہ مذہب کے حامی نہ تھے۔
”بیشک فلسفہ کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مذہب کا جائزہ لے لیکن اس چیز ( مذہب) کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ وہ فلسفہ کو جائزہ لینے کی اجازت تو دی سکتی ہے لیکن صرف اپنی شرائط اور اصولوں پر۔”
یہاں اقبال جس مذہب مرکزیت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اس کا سادہ سا مطلب یہی ہے کہ مذہب کا عقلی جائزہ اور تنقید جائز تو ہے لیکن مذہب کی بنیادی شرائظ اور حدود میں رہ کر ہی ایسا کیا جائے گا۔ تنقید جب ان اصولوں اور حدود کی پابند ہوگی تو تنقید نہ رہے گی۔ بلاشبہ اقبال بھی علم الکلام کے ہی آدمی تھے فلسفہ مذہب کے نہیں۔
مضمون کی طوالت بڑھتی جارہی ہے تاہم ایک ضروری بات کہنا باقی ہے۔ ممکن ہے اس کی تفصیل کسی آئندہ مضمون میں شامل ہو۔
اجتہاد دراصل روایت کا ایسا تسلسل ہے جو ہر دور میں روایت کو مضبوطی سے قائم رکھتا ہے۔چنانچہ اجتہاد کا حق بھی صرف مذہبی علما کو ہے جو روایت کا جامع و تفصیلی علم رکھتے ہوں۔اس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اجتہادی قدم بھی علما ہی اٹھائیں گے۔ کوئی عام فرد یا ایسا عالم جو مروجہ مذہبی علماء کے گروہ سے نہ ہو یہ کام نہیں کرسکتا نا ہی روایت پسند اسے قبول کریں گے۔ چنانچہ کوئی فلسفی، مورخ یا ماہر سماجیات اجتہاد کا اہل نہیں۔فقہ میں مطلق اجتہاد کی گنجائش تو علما کو بھی حاصل نہیں حالانکہ فقہ خود ماخذ نہیں بلکہ ماخذات کی ایک مخصوص تعبیر ہے۔اس ساری صورتحال کا انجام یہ ہوا کہ مذہب پر بولنا اور سوچنا صرف مذہبی علما تک محدود ہوگیا اور چونکہ ان علما کے مفادات براہ راست مذہب سے جڑے ہوتے ہیں لہذا تنقیدی جائزے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔اس سے شخصی اور علمی آزادی کو گہرا نقصان پہنچا۔ مذہب وہی ہے جو علما بتائیں گے۔ ایک عام فرد اس حوالہ سے مکمل بے بس اور بے اختیار ہے۔ اس کا فرض محض سنی گئی بات پر ایمان لانا اور عمل کرنا ہے۔ فلسفہ مذہب کے نہ ہونے کی وجہ سے خود مذہب منجمد ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی کوشش رہتی ہے کہ وہ معاشرے کو بھی منجمد رکھیں۔چنانچہ آج ہم اپنے مذہب پر کھل کر بات نہیں کر سکتے۔مذہبی حلقوں کا جبر اس قدر شدید ہے کہ مذہبی موضوعات صرف ان کےلیے ہی مخصوص ہوکر رہ گئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply