معلم یاقصائی

معلم یاقصائی
مصطفے معاویہ عباسی
ہم میں کون ہو گا جسے اپنا بچپن لڑکپن اور وہ سب کچھ یاد نہ ہو جو کہ اس پر بیتا یا جو سہنا پڑا،گھر والوں کی سختی مجبور کرتی کہ سکول جایا جائے اور سکول جانے تصور ہی خوف زدہ کر دیتا کہ اب دن بھر جو سلوک اور استادوں کا رویہ ہو گا وہ جھیلنا پڑے گا ۔ مجھے معلوم ہےکہ میری اس تحریر کو ہرزہ رسائی اور گستاخیٔ معلم سے تعبیر کیا جائے ، گا لیکن میں یہ بھی بیباکانہ انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سچ ہے اور جن لوگوں کو اسوقت سرکاری سکولوں میں بطورِ معلم تعینات کیا گیا تھا وہ معلم کم اور قصائی زیادہ تھے ۔ انہیں خود تربیت کی شدید ترین ضرورت تھی ، انہیں خود سیکھنا چاہیئے تھا چہ جائیکہ انہیں معلم کی پوسٹ پر تعینات کرکے قوم کے نو نہالوں کا مستقبل تاریک اور برباد کیا جاتا
میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے اساتذہ کی اکثریت انسانیت سے محروم تھی ، روایتی طور پر ہم آج بھی انکی عزت کرتے ہیں ۔ رکھ رکھاؤ بھی ہے ، لیکن میں آج بھی انکو قوم کا قاتل اور مجرم تصور کرتا ہوں۔۔۔۔۔ وجہ کیا ہے؟
بچوں پر تشدد اور مار کٹائی تو معمول کی بات تھی ۔ پھر بچوں کو کان پکڑوا کر اور انہیں مرغا بنا کر انکو انکے ہم جماعت لڑکوں کے سامنے انکی عزتِ نفس کو مجروح کرنا ۔ بچوں سے کبھی بھی مشفقانہ انداز سے پیش نہ آنا ۔ بچوں کو اپنی روحانی اولاد تو درکنار ، حتٰی کہ انسان بھی نہ سمجھنا ، ہر وقت غصیلی اور ناراض شکل لیکر کلاس میں داخل ہونا ، اپنے ذاتی کاموں کیلئے بھی طلباء کو مجبور کرنا اور ان سے” لیتری”جیسی بیگار لینا ، بچوں کوں کو مجھے آپ سب سے پیار ہے اور آغازِ ہفتہ پر ملاقات پر کہنا کہ میں آپ سب کو مس کر رہا تھا ، ایسا کبھی بھی نہ کہنا ، یہ سب کیا نارمل ہے ؟
کیا متذکرہ بالا عادات و اطوار رکھنے والا استاد سماج کو ایک مہذب نسل دے سکتا ہے ؟ اگر ایسے ماسٹر ہو ں گے تو قوم کا مستقبل میٹھا پیارا اور پر امن کیسے ہو سکتا ہے ؟ سو دیکھ لیجئے جیسے معلم ویسے ہی ناراض مستقبل اور نا آسودہ حال ہمارے سامنے ہے
استاد یا معلم تو وہ ہوتا ہے جس کو دیکھ کر بچہ سارے غم بھول جائے اور خوشی محسوس کرے کہ میرا محسن آگیا ۔ جو مجھے علم سکھائے گا ۔ جو مجھے رموزِ زندگی سکھائے گا ۔لیکن ہمارے سماج کا استاد تو کسی جلاد سے کم نہیں تھا ، اور وہ بچوں کو اپنا روحانی فرزند سمجھنے کے بجانے انکو ایسے سمجھتا تھا جیسے کہ یہ کوئی تفتیشی پولیس آفیسر ہو اور طلباء کو سنگین جرائم میں مطلوب مجرم اور یہ صاحب ان سے اپنے رعب اور ہیبت سے سب کچھ اگلوانے والے ۔۔۔
اور مسلم سماج کہلانے والے سماج میں معلم کو ہمیشہ یہ تو یاد رہا کہ وہ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ، لیکن اسے یہ بالکل یاد نہ رہا کہ اب جو شاگرد ہیں وہ اسکی روحانی اولاد ہیں اور اولاد سے پیار فرضِ عین ، ان پر شفقت فرضِ عین ہے ۔ لیکن ہم چونکہ ایسے سماج میں پیدا ہوئے جہاں ہر ایک کو اپنے حقوق ہی یاد ہیں بس ۔۔..
میرے ذاتی مشاہدہ میں ہےکہ کئی بچے ان قصائیوں کی مار پیٹ سے تنگ آکر سکول چھوڑ گئے اور آج زندگی کے تلخ ایام بسر کر رہے ہیں ۔ اگر یہ معلم ہوتے اور انکا طریقۂ تعلیم پیار ہوتا تو آج کئی لوگ جو کہ انکی سختی اور جاہلانہ رویہ کی وجہ سے سکول یا مدرسہ چھوڑ گئے ۔۔ آج سماج کے مزید کارآمد لوگ ہوتے ، ہمارے سماج میں استاد کا مطالبہ ہمیشہ یہی رھا کہ اسے گویا کہ کسی شہنشاہ کی طرح کا درجہ دیا جائے ۔
کیا ہمارے سماج اور ہمارے بچوں کو تعلیم سے اور تربیت سے محروم رکھنے میں ان معلمین کی سختی اور کرختگی کا بھی بڑا حصہ نہیں؟
میرے معصوم بچوں کے پھول سے ہاتھوں پر لاٹھیاں برسانے والوں کو معلم کہوں یا قصائی؟

Facebook Comments

مصطفیٰ معاویہ
ہر قسم کی عصبیت سے بالا ، علم و انسانیت سے اپنی جان سے بڑھ کر پیار کرنے والا ایک طالب علم جو ہر وقت سیکھنے اور اس کو دوسروں سے شئیر کرنے کی جستجو میں ہوتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply