شام اور عراق کی تقسیم کی سازش

سچ تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے۔ مسلمان معاشروں میں سائنس اور معاشیات جیسے مضامین کے طلبہ کا دہشتگردی جیسی حماقت میں مبتلا ہونا تاریخی حقائق کو نہ جاننے کی وجہ سے ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی جھوٹ کو بہت بڑا گناہ اور تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے۔ سچ تک رسائی اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ لوگ جو صاف نیت رکھتے ہیں، محض اس وجہ سے غلط فیصلے نہ کریں کہ انھیں صورت حال کا صحیح ادراک نہیں تھا۔ اسی حق سے میڈیا اور سوشل میڈیا کی آزادی کا حق جنم لیتا ہے۔ اگر میڈیا آزاد ہو گا تو جہاں یہ ممکن ہے کہ با اثر لوگ یا طاقتیں اپنے مفادات کیلئے جھوٹ یا آدھا سچ پیش کریں، وہیں یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے میڈیا ذارئع سے کچھ با ضمیر افراد پورا سچ بیان کریں۔ شام کے بحران کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ اپنے ہم عصر سیاسی بحرانوں (یمن، بحرین، یوکرین، لیبیا، آزاواد، وغیرہ) کی نسبت کہیں زیادہ کیمرے اور میڈیا کی نظروں میں ہے۔ اسکی وجہ جہاں اسکی سیاسی اہمیت ہے وہیں اس کو ملنے والا فرقہ وارانہ رنگ بھی ہے۔
عراق پر امریکا کا حملہ یکدم نہیں ہوا تھا۔ تاریخ کے ہر اہم واقعے کی طرح اس کا بھی ایک پس منظر اور مقصد تھا جس کا بیان سابقہ تحریروں میں کیا جا چکا ہے۔ بڑی ریاستیں تاریخ پر گہری نظر رکھتی ہیں اور ان کے ادارے اپنے مفادات کیلئے منصوبہ بندی کئے بغیر کسی معاملے میں نہیں پڑتے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ منصوبے ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے کیوں کہ کسی بھی ریاست کے پاس لامتناہی طاقت نہیں ہوتی۔ اسی طرح طاقتور افراد اور اداروں کے زیر اثر میڈیا پر بھی کچھ مسائل پر بہت زیادہ زور بلاوجہ نہیں دیا جاتا ہے۔ عرب بہار کے زمانے میں شام کے بحران کو بہت زیادہ میڈیا کی توجہ ملی ہے جبکہ اس کے ہم عصر بحرانوں کو بہت کم توجہ ملی ہے۔ اگر غور کیا جاۓ تو بحرین میں چھ سال سے عدم تشدد پر مبنی تحریک چل رہی ہے۔ یہ ایسی تحریک ہے جس میں جمہوری حقوق کے خواہشمند حضرات نے اسلحہ نہیں اٹھایا ہے۔
مغربی میڈیا اگر مشرق وسطیٰ کیلئے جمہوری اور انسانی حقوق کی حمایت کرنا چاہے تو اس تحریک سے زیادہ صاف ستھری تحریک اور کوئی نہیں تھی، لیکن بحرین کے شاہی خاندان کی امریکا نوازی نے اس تحریک کو پردہ سکرین سے گم کر رکھا ہے۔ اسی طرح افریقہ کے ملک مالی کے مغربی علاقے آزاواد میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ یہ لوگ پڑوسی ملک لیبیا میں عرب بہار سے متاثر ہو کر اٹھ کھڑے ہوۓ تھے۔ یہ القاعدہ کے خلاف بھی لڑے اور مالی کی حکومت کے خلاف بھی، لیکن آپ کو تعجب ہو گا کہ جس فرانس نے لیبیا میں باغیوں کی حمایت کی، اسی فرانس نے مالی میں جمہوریت و آزادی پسند لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا ہے۔ یہی صورت حال یوکرین کی ہے، وہاں روسی نسل کے باشندوں نے اپنی آزادی کا اعلان کر رکھا ہے۔ چونکہ یوکرین کی حکومت امریکا اور یورپی یونین کی کٹھ پتلی ہے، مغربی میڈیا ان کی حمایت نہیں کر رہا۔ امریکا ان لوگوں کو کچلنے کیلئے یوکرین کی حکومت کو پولینڈ اور بالٹک ریاستوں کے راستے سے بے پناہ اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور روس کے بارڈر کے ساتھ اپنی فوج بھی لے آیا ہے۔ مغربی میڈیا پر ان واقعات کو چھپانے کا عالم یہ ہے کہ جب کچھ لوگوں نے اس نقل و حمل کی ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر لگائی تو انھیں ان کے ملک کی پولیس پکڑ کر لے گئی۔
شام اور عراق کے بارے میں اصلی منصوبہ ان کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کا ہے اور خون بہاۓ بغیر نئی ریاستیں قائم نہیں ہو سکتیں۔ ان منصوبے کے مطابق شام کو علوی، دوروز، سنی اور کرد ممالک میں تقسیم کرنا ہے۔ علوی ساحل سمندر کے پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں جہاں انھیں خلافت عثمانیہ کی طرف سے امتیازی سلوک سے پناہ ملی تھی۔ یہ علاقے کشمیر کی طرح شام کی شہ رگ ہیں۔ یہاں سے زراعت اور گھریلو استعمال کیلئے درکار پانی آتا ہے۔ یہیں شام کی بندرگاہیں موجود ہیں جن کی مدد سے ساری دنیا سے تجارت ہوتی ہے۔ دوروز علاقہ دمشق کا علاقہ ہے، یہ بھی سرسبز علاقہ ہے اور اس کے ساتھ اسرائیل کا بارڈر ہے، یہ علاقہ عسکری اہمیت کا حامل بھی ہے۔ سنی اکثریت کا علاقہ شام کا مرکزی علاقہ ہے جہاں صحرا پایا جاتا ہے، یہ کسی اسرائیلی حملے کی صورت میں دوروز اور علویوں کی پناہ گاہ ہے۔ یہاں شام کی تاریخ اور ثقافت کے مراکز بھی ہیں۔
شام کے شمال کو کردستان نامی مجوزہ ملک میں شامل کرنے کا منصوبہ ہے، یہاں کرد بھی رہتے ہیں لیکن یہاں اکثریت مسیحی اور سنی عربوں کی ہے۔ شمالی شام میں ہی تیل کے ذخائر موجود ہیں، جو اگرچہ بہت بڑے نہیں مگر شامی کی ضرورت کیلئے کافی ہیں۔ گویا نہ صرف یہ حصے ایک مشترک تاریخی ورثہ رکھتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے بغیر انکی بقا ممکن نہیں ہے۔ تقسیم کی صورت میں یہ ریاستیں ہر وقت تنازعات میں الجھی رہیں گی۔ ایسی ہی صورت حال عراق کی ہے۔ عراق کے شمال میں بھی کرد رہتے ہیں۔ منصوبے کے مطابق مشرقی عراق شیعوں کو، مغربی سنیوں کو اور شمالی کردوں کو دیا جانا ہے۔ کرد بھی سنی ہیں اور ان میں ہر قسم کے سنی پاۓ جاتے ہیں۔ بعض کرد کمیونسٹ ہیں تو بعض اتنے شدت پسند مذہبی کہ داعش کے رکن ہیں۔ لیکن آج کل جہاں مغرب ہر کسی کا مسلک پوچھ رہا ہے، وہیں مغربی میڈیا کردوں کی قومیت پر زور دیتا ہے۔ (اگرچہ یہی قوم پرستی والا فارمولا یوکرین کے روسی نسل کے لوگوں پر لاگو نہیں کیا جا رہا)۔
کرد بنیادی طور پر ترکی اور ایران کے بدو ہیں جو خانہ بدوش ہوا کرتے اور بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ یہ لوگ ترکی کے صوبے سرناک اور ایران کے ضلع کردستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لوگوں میں بہت سے حضرات کمیونسٹ ہیں اور یہ ترکی اور ایران سے الگ ہو کر ایک کمیونسٹ ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ ماضی میں ان لوگوں کو روسی حمایت حاصل رہی ہے اور شاہ ایران اور ترکی کی نیٹو اتحادی حکومت ان کی بغاوت کو کچلتی رہی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد اس علاقے کیلئے بناۓ جانے والے تقسیم کے منصوبے کی وجہ سے اب انہیں امریکی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ جس وقت ساری دنیا حلب کے آپریشن کے خلاف چلا رہی تھی اس وقت ترکی کے صوبے سرناک میں کرد سنیوں کے خلاف ایسا ہی ٹینکوں اور ہوائی جہازوں والا آپریشن چل رہا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب خلافت عثمانیہ نے شامی اور عراقی مسیحیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مہم چلائی تو ان قبائلی افراد کو ساتھ ملا کر شریک جرم کیا گیا۔ اس مہم میں پندرہ لاکھ آرمینی مسیحی مظلومیت کی موت مارے گئے۔
شام اور عراق میں جن علاقوں میں ان لوگوں کو بھیجا گیا وہاں عرب اکثریت ہے۔ شام اور عراق میں رہنے والے کرد یہاں کے قدیم باشندے نہیں ہیں اور اسی وجہ سے اقلیت ہیں۔ اگر ان علاقوں کو کردستان میں شامل کیا جانا ہے تو یہاں کے عربوں کو ان کے گھروں اور زمین سے محروم کرنا ہو گا۔ یہ ویسا ہی نسلی صفایا ہے جو فلسطین میں اسرائیل کے قیام سے پہلے انجام پایا تھا۔ ہمارے بہت سے لبرل لوگوں کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیوں کہ ویڈیو گیم کھیلتے ہوۓ انھیں آبادیوں کی نقل و حمل میں کبھی کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن حقیقی دنیا ویڈیو گیم سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ یہ مہاجرین جس زمین پر جاتے ہیں وہ کسی اور آبادی کا مادی سرمایہ ہوتی ہے۔ کسی بھی آبادی کیلئے چند ہزار سے زیادہ انسانوں کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور یہاں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا جا رہا ہے۔ کرد پشمرگہ جب ان علاقوں میں آ گئے تو انہوں نے مسیحی، سنی اور ایزدی لوگوں سے تمام اسلحہ لے لیا اور کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔ لیکن جب داعش نے حملہ کیا تو یہ لوگ جان بوجھ کر پیچھے ہٹ گئے تاکہ وہ ان علاقوں میں دہشت پھیلا کر مقامی باشندوں کو نکال سکیں۔ اب جب داعش کو شکست ہو رہی ہے تو ان مقامی باشندوں کی واپسی کا راستہ روکا جا رہا ہے۔ بہت سے علاقوں میں تو کرد پیشمرگہ نے خود نسلی صفایا کیا اور مقامی افراد کو نکالا ہے۔
تقسیم کے منصوبہ سازوں کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ یہاں مختلف مذاھب، نسلوں اور مسالک کے لوگ صدیوں سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں۔ بات صرف ایک دوسرے کو ضرورت کے تحت برداشت کرنے کی نہیں ہے، بلکہ پورے عالم اسلام میں بین المسالک شادیوں کا رواج عام ہے۔ اسکی ایک مثال شامی صدر بشار الاسد کی ہے، جس کا تعلق علوی مسلک سے ہے مگر اسکی بیوی سنی شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ خانہ جنگی کیلئے ضروری تھا کہ امریکا کسی ایک ریاست کے ڈھانچے کو تباہ کرتا، اور اس مقصد کیلئے عراق کا انتخاب ہوا جس کے کیمیائی ہتھیار 1991 میں تباہ کئے جا چکے تھے اور صدام کو ڈونلڈ رمزفیلڈ جیسے لوگوں کے مشوروں سے خوب بیوقوف بنایا جا چکا تھا۔ صدام کی حکومت گرنے کے بعد عوامی حکومت کے قیام کے بجاۓ امریکا نے وہاں ٹھہر کر تقسیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام القاعدہ کو کھلی چھوٹ ملنا تھا جنہوں نے القاعدہ کی عراقی شاخ کی بنیاد رکھی۔ دوسرا کام عراق کی فوج اور پولیس کو ختم کرنا تھا۔ عراق کی فوج اور پولیس کے تربیت یافتہ اہلکاروں کو، جن کی تربیت پر عراقی عوام کا سرمایہ خرچ ہوا تھا، صدام کی فوج کہہ کر نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ صدام کے زمانے میں اہم سرکاری نوکریاں صدام کے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے حضرات کو ملی تھیں جو تکریت اور موصل کا سنی نشین علاقہ ہے۔
عراق کے شیعہ حضرات کے احساس محرومی کو استعمال کر کے ان میں فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دی گئی۔ آیت الله باقر الحکیم جیسے معتدل اور صاحب مطالعہ شیعہ علماء قتل ہوۓ اور مقتدی الصدر جیسے شیعہ فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ ملی۔ چونکہ عراق میں شیعہ حضرات کی اکثریت تھی لہٰذا انتخابات میں شیعہ سیاست دان نوری المالکی کو کامیابی ملی۔ یہ صاحب امریکا کے کٹھ پتلی تھے۔ انہوں نے سنیوں کو نوکریوں سے محروم کیا اور ہر جگہ مسلکی تعصب کی بنیاد پر شیعہ افسروں کو لگایا۔ ان کی حکومت میں کرپشن کی کہانیاں بھی زبان زد عام ہوئیں۔ ایسے میں امریکی انٹیلی جنس کی ناک تلے القاعدہ خوب پلی بڑھی اور شیعہ سنی مخالف جذبات کو خوب ہوا ملی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اسی عرصے میں شیعہ ہلال کا بہت ذکر شرو ع ہو گیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں شیعہ سنی کی بنیاد پر بات ہونے لگی۔ پہلے یہ سوال کبھی اٹھایا ہی نہیں گیا تھا کہ کون شیعہ ہے کون سنی؟ آخر اس چیز کی اہمیت ہی کیا ہے؟ عوام کو پہلی دفعہ پتا چلا کہ ایران، عراق اور سعودی عرب کے تیل والے علاقوں میں تو شیعہ رہتے ہیں، جو عام مسلمانوں سے الگ کوئی مخلوق ہیں۔
وہ حافظ الاسد جو فلسطین اور لبنان کے لوگوں کو بچانے کیلئے اپنے فوجی مرواتا رہا، وہ تو علوی شیعہ تھا۔ وہ جس کا دفتر خارجہ اور انٹیلی جنس ایجنسیاں عرب مفادات کیلئے ہر وقت مستعد رہتی تھیں، اور جو نہ صرف عرب دنیا بلکہ باقی مسلمان ممالک میں بھی عام مسلمانوں کا محبوب تھا، اس کا مسلک سامنے لایا جانے لگا۔ قذافی سنی تھا، تو اس کو مرتد کہا جانے لگا کیونکہ اس کے ملک کو افریقہ سے داعش کی سپلائی لائن بنانا مقصود تھا۔ 2008 میں حزب الله کا ملٹری کمانڈر عماد مغنیہ ایک دھماکے میں قتل ہوا تو اس کے مسلک کے ذکر نے اسکی طرف سے غزہ کیلئے خوراک، ادویات اور اسلحے کی ترسیل کے ٹنل نیٹ ورک کے قیام جیسی اصل وجہ قتل کو اندھیرے میں دھکیل دیا۔ پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر من و تو کا سوال کھڑا ہو گیا، ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے والے اجنبی بتاۓ جانے لگے۔ مختلف میڈیا چینل پر شیعہ سنی مناظرے ہونے لگے۔ چودہ سو سال پرانے آباء و اجداد کے معمولی اختلافات کو اچھالا جانے لگا۔ وصال اور فدک جیسے چنیل وجود میں آ گئے۔ تاریخ کی نبض میں آنے والی تیزی سے بے خبر شیعہ اور سنی آرام سے سو رہے تھے اور خون آشام جنگ انکی طرف بڑھ رہی تھی۔
پاکستان میں جماعت اسلامی جیسی فرقہ پرست تنظیموں اور اوریا مقبول جان جیسے جنونی افراد نے شام کے بحران کے تناظر میں پاکستانی شہریوں میں نفرت کا تنور بھڑکا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے پیجز اور پروفائلز پچھلے چھ سال سے شام کے بحران پر لکھ رہے ہیں جن میں سب سے نمایاں جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا ونگ سے منسلک پیجز ہیں۔ جماعت اسلامی کے رسمی پیجز اور قیادت کے اخباری بیانات مذہبی بنیادوں پر معاشرے میں فساد کے خلاف ہوتے ہیں اور اسی جماعت کے مشعل جیسے غیر رسمی پیجز اور کارکنان ذاتی نشست و برخاست میں فرقہ وارانہ جنون اور دروغ گوئی کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ قیادت اور کارکنان کے کردار کا تضاد اور رسمی و غیر رسمی نمائندوں کی منافقت ہی جماعت اسلامی کی معرکہ الآراء ناکامی کی وجہ ہے۔ جس وقت قاضی حسین احمد ملی یکجہتی کونسل میں بیٹھے تھے اسی وقت پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں جمیعت کا ناظم اکرم لاہوری سپاہ صحابہ میں شامل ہو کر محسن نقوی کو قتل کر رہا تھا۔
فطرت کا اصول ہے کہ تاریخ اپنا سچ اگل کر رہتی ہے۔ لکھنے اور بولنے والے وقتی مفادات اور وقتی فرقہ وارانہ نفرت کی تسکین کیلئے جتنا بھی جھوٹ بولیں، کچھ عرصے بعد ان کے تضادات انکی چغلی کھاتے ہیں۔ تازہ لطیفہ جو یہ حضرات میدان میں لاۓ ہیں یہ ہے کہ داعش شیعوں کی غلام ہے، انکی بنائی ہوئی ہے اور ان کے احکامات کے مطابق عمل کرتی ہے۔ اس جھوٹ کو سامنے لانے کا مقصد اس سچ کو چھپانا ہے کہ داعش کی پیدائش اس وقت ہوئی جب شام میں خلافت کے طور طریقوں پر جھگڑا ہوا اور سلفی باغیوں اور اخوان المسلمون سے متاثر باغیوں نے ایک دوسرے کے خون کے دریا بہا دئیے۔ اگر کسی نے اس زمانے میں ان فرقہ پرست حضرات کے سوشل میڈیا پر نظر رکھی ہو تو یہ لوگ یہاں اس جھگڑے کے خاتمے کی دوائیں کرتے رہے۔ داعش کی پیدائش شامی باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ہوئی، اگر شیعہ ان علاقوں میں نفوز کر کے اتنی بڑی لڑائی کروا سکتے تو وہ سب سے پہلے ان علاقوں میں شیعہ عوام کا قتل عام رکواتے۔ اوریا مقبول جان اور جماعت اسلامی کے کارکنان کے غیر رسمی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے شامی باغیوں میں موجود عدم برداشت اور تنگ نظری پر برقعہ ڈالنے کی کوشش انہی حضرات کی تین سال قبل کی تحریروں کو ذہن میں لانے سے کھل جاتی ہے۔ جس وقت داعش نے عراق میں قبضہ کیا تو اوریا مقبول جان اس کو پیار سے اسلامی ریاست کہا کرتے تھے۔ دنیا بھر سے آنے والے غیر مقامی باغیوں کو امت کی تشکیل کا نام دیا کرتے۔ اگرچہ اس “امت”میں ہر گروہ کے اپنے مسلک کو ہی داخلے کی اجازت تھی۔
شام و عراق کے کچھ شہروں پر قبضہ کرتے ہی انہوں نے وہاں موجود شیعہ اقلیت کا قتل عام کیا۔ شیعوں کو قطار میں لٹا کرگولی مارنے والی ویڈیوز داعش کی ابتدائی پروپیگنڈا ویڈیوز تھیں اور یہ اس قدر عام ہوئی تھیں کہ اس گروہ کا ٹریڈ مارک بن چکی ہیں۔ اس وقت ان لوگوں کے پاکستان میں موجود حمایتیوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا تھا۔ یہاں جنونی حضرات شیعوں کو دھمکیاں دیا کرتے تھے کہ عنقریب پاکستان میں بھی یہی کریں گے۔ کربلا اور نجف میں موجود شیعہ تہذیب کے آثار اور مراکز کو کفر کا مرکز کہہ کر ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی وکالت کی جاتی تھی۔ شام میں حضرت زینب(س) کے روضے کو گرا کر انکی قبر چاک کرنے کی بات ہونے لگی۔ مفتی عدنان العرعور اور شیخ احمد الاسیر صاحب کی تصویریں پاکستانی سوشل میڈیا پر پھیل گئیں۔ حال ہی میں اوریا صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر داعش شیعہ مخالف ہے تو کربلا، نجف، مشہد جیسے شیعہ اکثریت کے علاقوں پر حملہ کیوں نہیں کرتی؟ سوال یہ ہے کہ کیا موصل میں اتنے زیادہ بے گناہ شیعہ حضرات کا قتل اوریا صاحب کی تسکین کیلئے کافی نہیں ہے؟ اوریا صاحب اگر جنون سے باہر نکلیں تو انہیں یاد آ جاۓ گا کہ ان کی سابقہ محبوبہ “اسلامی ریاست” کربلا اور نجف کی طرف ہی بڑھ رہی تھی۔ لیکن آگے بھی انسان ہی رہتے تھے اور انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر قتل عام کا انتظار کرنے کے بجاۓ مزاحمت کا آغاز کیا۔
ایران نے بھی اس لشکر کو طاقت ور ہوتے اور اپنی طرف بڑھتے دیکھ لیا تھا۔ آیت اللہ علی سیستانی کا ازن جہاد آپ کو یاد ہو گا؟ اس کے بعد عراق میں حشد الشعبی کا قیام عمل میں آیا اور ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کا میڈیا میں تذکرہ ہونے لگا۔ یہ وہ اقدامات تھے جنہوں نے ان مقامات اور شہریوں کی حفاظت کی۔ اس کے باوجود عراق کے شیعہ نشین علاقوں میں آپ کی سابقہ محبوبہ داعش نے حتی الوسع خودکش دھماکے کئے ہیں جن میں بے شمار شیعہ قتل اور تمام عمر کیلئے معذور ہوۓ ہیں۔ اگر داعش شیعہ حضرات کی غلام ہوتی تو شیعوں کو اپنے بچے محاذ جنگ پر بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی، وہ حشد الشعبی میں جانے کے بجاۓ پہلے کی طرح اپنی تعلیم، کاروبار اور شادی بیاہ کی فکر کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی جیسی سنی فرقہ پرست تنظیموں نے شیعوں پر بقا کی جنگ مسلط کی ہے اور اگر عام سنی اس حماقت میں شریک نہ ہو تو وہ بھی ان تنظیموں کی طرف سے مرتد اور واجب القتل قرار پاتا ہے۔
تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اسلامی خلافت اور اسلامی نشاہ ثانیہ کے داعی اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے مسالک کے خون کے اتنے پیاسے کیوں ہیں؟ کیا یہ آپ کے اپنے وطن کے بیٹے نہیں ہیں؟ جہاں یہ بات غیر انسانی ہے وہاں احمقانہ بھی ہے۔ ہم اپنے معاشروں میں موجود شیعہ آبادی کا قتل عام کریں گے تو وہ مزاحمت کریں گے اور انقلاب کی دیگ بیچ چوراہے میں الٹ جاۓ گی۔ ہم بے شک اس مزاحمت کو ان کی سازش کہیں، مگر وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کی بقا کا معاملہ ہے۔ پھر کروڑوں لاشوں کا کیا ہو گا؟ شیعہ تو ہر شہر اور ہر قصبے میں ہزاروں کی تعداد میں ہیں، انکی لاشوں کو کون دفناۓ گا؟ اپنے ملک میں دیکھ لیجئے، سپاہ صحابہ نے اتنی محنت کر کے تیس ہزار شیعہ قتل کئے ہیں، حاصل کیا ہوا؟ اس سے دس گنا زیادہ لوگ تو ہر سال ہسپتالوں میں فوت ہو جاتے ہیں۔ اس حماقت کا ایک ہی نتیجہ ہے اور وہ ہے بد امنی اور انسانی سرماۓ کا تخریبی سرگرمیوں میں ضیاع، جس کا حاصل ضرب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بے پناہ غربت نے جنم لیا ہے۔ خوف کی فضا نے صنعت اور کاروبار کو ڈبو دیا ہے۔
نوٹ: اس سلسلے کی پچھلی قسط کا لنک: https://www.mukaalma.com/article/hamzaibrahim/3028

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply