قندیل بلوچ کی زندگی پر فلم ضرور بنائیں

مارکیٹنگ کے استاد نے ایک دن کلاس میں بتایا کہ جس طرح مارکیٹنگ کے اصول پراڈکٹ پر لاگو ہوتے ہیں اسی طرح انفرادی خدمات فراہم کرنے والا ایک انسان بھی ان سے استفادہ کر سکتا ہے ۔آپ غور کریں تو ایک جیسی علمی و جسمانی قابلیت رکھنے والے کچھ لوگ جو ایک ساتھ کیرئیر کی شروعات کرتے ہیں، کچھ عرصہ بعد کچھ وہیں کے وہیں رہتے ہیں جبکہ بعض بہت زیادہ ترقی کر چکے ہوتے ہیں، ایسا اس لیئے ہے کہ پہلے بازار کو سمجھے بغیر خود کو بیچتے ہیں جبکہ دوسرے بازار کے اس حصے میں فروخت ہوتے ہیں جہاں ا ن کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہو، کثیر صارف ملیں اور کم سے کم وقت میں بازار میں ان کا مقام بن جائے۔اس لیکچر کا عملی تجربہ آپ قندیل بلوچ کے کیس میں دیکھ سکتے ہیں، شاید وہ کبھی اسکول بھی نہیں گئی تھی لیکن بازار کاری کے اصول سمجھ چکی تھی۔ بیشک اس نے روایت سے بغاوت کی کہ اس کے علاقے کی بیشتر لڑکیوں کو 50000 روپے سالانہ میں ڈیفنس کے بنگلوں میں پورا سال کے ایگریمنٹ پر مزدوری کرتے دیکھا جا سکتا ہے، ہر سال سینکڑوں خواتین ملکی و غیر ملکی قحبہ خانوں میں بیچ دی جاتی ہیں۔ یہ سب ہمارے معاشرہ کی روایات کے عین مطابق ہے لیکن قندیل نے اپنی خدمات سوشل میڈیا پر پیش کیں اور اس بازار کا انتخاب کیا جہاں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل ہو۔ آج کل یہ بحث زوروں پر ہے کے اس پر فلم بننی چاہیے یا نہیں، ا س پر فلم بنے کہ وہ عورتوں کے حقوق اور آزادی کا سمبل تھی ، معذرت۔۔۔اس کام سے اس کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا ۔
اس پر فلم بناؤ کہ وہ ایک خنجر تھی۔۔۔ جو مختصر وقت میں حاجیوں کے معاشرے کا پردہ چاک کر گئی ،وہ معاشرہ جو اسے فاحشہ کا لقب اور ہزاروں لائکس ایک ساتھ دیتا تھا، الیکٹرانک میڈیا اس کو کوریج کس لیئے دے رہا تھا ؟یقیناً ہائی ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے ، حتی کہ ایک دن جیو کے ساتھ والے وڑائچ صاحب بھی اس کے ساتھ دن گزار آئے جبکہ اس کے کریڈٹ پر ایک فلم تو کجا چند منٹ کا ایک اشتہار بھی نہیں تھا ۔میرے ایک دوست نے کیا خوب بات کی کہ جو ہنر آپ کے پاس ہے آپ بیچتے ہیں، جو اس کے پاس تھا وہ بیچ رہی تھی ۔آخری وقت میں وہ اس مقدس عمارت تک بھی پہنچ گئی جس کے بارے میں غالب نے خدا کا وسطہ دے کر پردہ اٹھانے سے منع کیا تھا ۔ پردہ اٹھا تو غالب کا پونے دو سو سال پرانا خدشہ صحیح نکلا ۔۔۔۔۔ سیلفی وائرل ہوئی تو پتا چلا کہ پردے کے پیچھے ناصرف کافر صنم موجود تھا بلکہ قندیل کو پہلو میں بٹھا کر دستار بندی بھی کر چکا تھا ۔۔۔اور ہاں آخر میں یہ کہ جب ساری بات بازار کاری و کاروبار کی ہو رہی ہے تو یہ بتا دوں کہ ہر کاروبارِ بازار میں صارف کا مقام و مرتبہ بنیادی ہے اگر وہ نہ ہو تو کاروبار کا کوئی جواز نہیں، سو اگلی بار جام و صبو، مے و پیمانہ، ساقی و میخانہ وغیرہ کو گالی دیتے ہوئے “رند” کو بھی یاد رکھیں جو بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply