سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کیسے چلتے ہیں؟

یہ ایک سنجیدہ اور تکنیکی بلکہ صاف الفاظ میں کہیے تو ایک کاروباری مسئلہ ہے جس کی سوشل میڈیا پر گھنٹوں بیٹھنے والے حقیقی لوگوں میں سے غالبًا اٹھانوے فیصد کو بالکل بھی سمجھ نہیں ہے۔ اس موضوع پر لکھنے کے لیے جس ارتکاز اور وقت کی ضرورت ہے وہ ابھی میرے پاس نہیں ہے اس لیے سرسری چند باتیں صرف یادداشت کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں۔ کوئی واقعاتی غلطی ہو جائے تو پیشگی معذرت۔
لوگ کہتے ہیں کہ فلاں مسئلہ سوشل میڈیا پر ڈسکس ہوا اور حکومت کو یا عدلیہ کو فلاں اقدام کرنا پڑا۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے، اور ایسے جاروبی بیانات صرف سادگی میں یا پھر تجاہلِ عارفانہ سے دیے جاتے ہیں۔ اصولی بات ہے کہ جب تک کوئی گروپ یا گینگ کسی مسئلے کے حق میں یا خلاف ساتھ نہ دے، سوشل میڈیا پر اٹھتی آوازوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ کوئی مسئلہ کہیں سے کھڑا ہوا، جب تک اس کے مناسب کوئی پرسانِ حال میدان میں نہیں آئیں گے تب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ سوشل میڈیا پر گروپس اور پیجز کی شکل میں موجود یہ پرسانِ حال پیسے لے کر کام کرتے ہیں اور کبھی کبھی بلامعاوضہ بھی مل جاتے ہیں۔ آئیے چند مثالیں دیکھتے ہیں۔
یہ 2012 کی بات ہے کہ کراچی میں اپنی بہن کو چھیڑنے سے منع کرنے پر نوجوان شاہ زیب جتوئی قتل ہوا۔ سوشل میڈیا پر آگ لگ گئی۔ کیس چلا، گرفتاری، مقدمہ، معافی تلافی سب کچھ ہوا۔ اس پورے پراسیس کو چلانے اور مسئلے کو سوشل میڈیا میں مختلف گروپوں میں زندہ رکھنے کے لیے قاتل شاہ رخ جتوئی کے باپ کے سیاسی مخالفین نے خوب خرچ کیا۔ مقتول کی ہمدردی کے لیے کئی گروہ ازخود میدان میں اتر آئے اس لیے خوب گہماگہم رہا۔ انہی دنوں لاہور میں کانجوؤں کے لڑکے کے ہاتھوں زین قتل ہوا۔ چند دن ہلکی ہلکی آوازیں آئیں لیکن بالآخر وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیا تب کچھ بات بنی۔ اس دوران میں زین کے خاندان کی طرف سے سرد مہری کی شکایت ہوتی رہی۔ ایک ٹاک شو میں کسی نے ایک سندھی وزیر (نام لینا مناسب نہیں) سے پوچھا کہ شاہ زیب کا مسئلہ بہت زور شور سے چلا لیکن زین کی بات آئی گئی ہوگئی ہے، ایسا کیوں ہے؟ تو اس نے کچھ ایسا جواب دیا کہ سوشل میڈیا پر یہ کیس ہم نے چلوایا ہے تو چلا۔ (لفظ یقینًا یہ نہ تھے لیکن گفتگو کا تاثر یہی تھا۔) القصہ یہاں ایک کیس میں پیسہ اور اثر و رسوخ چلا اور دوسرے میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی دلچسپی پرسانِ حال ہوئی۔
دو اور مثالوں میں موازنہ کیجیے۔ کراچی میں غالبًا 2011 میں ایک رینجرز اہلکار نے ایک بے گناہ لڑکے کو گولی ماری۔ سوشل میڈیا پر شور مچ گیا۔ یہ قتل چونکہ حکومت کے خلاف جاتا تھا اس لیے بے شمار چھوٹے بڑے حکومت مخالف سوشل میڈیا گروپ اور گینگ اس شور میں اپنی آواز ملانے لگے اور ایک ماحول بن گیا۔ رینجرز کی قیادت کو تبدیل بھی کرنا پڑا۔ رفتہ رفتہ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا۔ اب غالبًا وہ رینجرز اہلکار رہا ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ اسی طرح مانسہرہ میں 2014 میں ایک مدرسے کے مولوی نے اپنے دوستوں کے ساتھ چلتی گاڑی میں ایک لڑکی کا گینگ ریپ کیا اور فلم بنائی۔ بات پھیلی تو وفاق المدارس نے پہلے تو اس جانور کو اپنا طالبِ علم ماننے سے ہی انکار کر دیا لیکن پھر مانتے بنی، البتہ علما کی ایک بڑی تعداد اس مذہبی جانور کو شروع سے بچاتی رہی۔ آج یہ درندولوی بھی رہا ہو چکا ہے یا رہا ہونے والا ہوگا۔ ان دونوں مثالوں سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر مجرم کے پیچھے کوئی طاقتور ادارہ ہے تو اسے بچا لیا جاتا ہے خواہ سوشل میڈیا پر جتنا بھی شور مچا لیا جائے یا مچوا لیا جائے۔ پہلی مثال میں مجرم کی پشت پر رینجرز کا ادارہ تھا اور دوسری مثال میں طاقتور مذہبی مافیا۔ (یاد رہے کہ ہمیں اداروں کا احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان رینجرز ہمارا ایک فعال کارگزار ادارہ ہے اور قومی سلامتی اور امنِ عامہ کی بحالی میں اس کی بڑی خدمات ہیں۔ ایک اہلکار کے عمل کی وجہ سے ادارے کو برا نہیں کہنا چاہیے۔)
میں نے ان مثالوں کو گزشتہ چھہ سات سال تک محدود رکھا ہے کیونکہ مجھے سوشل میڈیا ٹرینڈز چلنے کا ذکر کرنا مطلوب ہے۔ اس چھہ سات سال کے دوران میں کئی اور واقعات بھی ہوئے جن میں سب سے بڑا واقعہ ملالہ کا ہے، جس پر کئی گروپوں نے خوب انویسٹ کیا اور اپنے اپنے مقاصد حاصل کیے، اور اسی دورانیے میں کئی واقعات ایسے ہوئے جو ان درج کردہ واقعات سے کسی طور ہلکے نہیں تھے لیکن ان کو کھڑا رکھنے کے لیے مناسب وسائل مہیا نہ تھے اس لیے وہ زمانے کی گرد میں گم ہوگئے ہیں: ڈونگہ گلی میں لڑکی کا ویگن میں جلایا جانا، لاہور میں عدالت کے سامنے عورت کو سر میں اینٹیں مار مار کر ہلاک کرنا، ریمنڈ ڈیوس کے ایک مقتول کی بیوی کی خودکشی، کراچی کے مضاربہ فیم مفتی کے داماد کا قتل، ایک جلد باز مفتی کے غلط فتوے کی وجہ سے ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا قتل، ایان علی کیس کے فرض شناس تفتیش کار افسر کا قتل، وغیرہ وغیرہ، وہ واقعات ہیں جن پر بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن کہیں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اور کہیں سوشل میڈیا پر طاقتور مخالف گروپوں اور گینگوں کا سامنا ہونے کی وجہ سے یہ اور ایسے بہت سارے اندوہگیں واقعات دب دبا کر رہ گئے۔
آج اگر بڑی سادگی اور دلدوزی سے کوئی پوچھتا ہے کہ مستونگ میں پچیس مولوی مارے گئے یا گوادر میں اتنے اتنے مزدور مارے گئے تو سوشل میڈیا پر کوئی بات نہیں ہو رہی لیکن لاہور چڑیا گھر میں ہتھنی سوزی مر گئی ہے تو کتنے ہی لوگ بات کر رہے ہیں، تو اس ناواقفی پر ہنسی آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پیج اور گروپ بنانا اس قدر آسان ہے کہ حد نہیں۔ جس کے پاس ایک سمارٹ فون اور ایک لیپ ٹاپ موجود ہے، وہ آٹھ سے دس فیک آئی ڈیز بناکر انھیں بیک وقت چلا سکتا ہے۔ ہر آئی ڈی سے حقیقی لوگوں کو فرینڈ ریکوئسٹیں جاتی ہیں اور اس کا حلقہ بنتا چلا جاتا ہے۔ مثال لیجیے کہ ایسے 10 لوگ مل کر 100 اکاؤنٹ بناکر سماج کے بڑے حصے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ یہ 10 لوگ مل کر اپنے تین سے پانچ ہزار دوستوں کو دوستی کے ہاتھوں مجبور کرکے بغیر ایک پیسہ خرچ کیے کوئی بھی ٹرینڈ چلا سکتے ہیں، اور چلا رہے ہیں۔ یوں ہزاروں رضاکار مہیا ہیں جو مختلف لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں، اور ان بے چاروں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ تو جناب، یوں ٹرینڈز چلتے ہیں! اور جن ٹرینڈز کو چلانے میں عالمی گروہوں اور گینگوں کی فنڈنگ یا مفادات بھی ہوں ان کا تو کیا ہی کہنا۔
سوشل میڈیا ٹرینڈز کی بڑی اہمیت ہے۔ مثلًا امریکہ میں صدارتی امیدواروں کے حق میں یا خلاف رائے عامہ استوار کرنے کے لیے ان ٹرینڈز کا بے دریغ استعمال ہوا ہے اور ان سے خوب کمایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ سرچ انجن کے مقابلے میں سوشل میڈیا ویب سائیٹس نے اب تک فیک ٹرینڈز کے سدِ باب کے لیے کوئی تکنیک ایجاد ہی نہیں کی۔ چنانچہ ہو یہ رہا ہے کہ راتوں رات کسی ادارے یا ملک یا شخصیت یا کسی قانون وغیرہ کے خلاف اس تکنیک سے طوفان اٹھا دیا جاتا ہے کہ پورے سوشل میڈیا کا کئی فیصد مجمع یعنی کئی گروپوں اور پیجز کے یوزرز اس ادارے/ ملک/ شخصیت/ قانون کے خلاف زہر اگل رہے ہوتے ہیں۔ کئی ملکوں کے سیکورٹی اداروں کے خلاف اس قسم کی مکروہ مہمیں چلانا مختلف ممالک کی ایجنسیوں کے ایجنڈوں میں سرِ فہرست ہے۔ جس ملک یا ادارے وغیرہ کے خلاف کسی غلط خبر یا تضحیکی یا ساکھ خراب کرنے والی کوئی بات پھیلانا ہوتی ہے، اسی ملک میں سے مختلف سوشل میڈیا گروپوں کے ممبرز کے ذریعے یہ کام کرایا جاتا ہے۔ ان ممبروں کی دیکھا دیکھی ان کے نادان فرینڈز بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے اور بڑھ بڑھ کر بول رہے ہوتے ہیں۔ دو گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ سیکڑوں نہیں ہزاروں اور اگر زیادہ خرچ کیا گیا ہے تو لاکھوں لوگ وہ مخصوص بات کر رہے ہوتے ہیں اور اس ادارے، ملک یا شخصیت کی عزت و ساکھ کا فالودہ بن چکا ہوتا ہے۔ یوں کسی بیرونی حملہ آور کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور دیکھتے دیکھتے عوام کے انتہائی مشتعل ہجوم اپنے ہی ملک کے خلاف کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں جن سے نبٹنے کے لیے ملک کے سیکورٹی اداروں کو وختہ پڑ جاتا ہے۔ ایسے ہی کچھ گروپس اور پیجز کے ممبر مل کر کسی کو توہینِ مذہب کے الزام میں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنوا سکتے ہیں تو کسی مصنف کی تحریر کو ایک گھنٹے میں دس ہزار وزِٹ اور بیس ہزار لائیک دے سکتے ہیں۔ بے چارے حقیقی مصنف اور صحافی اپنی درجہ اول تحریروں کو گندے انڈوں کی طرح سیتے رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا ٹرینڈز کا منفی نہیں بلکہ مثبت استعمال بھی روز افزوں ہے۔ مثلًا کسی برانڈ یا آئٹم سے متعلق کسی مشہور Influencer یا سیلبرٹی سے ایک Like کرا لیا جائے یا ایک کمنٹ کرا لیا جائے، جیسے موبائل فون کے کسی ماڈل یا کپڑوں کے کسی برانڈ پر مریم نواز سے صرف ایک لائیک یا کمنٹ کرا لیا جائے، تو سمجھیے کہ انویسٹر کی چاندی ہوگئی۔
آخری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے بعض مذہبی و سیاسی گروپوں اور پیجز کی شکل میں مختلف گینگوں اور کالعدم تنظیموں کے نمائندے نمائندیاں آپ لوگوں کی فرینڈ لسٹوں میں بڑی مدت سے موجود ہیں اور آپ سے آپ کی دلچسپی کے موضوعات پر روزانہ گپ شب بھی لگاتے ہیں اور آپ کا مائنڈ سیٹ بنانے اور بدلنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تیز طرار لوگ جن کا اصل نام اور مقام تک آپ نہیں جانتے اور نہ ان کی تصویر ہی آپ نے کبھی دیکھی ہے، آپ کی نہ صرف سوشل میڈیا سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ آپ کی ذاتی زندگی اور مزاج میں پوری طرح دخیل ہیں اور آپ کی ان ان چیزوں سے بھی واقف ہیں جن کے بارے میں آپ کے قریبی ترین رشتے دار بھی کچھ نہیں جانتے۔ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی حفاظت کیجیے کیونکہ یہ لوگ آپ کے فرینڈ بن کر آپ کے رشتے داروں سے راہ و رسم پیدا کرتے ہیں۔ صرف اور صرف جاننے والے لوگوں کی وال پر جایا کیجیے اور کہیں بھی کسی مذہبی یا سیاسی بحث میں شریک نہ ہوا کیجیے۔ خاص طور سے وہ شخص جو آپ کو کسی ہیش ٹیگ پر گفتگو کا حصہ بناتا ہے اس سے خود کو بچائیے۔
مین سٹریم میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی کامیابی کی ایک وجہ یہی تھی کہ اول الذکر عوام کے جذبات کی ترجمانی کے بجائے مختلف انویسٹرز کے ایجنڈوں پر مبنی خبروں اور ٹی آر پی (Television Rating Point) کی دوڑ میں لگا رہتا تھا جب کہ سوشل میڈیا میں ایسا کچھ نہ تھا۔ لیکن بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا پر بھی ایجنڈے اور مشہوری کی جنگ ٹرینڈنگ کی شکل میں چھڑ چکی ہے اور بدھو عوام مفت میں پروموٹر بن کر ان مذموم ایجنڈوں کے بڑھاوے کے لیے کام کر رہی ہے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کیسے چلتے ہیں؟

Leave a Reply to سیدہ صبیح گل Cancel reply