جہنم اور عذاب الیم کہ جس کا وجود تمام ادیان کی ضروریات میں سے ہے اور برہانی لحاظ سے جو واضحات میں شمار ہوتا ہے ہمیشہ سے انسان کے ذہن کی توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔اور انسان کو خوف زدہ کیے رکھتا ہے۔ ایسے عذاب الیم اور دردناک آگ کی ضرورت کیا ہے؟ ایسا عذاب اور ایسی آگ کہ جو خود اپنی حرارت کی شدت و سختی کی شکایت خداوند سے کرتی ہے اور رسول خدا ، جبرائیل امین جس کی صفات سن کر گریہ کرنے لگتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک الٰہی حکیم و فلسفی اور عارف پورے جہان کو حق تعالٰی کی رحمت رحمانیہ ور رحیمیہ کی تجلی گاہ جانتا ہے اور خداوند متعال کو رحمان دنیا اور رحیم آخرت بلکہ دنیا کا رحمان اور دنیا و آخرت کا رحیم قرار دیتا ہے اور اس کےعلاوہ نشئہ آخرت کو حکومت رحیمیت کا روز طلوع اور اسکی سلطنت کے ظاہر ہونے کا دن جانتا ہے تو وہ کس طرح جہنم اور اس کے عذاب کی تفسیر کرتا ہے ؟
جہنم کی باطنی صورت لطیف اور رحمت الہٰی ہے کہ جو گناہ گار مومنین کو خالص کرنے اور انہیں ابدی سعادت تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے جہنم ان لوگوں کے لئے غضب کی شکل میں رحمت ہے کہ جو ابدی سعادت تک پہنچنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اگر جہنم میں انجام پانے والے تطہیرات و تخلیصات نہ ہوتے تو یہ لوگ ہرگز سعادت تک نہ پہنچ پاتے ۔
جہنم کی آگ انسان کے رخسارفطرت سے اجنبی وتاریک نقش و نگار مٹا کر ، اہل توحید گناہ گاروں کو شفاعت و مغفرت کے درجے پر فائز ہونے کے قابل بناتی ہے۔ اور جوار قرب الہی کا راستہ ان کے سامنے کھولتی ہے ۔
قیامت کے مواقف اور برزخیں ایسے دارالشفاء کی مانند ہیں کہ جہاں گناہ گار مومنوں کے نفسانی و روحانی امراض کا آگ اور عذاب جیسی تلخ دوا کے ذریعہ علاج کیا جاتا ہے تا کہ ان کے ضمیر کی لوح سے گناہ کی ظلمت اور تاریک گردو غبار صاف ہو جائے۔ اگر انسان اپنے اعمال و کردار کے ذریعے یہ آگ نہ بھڑکاتا تو جہنم بھی سرد ہوتا۔
روایات کے مطابق انبیاء و آئمہ سے منقول ہے کہ جب ہم صراط سے گزرے تو آتش جہنم بجھی ہوئی تھی۔ چونکہ خمود (آگ کا بجھنا) خود انسان کے ذریعے شروع ہوتا ہے۔
جب جہنم خود انسان میں ہی بجھا ہوا ہو تو اخروی جہنم بھی بجھ جاتا ہے۔ برزخ اور قیامت کی تاریکیاں اور وحشتیں انسان کے باطل عقائد اور برے اخلاق کے ظلمانی سائے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر بنی نوع انسان کے اعمال نہ ہوتے اور ہمارے برے اعمال کی غیبی صورتیں نہ ہوتیں تو کوئی جہنم بھی نہ ہوتا اور پورے کا پورا عالم غیب سرد و سالم ہوتا۔
انسان جب تک عالم دنیا میں ہے عبادات اور دوسرے نیک کاموں کے ذریعے تمام نفسانی امراض کی اصلاح کرسکتا ہے خواہ وہ نفس میں اپنی جڑیں پکی ہی کیوں نا کرچکے ہوں اور ملکہ بن چکے ہوں۔ لیکن اگر وہ برے ملکات ، خبیث اوصاف کے ساتھ عالم آخرت میں منتقل ہو تو اس صورت میں اگر اس ذات اور باطن کے اندر نور فطرت اور ایمان محفوظ ہو لیکن اصلاح و تزکیہ اور تصفیہ نفس اس کے اختیار سے نکل گیا ہو بلکہ بدن سے روح کے نکلنے سے پہلے ہی انسان سے اختیار سلب ہو جائے تو پھر اس کی اصلاح کے لئے دوسرے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں مثلاََ قبض روح اور حالت احتضار کی سختیاں اور فشار ، ملائکہ مؤکلہ کی رؤیت سے وحشت اور اسی طرح دوسرے عذاب قبر وغیرہ سے۔
اگر ان برزخی سختیوں اورتکالیف سے اس کے نفس کی کدورت ختم ہوگئی تو وہ سعادت قیامت تک پہنچ جائے گا۔ اور شافعین کی عنایات کے سائے میں اپنے مقام موعود پر فائز ہو جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ یہ کدورت نفس زائل نہ ہوسکی تو پھر اسے قیامت کے عذاب اور اس کے پنجا ہ گانہ مواقف کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ان ہولناک مواقف میں بھی اس کے نور فطرت نے غلبہ حاصل نہ کیا تو آخرکار اسے جہنم میں جانا پڑے گا۔ پس اسے جہنم کے مختلف عذابوں اور طبقات میں محبوس کرلیا جائے گا تا کہ اس کے باطن نفس اور فطرت کا گردو غبار صاف ہو جائے اور اسے فطرۃ اللہ کے خالص طلاوجواہر کہ جو دار کرامت کے لائق ہیں ، حاصل ہو جائیں۔
(کتاب معاد سے اقتباس)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں