• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دو عورتیں،دو کہانی کار ۔حسینہ معین،فاطمہ ثریا بجیا/شکور پٹھان

دو عورتیں،دو کہانی کار ۔حسینہ معین،فاطمہ ثریا بجیا/شکور پٹھان

کیا خیال ہے آپ کا ! عرفی شادی کس سے کرے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

میرے برابر بیٹھے ہوئے بزرگ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ذرا سینئر  بزرگ سے سوال کیا۔  پاروں کو سمیٹ کر تپائی پر رکھتے ہوئے بزرگ نمبر دو نے کچھ توقف کے بعد گہری سنجیدگی سے جواب دیا ،، بینا ،عرفی کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے۔ عرفی کو اسی سے شادی کرنا چاہیے۔،،
پارے پڑھے جاچکے تھے اور اب کھانے کا انتظار ہو رہاتھا۔ یہ ایک ،چالیسویں، کی تقریب تھی۔ میں بزرگوں کے درمیان مودب اور خاموش بیٹھا ہواتھا۔ کچھ دیر تو پتہ نہیں چلا کہ کیا بات ہورہی ہے پھر سمجھ آگیا کہ یہ ،انکل عرفی  کا ذکر خیر ہے۔ میرے گھر میں ٹی وی نہیں تھا، کبھی کبھار کسی رشتہ دار یا دوست کے ہاں، کوئی ڈرامہ، فلم یا میچ دیکھ لیتے تھے۔ انکل عرفی سارے شہر کے حواسوں پر چھائے ہوئے تھے۔ خواتین کی دلچسپی تو سمجھ میں آتی ہے، بچے بھی بات بے بات،، سمجھ رہے ہیں نہ آپ ؟،،۔۔۔ابے لے!!، اور ،چکوہے میرے پاس،، جیسے جملے بولتے رہتے تھے۔ اور تو اور سنجیدہ اور عمر رسیدہ بزرگ بھی اسی پر تبصرے کر رہے ہوتے،
مذکورہ مکالمہ مجھے یوں یاد رہا کہ چہلم جیسی سنجیدہ اور رنجیدہ تقریب میں بھی انکل عرفی موضوع گفتگو تھا۔

فکر معاش میں میری زیادہ تر زندگی دیار غیر میں ہی گذری ہے۔ یہاں میرا زیادہ تر سابقہ ہمارے پڑوسیوں یعنی ہندوستانیوں سے رہتا ہے۔ ہم پاکستانی جب کبھی کسی تقریب میں ملتے تو دنیا بھر کے موضوعات پر بات کرتے تھے مثلاً   سیاست، مذہب، کھیل، حالات حاضرہ، کاروبار، بین الاقوامی حالات وغیرہ وغیرہ (بدقسمتی سے اب صرف سیاست پر ہی بات کرتے ہیں)۔ ہمارے پڑوسیوں کا البتہ صرف ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ ہے  فلم۔ بالی ووڈ یا بمبئی کی فلم نگری جس   کے شب  و روز اور کہانیاں  بچے بچے کو ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی ساری حس مزاح(سینس آف ہیومر) فلموں سے کشید کی ہوئی ہوتی ہے۔ اچھے ، بڑے عہدوں پر فائز لوگوں سے لیکر چپڑاسی تک لطیفے سنائیں گے تو فلموں کے، مثالیں دیں گے تو فلموں سے۔ باپ بیٹے کو نصیحت کرے گا تو کہے گا۔ بیٹا ، دیوا،ر کا ،روی، بننا، وجے ، نہیں۔ بیٹی کو وداع کرتے ہوئے ماں کہے گی،، میں تلسی تیرے آنگن کی یاد ہے نا!! بس ایسا ہی سبھاوٗ رکھنا اپنے پتی کے پریوار کے ساتھ،،
اب کہیں جاکر کرکٹ اور آئی پی ایل بھی انکی مجلسی گفتگو میں در آئی ہے۔لیکن کرکٹ کو بھی فلمی عینک سے ہی دیکھا جاتا ہے کہ کونسی ٹیم کا مالک کونسا اداکار یا اداکارہ ہے۔

سن ساٹھ ، ستر تک ہمارے ہاں بھی کسی حد تک فلموں کا اثر ہوتا تھا لیکن یہ زیادہ تر نوجوانوں اور کم پڑھے لکھوں تک محدود تھا۔ فلمیں بھی اس دور میں خاصی معیاری بنتی تھیں۔ نائلہ، لاکھوں میں ایک، ارمان، چکوری، انجمن، تہذیب، آگ جیسی فلمیں لڑکے لڑکیوں کے زیر بحث رہتیں۔ لڑکے بالےپیشانی پر بال گرا کر وحید مراد بننے کی کوشش کرتے، محمد علی کے مکالمے اور لہری اور رنگیلا کے جملے بولتے رہتے۔ لڑکیاں ، شمیم آرا، زیبا، شبنم کے لباس اپناتیں۔
فلموں کے اس جنوں کا خاتمہ ٹیلیویژن کی آمد سے شروع ہوگیا تھا۔ گھر بیٹھے معیاری تفریح ملنے لگی تو شرفاٗ اور فیمیلیز کا سنیما جانا کم ہونے لگا۔ پیٹ تو فلم والوں کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے، اب دھندا، مندا ہوتے دیکھ کر انہوں  نے بھی انکے لیے فلمیں بنانا شروع کیں جو سینما میں اب بھی آتے تھے یعنی مزدور اور کم پڑھا لکھا طبقہ۔ چنانچہ، خطرناک، مولاجٹ، اور وحشی گجر، جیسی فلمیں بننے لگیں۔ہوتے ہوتے فلمی صنعت نے بھی پران تج دئیے اور ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوتی چلی گئی۔

پی ٹی وی نے البتہ ہر دور میں اور ہر طبقے، عمر اور مزاج کے لوگوں کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ اور معیاری پروگرام پیش کئے۔ اگر صرف ڈراموں کی ہی بات کیجائے تو ہر دور میں کم ازکم ایک ڈرامہ ضرور ایسا رہا ہے کہ پورا ملک اس کا نتظار کرتا۔ رات کے کھانے سے فارغ ہوکر پورا گھرانہ ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتا۔ ڈراموں کی کہانیاں ، کردار اور   اداکاری اور مکالمے اگلے ہفتے تک زیر بحث رہتے۔ ۔ پی ٹی وی کو لگ بھگ پچاس سال ہوگئے ہیں اور سال کے ہر ماہ کوئی نہ کوئی قابل ذکر کھیل چل رہا ہوتا تھا۔ اب اگر میں مثالیں دوں تو یہ مضمون ختم ہوجائے گا، مقبول کھیلوں کی فہرست ختم نہ ہوگی۔
آپ شاید مجھ سے اتفاق نہ کریں لیکن میرا خیال ہے ڈراموں کی مقبولیت اسکے اداکاروں یا ہدایتکار کے سبب، جزوی، طور پر ہوتی ہے۔ ایک اداکار کسی کھیل میں بہت مقبول ہوتا ہے لیکن دوسرے ڈرامے میں اس کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہوتا۔ اسی طرح چند ایک مشہور ہدایتکاروں کے علاوہ، عوام الناس انکے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ البتی ایک شعبہ ایسا ہے جو ڈرامے کی مقبولیت، اسکے انداز اور مزاج کا آئینہ دار ہوتا ہے اور وہ ہے ڈرامہ نگاری یا ڈرامہ لکھنے والے۔

اشفاق احمد کا نام دیکھتے ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ کس قسم کا کھیل ہوگا، اسی طرح اصغر ندیم سید، منشا یاد، امجد اسلام امجد، نورالہدیٰ شاہ، عبدالقادر جونیجو اور انور مقصود کے نام دیکھ کر ناطرین جان لیتے ہیں کہ ڈرامے میں کیا کچھ ہوگا۔
یہ سارے نام بے حد مقبول رہے لیکن اکثر ڈراموں سے ایک مخصوص مزاج کے لوگوں کی ہی تسکین ہوتی تھی۔، مثلاٰ ، اشفاق صاحب کے ڈرامے بے حد با معنی، بامقصد اور سنجیدہ ہوتے تھے لیکن انکے شائقین زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے۔ بچوں اور نوجوانوں  کیلئے ان میں دلچسپی کا عنصر خال خال ہی ہوتا۔ یہی کیفیت دوسرے لکھنے والوں کے ساتھ تھی۔

لیکن میرے شہر کے دو نام ایسے ہیں جن کے کھیل، کیا بڑے بوڑھے، کیا بچے بالے، کیا پڑھے لکھے کیا گھر کے نوکر چاکر، سب ہی ایک دلچسپی سے دیکھتے۔ آئیے آج کچھ بات انکی بھی ہوجائے جن کا نام گھر گھر جانا جاتا ہے۔

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔۔۔

یہ شاید سن بیاسی یا تراسی کی بات ہے۔ میں داہران کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ملازمت کرتا تھا۔ میرے روم میٹ اور بھائیوں جیسے دوست، خرم لاری، جو میرے روم میٹ بھی تھے، کراچی سے چھٹیوں سے واپس آتے ہوئے،، ان کہی،، کے ویڈیو کیسیٹس بھی لیتے آئے تھے۔ اسٹاف کی رہائش ہوٹل کے ساتھ ہی تھی۔ ہمارے ساتھی زیادہ تر انڈین تھے۔ ہم جب یہ ڈرامہ دیکھتے تو کمرہ انڈین اور پاکستانی دوستوں سے بھرا ہوتا۔ ہوٹل تین شفٹوں میں چلتا تھا اور جس کسی کی ڈیوٹی ختم ہوتی وہ آکر کیسیٹ لے جاتا۔ اس طرح یہ ڈرامہ تقریباً  چوبیس گھنٹے چلتا رہتا۔ اردو بولنے والے ہندوستانی دوست جب چھٹی پر جاتے تو اس ڈرامے کی کاپی بنوا کر لیجاتے۔
پھر میں دوبئی چلا آیا۔ یہاں  ان دنوں سب سے بڑی تفریح ویڈیو پر فلمیں دیکھنا تھی۔ کبھی میں بھی فلموں کا شوقین ہوا کرتا تھا لیکن جب سے پی ٹی وی کے ڈراموں کی ویڈیوز یہاں  بھی آسانی سے ملنے لگیں  تو میں انڈین فلموں سے بیزار ہوتا چلا گیا اور اب تک یہی حال ہے۔انہی دنوں  حسینہ معین کا کھیل تنہائیاں ، ہم نے اپنے ہندوستانی پڑوسیوں کے ساتھ دیکھا۔ ہم تو خیر اس طرح کے ڈراموں کے عادی تھے، ہمارے بھارتی دوست اس بے طرح اس کھیل کے عاشق ہوئے کہ  کیا بتائیں۔۔ بات بے بات قباچہ اور سنیعہ کا ڈکر، ڈرامے کے مکالمے، بقراط اوراپابی اور نولکھا کی باتیں۔ یہ بھی جب ہندوستان گئے تو تنہائیاں کی ویڈیو ساتھ لیتے گئے۔

کچھ عرصہ بعد ایک اور کھیل،،دھوپ کنارے،، نے بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جو حسینہ معین کے پچھلے کئی ڈرامے کر چکے تھے۔

حسینہ کا نام پہلے پہل ساٹھ کی دہائی کے بالکل آخری سالوں میں سننے میں آیا۔ ان کا ،، عید کا جوڑا،، خاصا مشہور ہوچکا تھا۔ پھر تو مقبول ڈراموں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔شہزوری، کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، تو ہر کسی کے حواسوں پر چھائے رہتے تھے، پھر کچھ سنجیدہ کھیل جیسے پرچھائیاں،آہٹ، کسک اور بہت سے ڈرامے بڑے مقبول رہے۔
پاکستان ٹیلیویژن کو ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ نگار میسر آئے لیکن مقبولیت میں  حسینہ اپنی مثال آپ ہیں۔وجہ شاید یہ ہوکہ حسینہ زندگی کی خوبصورتیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ بے شک روزمرہ کے مسائل اپنی جگہ بہت اہم ہوتے ہیں اور بہت سے لکھنے والے بڑی سنجیدگی اور خلوص سے اپنے ڈراموں میں انکی نشاندہی کرتے ہیں لیکن مجھ اور آپ جیسے بہت سے  لوگ ،ان مسائل میں  دن رات گھرے رہتے ہیں، وہ کچھ دیر کیلئے انہیں بھولنا چاہتے ہیں تاکہ ذہن کو تروتازہ کرکے اگلے دن پھر تیار ہوجائیں غم روزگار کا مقابلہ کرنے کیلئے۔ حسینہ معین کے ڈرامے ایسے میں ایک ٹانک کا کام کرتے ہیں۔ ان میں بہت زیادہ مبالغہ نہیں ہوتا، وہ ہمارے لئے ہمارے اندر سے ہی زندگی کے مثبت اور خوشگوار پہلو سامنے لاتی ہیں اور ہلکے پھلکے انداز میں جیسے تھپکی دیکر سکون کی نیند سلادیتی ہیں۔
انکے ڈراموں کی خصوصیت انکی زبان و بیان اور انکے کھیلوں میں بولی جانیوالی وہ اردو جو اب ختم ہوتی جارہی ہے، وہ ایک عہد کی یاد دلاتی ہیں  اور ہمارا رشتہ کسی حد تک ہمارے زبان اور تہذیب سے جڑا رہتا ہے۔ ڈراموں کی گمبھیرتا کو گوارہ بنانے کیلئے وہ چند معاون کردار بھی شامل کرتی ہیں جو اکثر مرکزی کرداروں سے زیادہ مقبول ہوجاتے ہین ، جیسے انکل عرفی کا ،حسنات بھائی ،ان کہی کے ماموں یا تنہائیاں کا ، قباچہ، وغیرہ۔
حسینہ کے کردار صاف ستھری زبان بولنے والے، پڑھے لکھے ہوتے ہیں، اچھے کپڑے پہنتے ہیں، عام طور پر خوشحال ہوتے ہیں اور اچھے مکانوں میں رہتے ہیں۔انکی ہیروئنیں  عام طور پر امورخانہ داری سے نابلد ہوتی ہیں۔ ہیرو کے ذریعہ آمدنی کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں  ہوتا، غرضیکہ ہر چیز ہماری عمومی زندگی سے مختلف ہوتی ہے لیکن جب میں تھکا ماندہ گھر آتا ہوں تو مجھے زندگی کی کلبلاتی حقیقتیں، مسائل،، پریشانیاں دکھاتے اور دکھ دیتے ڈرامے اور بسورتی کہانیاں نہیں بلکہ کسی شہزوری، ثناٗ، ثنیعہ، حسنات یا قباچہ کی ضرورت ہوتی ہے جو مجھے اگلے دن تک کےلئے توانائی دے۔

رسمیں، روایتیں اور رشتے۔۔۔۔
،، بیگم میری دیورانی کون ہے،،
،،کیا ؟؟،، آپکی دیورانی نہیں ہوتی،،
،، اچھا میری نند کا کیا نام ہے ؟،،
ارے بھئی مردوں کی نندیں نہیں ہوتیں،،
یہ وہ مکالمے ہیں جو مجھے سننے ملتے ہیں جب کبھی میں کسی رشتے کے بارے میں استفسار کرتا ہوں۔ مجھے رشتوں کے نام نہیں آتے۔ سمدھی، ہم زلف، خوشدامن، خلیری ساس، چچیرے نانا اور بھانج داماد میری عقل سے ماوراٗ چیزیں ہیں۔
اور جب فاطمہ ثریا اور ہم سب کی بجیا، کے ڈرامے، شمع، افشاں، عروسہ وغیرہ دیکھتا ہوں تو مستقل یہی کچھ پوچھتا رہتا ہوں جن کا ایک گورکھ دھندہ پھیلا ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی رشتوں کی پاکیزگی اور احترام کے معنی بھی سمجھ آتے ہیں۔۔ بجیا کے ڈراموں سے ہی مہندی، مایوں، ابٹن، ڈھولک، رخصتی وغیرہ کی سمجھ بھی آئی ورنہ بیٹیوں کی رخصتی کے وقت ہونقوں کی طرح گھر کی خواتین کا منہ دیکھتا رہ جاتا۔
بجیا کے ڈراموں میں گئے وقتوں کی تہذیب کی خوبصورتیاں، زبان و بیان کی چاشنی، رکھ رکھاوٗ اور رویئے ہمیں ایک اور ہی جہاں کی سیر کراتے ہیں۔ پچھلے دنوں انکے ڈرامے ،،افشاں،، کے کچھ حصے یو ٹیوب پر دیکھے جس میں ،،اکا بوا،(بیگم خورشید مرزا،، اور عرش منیر، چوکی پر بیٹھی ،چوسر، کھیل رہی ہیں ، لکھنوی انداز کے غرارے، بیچ میں دھرا پاندان، پھر اودھ کے دریاٗوں میں دھلی زبان میں بیگم مرزا اور عرش منیر کی باتیں، ایک غائب ہوتئ، ختم ہوتی تہذیب کی جھلکیاں  چشم و گوش کو ایک عجیب سرور بخش رہے تھے۔ اس طرح کی زبان ، لہجے اور تلفظ ، جن کا اب تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

بجیا کے ڈراموں  میں رشتوں کی اہمیت، بزرگوں کا احترام، بچوں سے شفقت، روایات اور اقدار کی پاسداری، مضبوط ، مشترکہ خاندانی نظام، ہلکے پھلکے رومانس، چھوٹی چھوٹی شرارتیں اور چھیڑخانیاں، سب کچھ ہمارے اپنے گھروں کی داستان محسوس ہوتے ہیں
۔ بجیا کے ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے، شمع ۔، افشاں، عروسہ، انا، زینت، انارکلی، آگہی اور سسی پنوں جیسے ڈرامے تفریح کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ موضوعات کو بھی بڑے لطیف انداز میں  ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ زینت میں سندھ میں عورتوں کی تعلیم، سسی پنوں میں کاروکاری کی قبیح رسم جیسے مسائل ، دیکھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

بجیا اب عمر کے آخری حصے میں ہیں۔ اللہ انہیں صحت اور تندرستی کے ساتھ تادیر ہمارے درمیان آباد رکھے۔ حسینہ بھی اب اس طرح توانا نہیں رہیں۔ میرے شہر کی یہ دونوں خواتین ایک عہد، ایک تہذیب، اور گئے دنوں کی خوشگوار یادوں کی نشانیاں ہیں
۔ ان کے بعد اب کیا ہوگا۔۔ شاید ہم بھی ان نشانیوں اور ان یادوں کے ساتھ ہی رخصت ہوجائیں۔
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply