کشمیر،آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹیں

مسئلہ کشمیراب تک کیوں حل نہیں ہو پایا ۔۔۔اس کی وجہ اور آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹ ہندوستان نہیں بلکہ میرے خیال میں خود پاکستان ہے۔ہم خود ہندوستان کے ہاتھ مضبوط کرتے آئےہیں ۔ کوئی دو دہائیاں قبل کارگل میں جاری کشمکش فوج اور مجاہدین کی مشترکہ جدوجہد تھی جو کہ تب تک کامیابی سے جاری رہی جب تک حکمرانوں کی دلچسپی رہی۔بڑے بڑے جابر جنگجو ماہرین نے تب یہ رائے دے دی تھی کہ اگر پاکستانی افواج اور مجاہدین یونہی شانہ بشانہ پیش قدمی کرتے ہوئے لداخ و کارگل کی راہداری پر قبضہ جماتے ہوئے سرینگر میں داخل ہوگئے تو ۔۔۔ہندوستان نئی صدی کے آغاز سے قبل کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ایک طرف ہندوستان کو کشمیر ہاتھ سے جانے کا صدمہ اور ڈر ستا رہا تھا تو دوسری طرف پاکستان کے جوہری طاقت حاصل کرنے سے بھارت سمیت سبھی طاغوتی ممالک پریشان تھے۔۔۔۔۔لیکن ہوا کیا؟۔۔۔ہماری سول قیادت نے فوج کو بیرکوں میں واپس بھیجنے کے بعد مجاہدین سے اظہارِ لاتعلقی کر دیا۔تاریخ نے پھر یہ بھی دیکھا اور لکھا کہ جس بلند چوٹی تک ایک قطرہ خون بہائے بغیر قبضہ کیا گیا تھا وہ ڈھیروں شہیدوں کے خون سے لال کرکے واپس دی گئی اور جب تاریخ نے اس بات کا بدلہ لیا تو عوام نے پھر مظلوم جان کر انہی کو اپنا چارہ گر مان لیا۔
مذاکرات بلکہ پہلے سےمعلوم ناکام مذاکرات کے نام پر ایک اچھی خاصی رقم قومی خزانے سے اڑائی جاتی ہے ،اس پر یہ سیاسی دانشور و تجزیہ نگارکبھی چوں بھی نہیں کرتے مگر فوج کے 15 سے 20 فیصدی بجٹ کو 85 فیصد بتاکر خوب واویلا کرتے ہیں۔میری تو تجویز اور خواہش یہ ہے کہ جو دولت ناکام مذاکرت کے انعقاد پر خرچ کرنی ہے وہ نکال کر فوج اور مجاہدین کے ہاتھ مضبوط کیئے جائیں اس سے شاید کشمیرا ﷲ کی مرضی سے آہستہ آہستہ آزادی کی جانب سفر مکمل کرلے۔تاریخ کاگہرا مطالعہ کرنے کے بعد میرا یہ ماننا ہے کہ اگر سخت فیصلے کیے جاتے تو کشمیر کبھی بھی مسئلہ نہ بن پاتا۔یہ خطہ اس مسئلے کا شکار ہوا ہی تب تھا جب اس کے قیام کے بعد دوغلی پہچان اور دوغلی وفاداری والے حکمران و سیاست دان اس ملک کی مسند اقتدار پر سیاسی شعبدے بازیاں دکھا کر براجمان ہوئے۔آج تک لاکھوں جانوں کا بے جا زیاں اور عالمی سطح پر بے حسی اورخود غرضی یہی سمجھا پائی ہے کہ صاحبو! کشمیر تو آزاد کب کا ہو جاتا لیکن اسکی آزادی خود ایک بڑے مسئلے سے دوچار ہے اور وہ مسئلہ خود پاکستان کی سول قیادت اور ناکام سفارتی و خارجی پالیسی ہے۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہی اگر یہ اقرار کرتے پھریں کہ کشمیر کے متعلق قائداعظم کا کوئی شہ رگ والا بیان موجود نہیں اور یہ کہ اگر کشمیر آزاد ہوا تو پاکستان کے مفادات کو نقصان ہوگا نہایت شرمناک بیان ہے۔ایسا سربراہ اور ایسی حکومت پھر کیسی توقعات رکھتے ہیں عوام سے؟مطلب نوجوانوں کی شہادت اور عزت مآب بہنوں کی لٹتی عصمتیں اور جلتے ہوئے آشیانوں سے ہمارے قومی مفادات جڑے ہیں تو افسوس ہے ایسی قوم اور حکومتی پالیسیوں پر۔اﷲ کشمیریوں کو آزادی کی نعمت سے نوازے اور ہم پاکستانیوں کو آزادی کی قدر و منزلت سمجھنے کی توفیق دے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply