سابر متی کے دیس میں ،ایک دن

(عمران عاکف خان)
ابتدا۔۔۔
“لوک سیواسنگھ”،احمد آباد ۔ہندوستان میں پائی جانے والی این جی اوز کی طرح ایک این جی او ہی ہے مگر اس کی خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ اس کے اہداف میں اردو زبان وادب،اسلوب وبیان،فکرو احساس اور اس عالمی زبان کے تئیں تڑپ وتفکر جیسے امور شامل ہیں اور اس کے روح رواں مولانا مفتی مظفر صاحب ہیں،جن کی محنت،لگن،جدو جہد اور خلوص کے باعث اس این جی او کے مقاصد اور اثرات عالمی ہوگئے ۔اپنے اسی مقصد اور فکر کو آگے بڑھانے کے لیے “لوک سیوا سنگھ”احمد آباد کے ذمہ داروں بالخصوص مفتی صاحب نے 7مئی 2017کو “اردو کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریاں”کے عنوان سے بہ اشتراک قومی اردو کونسل،ایک قومی سطح کا سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا،اس کے لیے مقامی اور ملک کے طول عرض میں مقیم ماہرین ودانشوران اردو کو دعوت دی گئی جو ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہوگئے۔چندا یک ایسے بھی تھے جو اپنی بروقت مصروفیات یا دیگر وجوہات کے باعث شریک نہ ہوسکے ۔تاہم اس سے پروگرام متاثر نہ ہوا اور بہ حسن و خوبصورتی اپنے اختتام کو پہنچا بلکہ ایک تاریخ رقم کی اس نے ۔باشندگان احمد آباد کے چہرو ں،نقوش اور اعصاب پر اس کا اثر نمایاں تھا۔
روانگی۔۔۔۔
‘اردو کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریاں”ایک عالمی مسئلہ ہے۔جس کے لیے ہم تمام اردو والوں کو فکر مند ہونا ہی چاہیے۔مجھے جب مفتی صاحب کا فون /حکم موصول ہوا تومیں نے اپنی مصروفیات کو دائیں بائیں رکھ کرہاں کردی اور پھر تاریخ مقررہ سے ایک دن پہلے:12918 ’گجرات سمپرک کرانتی۔ڈاؤن‘ سے حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر6سے بوقت2:30بجے روانہ ہوا۔ٹرین چلی اور بتدریج تیز ہوتے ہوتے طوفان بن گئی۔دن کی گرمی نے کمپارٹمنٹ کی سیٹوں کو انگارہ اور دیواروں کو شعلہ بنا رکھاتھا ۔ہاتھ لگاتے ہی ایسا لگتا تھا جیسے بجلی نے جھٹکا ماردیا ہو۔آخر کیا کیا جاتا ، کمپارٹمنٹ اور آس پاس کی سواریوں نے سیٹوں پر کپڑا یا بیڈ شیٹ بچھا کر اس چہارطرفہ گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے کمرہمت کسی۔فیملیز اور دوچار ساتھی تو واٹر کولر ساتھ لے کر آئے اور جو سنگل تھے وہ “ریل نیر”سے پیاس بجھا رہے تھے۔جہاں تک بھی میں نے دیکھا ہر ایک ہاتھ میں بوتل /گلاس ہے ۔شیر خوار بچے تو رورہے تھے اور چھوٹے منہ بسورے ہوئے تھے۔گرمی کا عالم یہ تھا کہ بدن کے کسی حصے پر انگلی رکھو ،تھوڑی دیر میں پسینہ چپچپانے لگتا تھا۔جیسے ہی کوئی اسٹیشن آتا،خوانچہ والے،چائے والے،پانی /کولڈرنک والے دوڑے دوڑے جاتے جن میں سے صرف پانی /کولڈرنک والے ہی کامیاب ہوتے ۔ان کی بالٹی میں صرف فروٹی اور کول ڈرنک کی بوتلیں رہ جاتیں اور پانی کی بوتلیں توسب بک جاتیں۔ٹرین اسی عالم میں پھر آگے بڑھ جاتی اور لوگ/سواریاں بھی۔خدا خدا کرکے گرمی اور قہر برساتے سورج پر شام کے سائے چھانے لگے اور ماحول کی گرمی،شدت،تپش ،حرارت ٹھنڈک میں تبدیل ہونے لگی۔حالانکہ جلتے جلتے ماحول کو سرد ہونے میں تقریباً پانچ گھنٹے لگے یعنی گیارہ بارہ بجے جاکے لگا کہ ہاں!ہم لوگ دن سے بہت دور آچکے ہیں ورنہ سات آٹھ بجے تک تو سورج کی قہرسامانیاں اسی طرح جاری تھیں۔
احمد آباد میں۔۔۔۔
ٹرین متھرا کوٹہ،بڑودہ ہوتے ہوئے دوسرے دن صبح ساڑھے سات بجے احمد آباد جنکشن کے پلیٹ فارم نمبر3پرپہنچی۔احمد آباد کا ریلوے اسٹیشن جدید سہولیات سے لیس اور نئے طرز پر بنا ہوا ہے۔نیز ابھی بھی جدید کاری کا عمل جاری تھا ۔مسافروں کی سہولت کے لیے جگہ جگہ فلائی کولر اورواٹر کولر لگے ہوئے ہیں۔بیٹھنے کے لیے وسیع ویٹنگ لاج کے علاوہ پلیٹ فارموں پر بھی پتھر کی کرسیاں بنی ہوئی ہیں اوپر نئے اور تیز رفتار پنکھے لگے ہیں ۔اسٹیشن سے باہر جانے والوں یا باہر سے اندر آنے والوں کے لیے اسکیلٹر/ایلویٹربنے ہوئے ہیں ۔جس سے مسافروں کو بہت آسانی ہوجاتی ہے ۔یہیں ایک خوشگوار واقعہ پیش آیا۔ایک گجراتی نوعمر خاتون ایک ہاتھ سے اپنے چند سا ل کے بچے اور ایک ہاتھ میں سامان پکڑ کر اتررہی تھیں ، اچانک ان کا پیر پھسلا اور وہ ڈِس بیلنس ہوکر نیچے تک پھسلتی چلی گئیں،اسی کے ساتھ ہی ان کے منہ سے گجراتی زبان میں دہائیاں بھی جاری تھیں ،کبھی وہ سامان پکڑتیں اور کبھی بچے کو اور کبھی خود کو سنبھالتی،کبھی ازخود نیچے آنے والوں کو ’تھامو۔۔۔تھامو۔۔۔کاکا۔۔تھامو۔۔‘کہہ کر روکنے کی کوشش کرتیں ۔یا اللہ عجیب منظر تھا وہ کچھ لوگ تو مدد کرنے کے بجائے ہنس رہے تھے اور کچھ مجھ جیسے فکر مند تھے۔آخر کیسے کیسے جانے وہ خاتون سنبھلیں اور ایلویٹر خالی ہوا۔وہ خاتون سینہ تھامے ہوئے ایک طرف کھڑی ہوگئیں۔ان کی آنکھوں میں عجیب سا ڈر لہریے لے رہا تھا۔پورا بدن کانپ رہا تھا اور ہاتھوں میں بوڑھاپے کا سا رعشہ پڑا ہوا تھا۔ایک دفعہ پھر لوگوں کا ریلا آیا اور نیچے آتے آتے ادھر ادھر بکھر گیا۔اب ایلویٹر پر لوگ معمول کے مطابق آ،جا،رہے تھے۔
اسٹیشن سے باہر وہی روایتی آٹو رکشے والے احمد آباد کی ہوٹلوں،مقامات اور رہائشی علاقوں کے نام لے لے کر مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے۔ایک ’شریف قسم‘ کا آٹو ڈرائیور میرے پاس بھی آیا ۔ رسمی بات چیت کے بعد ہم لوگ ریلیف روڈ کے ذریعے ’لال دروازہ‘،نزد’ جالی والی مسجد‘ واقع’ گڈ نائٹ ہوٹل‘ کے سامنے پہنچ گئے جہاں میرا قیام تھا۔آٹو والے کو رخصت کرکے میں ہوٹل کے ریسپشن پہنچا اور وہاں مفتی صاحب کا حوالہ دے کر ریسپشنسٹ سے روم نمبر 123کی چابی لی۔ گڈنائٹ ہوٹل ’پانچ ستارہ‘ہوٹل ہے۔روم ائرکنڈیشنڈ اور وائی فائی کی سہولیات سے لیس نیز آرام دہ دو بستروں پر مشتمل ہیں۔ابھی میں سامان رکھنے کے بعد فریش ہوا ہی تھا کہ میرے دوسرے روم پارٹنر ہری سنگھ گوڑ یونیورسٹی ،ساگر کے استاد،پروفیسر وسیم انور صاحب تشریف لے آئے۔کیا کمال کے شخص ہیں وسیم انور صاحب۔ہنس مکھ،مزاج شناس،میری طرح محفل کو زعفران زار بنانے والے۔سب سے بڑی بات یہ کہ ارجسٹمنٹ کر لینے کے ہنر سے خوب واقف اور ماشاء اللہ بہت حدتک میرے ہم نوا بھی ثابت ہوئے۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں اس طرح کے۔ورنہ تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ:
وہ ہم سفرتھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
میں طالب علم اور وسیم صاحب پروفیسر ،مگر مجال ہے جو انھوں نے کبھی اس قسم کا تاثر دیا ہو۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو وسیم صاحب کی صحبتیں اور مجلسیں نصیب ہیں۔ساڑھے آٹھ بجے کے قریب مفتی صاحب کے ساتھ میں نے اور وسیم صاحب نے ہوٹل کے قریب واقع’لکی ڈھابے‘پر ناشتہ کیا۔ناشتے میں بڑے والا مسالہ ڈوسا پروسا گیا ۔ناشتہ پر تکلف تھا اور حسب حال بھی۔ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد مفتی صاحب ہم لوگوں کو ہوٹل چھوڑکر قریب ہی واقع ’سردار ولبھ بھائی پٹیل پروگرام ہال‘چلے گئے ۔ہم لوگوں نے روم آکر چینج کیا اور فورمل ڈریس پہنے۔علمی ،ادبی،فکری،فنی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ابھی ہم لوگ باتیں ہی کررہے تھے کہ مفتی صاحب کا فون آیا کہ ہم لوگ پروگرام ہال آجائیں۔پروگرام ہال، ہوٹل سے واکنگ ڈسٹینس پر تھا مگر ہم لوگوں کو کیا پتا تھا،مفتی صاحب نے آٹو کے ذریعے آنے کے لیے کہا،ہم نے ہوٹل کے سامنے سے آٹو کیا اورآٹو والے کولوکیشن بتا کر چل پڑے،آٹو والا تو بڑا سیانا نکلا،’ہاں یہ جگہ تو مجھے پتا ہے‘کہہ کر وہ ہمیں لے چلا۔درمیان راہ ہم لوگ سابرمتی ندی کے پل سے گزرے جسے دونوں جانب سے پکی دیواروں سے گھیر کر بڑی سی نہر بنا دیا گیا ہے،شہر کے باہر ہوسکتا ہے اس کا دائرہ وسیع ہو مگر اندرون شہر تووہ سمیٹ دی گئی تھی۔اس کے دونوں جانب ڈبل فورلین’ اَپ،ڈاؤن‘سڑکیں بنی تھیں سڑکوں سے متصل تفریحی مقامات تھے اور جگہ جگہ مصنوعی گھاس،پھول پتیاںسجائی گئی تھیں ۔ پانی بہت ہی صاف اور شفاف تھا ،جیسے آئینے جھلملا رہے ہوں ۔ندی کے دونوں جانب فلک بوسی کی حدتک تو نہیں ،قدرے بلند اور متناسب ڈھانچے سے بنی ملٹی فلور عمارتیں نہایت خوش نما اور دیدہ زیبی سے جلوے بکھیر رہی تھیں۔ان کی ٹیرسوں پرٹیلی کام کی مختلف کمپنیوں کے ٹاور ایسے لگے رہے تھے جیسے آسمان والے سے کچھ مانگ رہے ہوں۔خدا جانے کیا مانگ رہے تھے؟!
پل ختم ہوا تو آٹو سبک چوراہوں اور راستوں سے گزرنے لگا۔اچانک ایک جگہ’سردار ولبھ بھائی میرج ہال‘نظر آیا۔ہم لوگوں نے سمجھا یہی ہے پروگرام ہال ہے،مگر وہاں توگجراتیوں کی شادی ہورہی تھی اور ہمارا آٹو والا صاحب بصیرت ہمیں نورنگ پورہ لے آیا یعنی جائے پروگرام سے چار پانچ کلومیٹر آگے ،وہاں سے پھر مفتی صاحب سے رابطہ کیا گیا اور انھوں نے صحیح لوکیشن بتائی۔اس دوران وسیم صاحب کی حاضر جوابیاں،مؤدب شوخیاں اورپر مزاح لطیفے،خوب تھے۔صحیح لوکیشن معلوم کرنے کے بعد ہم لوگ پھراسی راستے سے واپس ہوئے ،لال دروازہ ،بس اسٹینڈ مارکیٹ وہ اصل جگہ تھی جہاں ’سردار ولبھ بھائی پٹیل،اسمارک بھون‘کے آڈیٹوریم میں پروگرام رکھا گیا تھا۔مگر اس سے پہلے میری نظر ’یونائٹیڈ بنک آف انڈیا کی دس منزلہ عمارت پر پڑی،میں حیران رہ گیا۔دہلی میں جو بنک چھوٹی چھوٹی دکانوں میں چلتا ہے،احمد آباد میں وہ اس کی عظمت آسمانوں سے بات کرتی ہے۔اسی کے قریب اسٹیٹ بنک،بنک آف بروڈا،سینٹرل بنک آف انڈیا وغیرہ کی اسی طرح کی بالا بالا عمارتیں تھیں جن کی بلندی،رعنائی،شوخی،کلر اسکیم وغیرہ دیکھ کر اکبر ؔ الہ آبادی کا شعر دماغ میں گونج گیا:
رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
چرچوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات!
ان کا یہ تاثر مشاہدہ لندن کے بعد تھا،انگریزوں کی مذہب سے بے زاری اوردولت پسندی وہوس گیری انہیں بہت بری لگی ،لیکن اگر وہ آج ہوتے تو انہیں ہندوستان میں ہی ایسے نظارے مل جاتے پھر نہ جا نے وہ کیا کہہ کر چوٹ مارتے۔جس وقت ہم لوگ پروگرام ہال پہنچے ،وہاں بس بینر،اسٹیج،ڈائس اور چند ایک منتظمین ہی موجود تھے اس کے بعد تو شائقین آتے گئے اور ہال بھرتا چلا گیا۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر مسیح الزماں انصاری نے سنبھالی ۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے معززین ،مقالہ نگاروں اور مندوبین کو پھولوں اور فائلوں سے سرفراز کیا گیا،اس کے بعد پروگرم شروع ہوا جو تقریباً پانچ گھنٹے جاری رہا،سامعین کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ نہایت دل جمعی سے سنتے رہے۔نہ سوئے اور نہ اکتائے،نہ ہی کسی بڑی شخصیت کی آمد سے ان میں ہراس پھیلا ،حالانکہ ایک مقامی کونسلر ’ایم پی ‘کے اسٹائل میں آئے۔ بس گنرز کی کمی تھی ورنہ وہی دوچار بندے آگے پیچھے اور وہی طمطراق ۔خاکم بد ہن،مجھے تو اس میں منتظمین کی ایک چالاکی بھی لگی کہ انہوں نے کھانے کے متعلق بات چھپا کر رکھی ورنہ سامعین کی دلچسپی ایسی نہ ہوتی،دہلی تو میں نے ایسا ہی دیکھا ہے کہ،پروگرم/تقریب/سیمینار وغیرہ سے زیادہ اہم کھانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں اس ذکر کو۔۔۔۔ڈائس سے مختلف ماہرین اور مجھ سمیت مقالہ نگاروں نے اپنے زرین ،کارآمد،حوصلہ افزا،اردو کے تئیں نہایت پرخلوص اور فکرمندی والے خیالات کا اظہار کیا۔گجرات بشمول احمد آبادمیں اردو کی صورت حال،اس کی بقا اور فروغ کے اقدام،اندیشوں،امیدوں،مناظر وغیرہ پر مشتمل خطاب کیا ۔سامعین میں ہماری آدھی آبادی بھی امید سے کہیں زیادہ موجود تھی جن میں ٹیچرس،اردو خواں،گھریلو اور مختلف میدانوں سے وابستہ خواتین موجود تھیں۔
پروگرام کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔سامعین وحاضرین نے کھانا کھایا اور کھانا کھاکر سلام کرتے ہوئے چلتے بنے۔ہم لوگوں کو نشاط ہوٹل میں کھانا کھلایا گیا ۔نشاط ہوٹل صاف ستھرا اور مناسب ہوٹل ہے۔ہم سات افراد تھے ،ویٹروں نے پہلے تو سفید چکنی پلیٹیں دیں،اس کے بعد ایک ایک رومال سب کو دیا،اس سے پلیٹیں رسماً صاف کیں اور پھر اسی رومال کو رانوں پر رکھ لیا گیا تاکہ اگر کھانا گرے توکپڑے نہ خراب ہوں۔کتنا معقول اور انوکھا انتظام تھا یہ،جو میں نے پہلی بار کہیں دیکھا۔چوں کہ ہوٹل کا آف ٹائم چل رہا تھا اس لیے جو ماحضر ہوا سامنے چن دیا گیا۔ماشاء اللہ وہ بھی پرتکلف تھا اور بہت ہی لذیذ۔کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ واپس ہوٹل آگئے،فورمل ڈریس سے آزادی حاصل کی اور روم اے سی چالو کرکے دم میں دم لیا۔مفتی صاحب کچھ وقت ہم لوگوں کے ساتھ رہ کرضروری کام انجام دینے کے لیے چلے گئے۔اب رہ گئے میں اور ڈاکٹر وسیم صاحب۔ہماری باتیں،خیالات،ہم نوائیاں،تعلیمی و علمی گفتگو وموضوعات ،ہندوستان بالخصوص مدھیہ پردیش میں ابتدائی تعلیمی اسکولوں اور وہاں کے بچوں کے متعلق باتیں،اردو کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا کررہےہیں۔؟؟جیسے حساس عناوین ہماری بحث کا موضوع تھے۔آج ہی ساڑھے نوبجے ان کی واپسی کی ٹرین تھی،چنانچہ باربار گھڑی کی طرف بھی نظر جاتی اور پھر آگے کی باتیں۔۔۔کتنا اچھا لگ رہا تھا مجھے،الفاظ میں بتانا ناممکن ہے۔پھر وہ وقت آیا کہ وسیم صاحب نے ہوٹل لیو کردیا۔میں انہیں الوداع کہنے باہر تک آیا۔الوادعی اور رخصتی ہاتھ ہلاکر پھر واپس روم،حالانکہ میں یہ سب باتیں لکھ رہا ہوں مگر میری حالت میں ہی جانتا ہوں کہ میرے اوپر کیا گزررہی ہے۔میں کتنا پیاسا ہوں خلوص کا،محبت کا،پیار،اپنائیت،کسی کے ساتھ چلنے کا،مگر افسوس یہ سب چیزیں تھوڑی تھوڑی یا تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے ملتی ہیں ،بہت تیزی سے آتی ہیں اور بہت جلد رخصت ہوجاتی ہیں،رہ جاتا ہو ں میں ،کسی اجڑے باغ کی مانند یا اس حویلی کی طرح جس کے مکین،دنگوں،فسادوں اور بلوائیوں کے وحشیانہ قتل کے شکار ہوکر اسے خراب کرگئے ہوں۔
واپسی۔۔۔۔۔
میری ٹرین دوسری صبح ساڑھے دس بجے تھی۔ٹکٹ کنفرم نہیں تھا ،بس ایک امید سی تھی مگر وہ امید ناامید ثابت ہوئی۔چارٹ تیار ہوچکا تھااور ویٹنگ لسٹ13پر آکر رُک گئی تھی۔میں نے مفتی صاحب سے عرض کیا ۔انہیں بھی بہت تشویش تھی ۔پھر بذریعہ بس دہلی روانگی کا فیصلہ کیا گیا۔وہیں فوراً آن لائن بس کا ٹکٹ بک کیا گیا ۔شاہی باغ،نمسکار سرکل پر ’پٹیل ایگل ٹراویلس ‘کی ایجنسی واقع تھی،یہیں سے مجھے بس میں سوار ہونا تھا،جس کا ٹائم ساڑھے دس بجے تھاوقت مقررہ سے پہلے ہی بس آگئی ۔مسافروں نے اپنی اپنی برتھ سنبھالی ۔بس چل پڑی۔بس کا روٹ’ ممبئی،دہلی نیشنل ہائی وے،8‘ تھا۔یہ روٹ راجستھان کے اہم شہروں اور مقامات سے ہوکر دہلی پہنچتاہے جن میں ادے پور،بھیلواڑہ،بیاور،پشکر،اجمیر،کشن گڑھ،جے پوروغیرہ شامل ہیں۔احمد آبادشہر سے باہر آتے ہی گرمی نے اپنا قہر دکھانا شروع کردیا مگر وہ تو بس کی مضبوط چھت اور لگژیئس کی خوبی تھی کہ بہت دیر تک دفاع کرتی رہی۔دن چڑھے تک تو اس نے بھی ہار مان لی۔دوسری طرف نائن ٹیز کے نغموں نے سماں باندھ دیاتھا۔میں نے پہلی باردیکھا کہ لانگ روٹ اور ٹرویلس کی بسیں بھی ایک ایک سواری کے لیے رکتی ہیں اور ٹائم بے کار کرتی ہیں۔بے مقصد کہیں بھی کھڑی ہوجاتی ہیں اور مسافر بے چارے بس دانت پیس کر یا اپنی جگہ کسمسا کر رہ جاتے ہیں۔وہ بس رکتی ،چلتی ،اٹھلاتی چلی۔اس وقت سورج نصف النہار سے بھی ذرا اوپر اٹھ چکا تھا جب بس ’شری ماروتی نندن رسورٹ‘پر مسافروں کے بہانے مفت خورڈرائیور و کنڈیکٹر کے کھانا کھانے کے لیے پارک ہوئی۔گرمی کا عالم ،ہائے توبہ۔میں نے وہاں آئس کریم،مینگو ڈولی کھاکر اور ٹھنڈا پانی پی کر اس آگ برستے ماحول کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔کچھ لوگ توچائے پی رہے تھے۔یا اللہ کیسا جگر ا تھا ان کا اور کیسا حوصلہ،میرا تو سوچ سوچ کر پِتّہ پانی ہورہا تھا۔ پونے گھنٹے رکنے کے بعد بس پھر روانہ ہوئی۔اب راجستھان کا علاقہ شروع ہو چکا تھا۔راجستھان میں انٹر ی ہوتے ہی ’لتا منگیشکر ِ راجستھان ’سیمامشرا‘کے گیت چل پڑے:
سات برس کولے ڈھونڈوکیوں بالم چھوٹو سو۔۔۔۔۔
راجستھانی تو جھوم ہی اٹھے تھے، کچھ شوقین تو بس کے کیبن بجانے لگے اور کچھ ہتھیلیاں پیٹ رہے تھے اور کچھ ساتھ ساتھ کورس میں گارہے تھے۔سیما مشرا کے گیتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ گھریلو ہوتے ہیں۔وہ چندری(چنری)لوگڑی(دوپٹے)سے نیچے کبھی نہیں اترتیں ۔ یعنی فحش کاری بالکل بھی ان کے یہاں نہیں ، اسی لیے تو مغربی راجستھان کے گھر گھر میں ’سیما‘کے گیت بجتے ہیں اور دودراز سے پانی بھر کے لانے والی عورتیں راستے بھر سیما کے گیت گاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک گیت جاری رہا ۔راستے میں دورویہ بے آب وگیاہ پہاڑ، خشک ٹیلے، جلتے جنگل،سوکھی پیاسی ندیوں،مکانوں، ہوٹلوں، ریسورٹسں، ڈھابوں اور پیٹرول پمپوں کا ایک طویل سلسلہ بھی ہمارے ساتھ چلنے لگا۔شاہراہ کے کنارے کھڑے ٹیڑھے میڑھے پیڑ پودے ایسے لگ رہے تھے جیسے مسافروں کو ہاتھ اٹھا اٹھاکر الوداع کہہ رہے ہوں۔کیسے درخت تھے وہ ،نہ ان میں گھونسلے تھے اور نہ ڈالیاں ہی متناسب تھیں ،بس لمبے لمبے درخت کھڑے تھے۔ایک جگہ تو نخلستان کا منظر دیکھنے کو ملا۔وہ ایک پہاڑی نالا تھا جو ابھی حال ہی میں سوکھا تھا،چوں کہ کہیں کہیں پانی کی نمی اور کیچڑابھی تک موجود تھی۔کیا نظارہ تھا وہ،ہرے بھرے کھجور کے درخت جن میں پیلے رنگ کی پکی پکی کھجوریں دعوت طعام و دید دے رہی تھیں۔مگر بس کہاں رکنے والی تھی ،تیزی سے گزرتی چلی گئی۔ہائی وے پر آگے چل کر ایک دلخراش منظر نظر آیا۔ وہ 1612ایل پی ٹرک تھا جو مسخ شدہ حالت میںپڑا تھا۔اس کی کچلی ہوئی حالت بتا رہی تھی کہ بھیانک حادثے کا شکار ہوا ہے۔اللہ جانے اس کے بد نصیب ڈرائیور کا کیا حال ہوا ہوگا۔اللہ پاک اس کے ساتھ خیر کا معاملہ کرے۔بے چارا اپنے بیوی بچوں یا گھر والوں کی عزت بچانے ،آن بان شان باقی رکھنے اور ان کی پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر پرائے دیس میں موت کا شکار ہوگیا۔میری آنکھوں نے تو آنسوؤ ں کی سوغات بھی اس کی نامعلوم تربت پر چڑھادی۔مجھے وہ شخص کسی سے کم عزیز نہیں تھا۔
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
بس یہاں سے بھی تیزی سے گزرگئی۔ دور سے ہی سائن بورڈز کے ذریعے ادے پور کے گاؤں اور تحصیلوں کی آمد کی اطلاعات ملنے لگیں ، پھر مختلف سڑکوں،پہاڑوں اور چوراہوں سے گزرکر ساڑھے چار بجے کے قریب شہر ادے پوربائی پاس پہنچ گئی۔یہ بس یہیں تک تھی۔یہاں سے آگے مجھے دوسری بس میں دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ایک گھنٹے بعد یعنی ساڑھے پانچ بجے’ اشوکا ٹراویلس‘ کی بس آئی ۔آدھے گھنٹے رکی اور پھر چل پڑی۔گرمی ابھی پڑرہی تھی ۔ اودے پور شہر پہاڑوں کے بیچ بسا ایک خوب صورت شہر ہے۔یہاں کے بائی پاس پر واقع رہائشی فلیٹس،کاٹیج،گھر ،ولاز بہت خوب ہیں ۔نہایت سلیقے سے بنے اور گنیا سے نپے ایک دم سیدھے سیدھے۔یہاں اکثر ادارے ’ادے ‘سے شروع ہوتے ہیں جیسے ’ادے ایجوکشن گروپ‘،’ادے اسپورٹس کلب‘،’ادے ہائی اسکول‘،’ادے گیس سپلائی اسٹیشن‘ایک طویل فہرست ہے۔پتا نہیں یہ ادے پور شہر کی تشہیر ہے یا مہاراجہ ادے سنگھ کی یا دونوں کی۔یہ سوال ناطقہ کے لیے وقف ہے۔وہ اب چاہے سر بگریباں رہیں یا کچھ اورکریں، یہ ان کا سردرد ہے۔
بس آؤٹر رنگ روڈ سے روانہ ہوئی۔پھر وہی نیشنل ہائی وے،8تھا ۔بس تھی اور میں۔۔ ۔باہر سے شہر چھوٹا سا لگا۔خالی حصوں میں ’یو ڈی اے‘نے کچھ فلک بوس فلیٹس بنائے تھے۔دور سے راجستھان کی واحد سینٹر ل یونیورسٹی’ موہن لال سکھاڈیا یونیورسٹی ‘کی عمارتیں نظر آرہی تھیں۔بس رواں دواں تھی اور اس کی رفتار سے زیادہ میری نظریں اِدھر ُادھرکے نظاروں کی عکس بندی میں مصروف تھیں۔پھر مجھے نیند آنے لگی اور سونے میں ہی عافیت سمجھی اس لیے کہ اب بائیں آنکھ میں درد شروع ہوگیاتھا۔آخر کار سوہی گیا۔نہ جانے میں کتنی دیر سویا،وہ ایک زور کا جھٹکا تھا جس نے مجھے جگا دیا۔مسافر تیزی سے شورمچاتے بس سے اتررہے تھے۔اس وقت ساڑھے چھے یا پونے سات کا عمل ہوگا۔جہاں بس رکی تھی وہ’ناتھ دوارا‘ قصبہ تھا۔چھوٹا سا قصبہ تھا مگرسلیقے سے بساتھا۔ کیا شان تھی اس کی اور کیا آن بان۔باب الداخلہ جنتر منتر شیپ میں بنا تھا جس سے بیرون قصبہ سے گاڑیاں،ٹیکسیاں،رکشے اندر جارہے تھے۔ہماری بس پانچ چھے منٹ یہاں رکی پھر چل پڑی۔اب کی بار چلتے چلتے اس کی آدھے گھنٹے کی منزل ’بھیلواڑہ‘ٹھیری ۔اب شام گھر چکی تھی اور بھوک چمک اٹھی تھی۔یہاں ریڑھی پرایک انکل تربوز کے ٹھنڈے قتلے بیچ رہے تھے۔20 روپے پلیٹ۔کیا خوب تھے وہ ، تازہ،میٹھے اورٹھنڈے۔گرمی سے بچنے اور جسم کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے اس سے بہتر اور کیا پھل ہوسکتا تھا۔اس کے بعد اورنج شکنجبی پی کر پیاس بجھائی۔یہاں بس میں کچھ سامان لدا جانے لگا ۔مسافر اِدھر اُدھر ٹہلنے گھومنے لگے۔جب سامان لد چکا تو ڈرائیور نے اطلاعی ہارن بجایا اور مسافر ایک ایک کر کے بس میں سوار ہوگئے۔
بھیلواڑہ شہر چھوٹا،نیشنل ہائی وے نمبر،8پھرشروع ۔بس راجستھان کے طول عرض میں سپاٹے بھرتی رہی۔رات گہری اور گہری ہوتی گئی ۔اسی کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی بوجھل بوجھل۔اب سوتے ہی بنا۔پتا نہیں وہ کونسا سماں تھا جب کنڈیکٹر ’جے پور ۔۔۔جے پور‘چلا رہا تھا۔’یا اللہ !ابھی بس جے پور ہی آیاہے؟‘میرے منہ سے نکلا۔مگر ایک خوشی یہ بھی تھی کہ اب دہلی دور سہی مگر دور نہیں ۔میں پھر سوگیا ۔اب کی بار آنکھ تب کھلی جب پو پھٹ رہی تھی اور دہلی تقریباً ایک سوکلومیٹر دور تھی۔صبح کی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے پوری بس میں گھوم گھوم کر مسافروں کو فرحت بخش رہے تھے۔ایک جگہ ناشتے کے لیے بس رکی ۔مسافروں نے ہاتھ منہ دھوئے،ناشتہ کیا ۔بس پھر چل پڑی ۔کئی راستوں،ٹول پلازوں اور رفتہ رفتہ بڑھتے ٹریفک سے گزرکر آخر کار دہلی میں انٹر ہو ہی گئی۔دہلی کے متعلق کیا لکھنا اور بولنا۔یہ توشہرۂ آفاق شہر ہے جہاں آکر بڑے بڑے لوگ کھوجاتے ہیں،میری کیا بساط ہے اور کیا اوقات۔میں دہلی پہنچ کر بھیڑ میں کھوگیا۔جہاں کا عالم یہ ہے :
ہر طرف بھاگتے دوڑتے راستے
ہر طرف آدمی کا شکار آدمی
یہاں آدمی ہی آدمی نظر آتے ہیں مگر کسی کو کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔بھری پوری سڑک پر کوئی گر جائے،اٹھانے ،سنبھالنے اور سہارا دینے والا کوئی نہیں مگر پھربھی نہ جانے ایساکیا ہے اس دہلی میں کہ لوگ اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔یہی رازجاننے کے لیے نہ جانے یہاں کتنے لوگ آئے اور اسی کے پیٹ میں سما گئے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply