ایڈیٹر کی ڈاک (جدید)۔۔۔۔کے ایم خالد

ڈرون سروس بند کی جائے
مکرمی!
میں آپ کے موقراخبار کے حوالے سے سے ارباب اقتدار کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مرکوز کروانا چاہتا ہوں۔جیسا کہ کمپنیوں نے مخلف کاموں کے لے لئے ڈرون سروس شروع کر رکھی ہے۔اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ پہلے پہل تو یہ سروس ٹھیک تھی مگر اب یہ سروس ڈھیلی ہوتی جا رہی ۔پیزا،کیک اور سوفٹ ڈرنک تک تو یہ سروس ٹھیک تھی۔مگر جب سے ماڑے ہوٹل والوں نے ڈرون سروس شروع کی ہے۔بہت سی غلطیاں ان ربورٹ سے سرزڈ ہو رہی ہیں۔پالک گوشت کی جگہ دال اور انڈا کاری کی جگہ بھنڈیاں ہی نکلتی ہیں۔میرے ایک دن مکس سبزی کی آرڈر کے تعمیل میں ہر قسم کا آئٹم سالن میں موجود تھاجوکہ ہوٹل میں دستیاب ہو گا۔میرے خیال میں سالن کے مکس ہونے کی شکایات کی بنا پر ہوٹل والوں نے سب کے لئے ایک جیسا فیقری کھانے کا اہتمام کر دیا ہے۔اس لے علاوہ ڈرونز کے ایک دوسرے کے لوٹنے کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ایک ڈرون کو دن دیہاڑے اس وقت لوٹ لیا گیا جب وہ ایک میلے کے لئے لنگر لے کر جارہا تھا،اس واقعہ میں تین دیگ حلیم اور پانچ سو نان لوٹ لئے گئے۔پولیس نے مقدمہ تو درج کر لیا لیکن ابھی تک ایک بھی لنگر ڈاکو نہیں پکڑا جاسکا۔ ۔ان ڈرونز پر جو ربورٹ ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ان کی عادات بھی انسانوں کی طرح ہوتی جا رہی ہیں۔سودا پکڑانے کے بعد ایک ماہر انسان کی طرح ٹپ کے لئے ہاتھ آگے کر دیتے ہیں۔جو کہ ظاہر ہے ان کے موٹے توند والے سیٹھ حضرات نے ان کی پروگرامنگ میں ہاتھ اٹھانا اور ٹپ کے لئے دست سوال بلند کرنا فیڈ کیا ہو گا۔اس کے علاوہ اگر کوئی خاتون سودا پکڑنے آئے تو ہلکا سا ہاتھ اور آنکھ کو دبانا بھی انہوں نے نہ جانے کیسے سیکھ لیا ہے۔اس سلسے میں گزارش ہے کہ اس سے قبل کہ یہ ڈرون نما ربورٹ انسان بن جائیں ۔اور غیر ربورٹی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں ۔اس ڈرون سروس کو یکدم بند کیا جائے۔
چودھری ڈبا سنگھ چیف ایڈیٹر سہہ ماہی روزنامہ ’’اپنی بات ‘‘۔ککڑ پنڈ

گوند کو گاڑھا کیا جائے
مکرمی
میں آپ کے روزنامے کے ذریعے پوسٹ آفس کے اعلی حکام کے علم میں ایک انتہائی اہم مسئلہ لاناچاہتا ہوں۔پوسٹ حکام کی طرف سے باربار یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ پرائیویٹ اداروں کی بجائے پاکستان پوسٹ پر اعتماد کیا جائے اور اپنی ڈاک پاکستان پوسٹ کے ذریعے ہی روانہ کی جائے۔میں نے پاکستان کی طرف سے مہیا کردہ گوند سے خط جوڑنے کی کوشش کی ۔جس کے جواب میں خط نے جڑنے سے انکار کردیا ۔ڈاک بابو نے کہا’’آپ گوند ذرا ذیادہ لگادیں یہ راستے میں ہوا لگے گی تو جڑ جائے گا‘‘۔اس خط کے جواب میں جو خط مجھے دوسری طرف سے موصول ہوا ہے وہ بھی کھلی ہوئی حالت میں ہے۔جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ خظ کبھی رستے میں ہوا سے نہیں جڑتا۔یہ ڈاک بابو کی طفل تسلی ہی تھی۔پاکستان پوسٹ کے حکام اس سنجیدہ مسئلے کو اپنی ٹاپ پرائرٹی پر رکھیں اور گوند کو گاڑھا کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔
عبدالرشید۔ریٹائرڈ سرکاری ملازم لاہور

ترکش ڈراموں کی تعداد بڑھائی جائے

مکرمی! میں آپ کے اخبار کے طفیل ایک انتہائی اہم مسئلہ پیمرا حکام کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔آج کل نجی چینلز پر جو ترکش ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ان ڈراموں کی تعداد کو فوری بڑھایا جائے۔ناظرین کو گھر بیٹھے ملت اسلامیہ کے اہم ملک کی تاریخی عمارات اور عظیم سلطنت عثمانیہ کے گم گشتہ نقوش جابجا نظر آتے ہیں۔ ہم تو ریشم کی آنکھوں میں ہی ڈوبے ہوئے تھے ۔پہلی مرتبہ رنگین لنز کے بغیر رنگ برنگی آنکھیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جس سے دل کو ایک تسکین محسوس ہوتی ہے۔ان ترکش ڈراموں کی بدولت ہمیں نہ صرف اپنی ازلی دشمن بھارت کی ثقافتی یلغار بلکہ نگریزی ثقافت سے بھی رہائی مل سکتی ہے۔ پاکستانی ڈراموں کی مد میں جو کروڑوں روپے فضول ضائع کئے جا رہے ہیں پیسہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔ترکش ڈرامے بیک وقت بھارتی ڈرامہ اور انگریزی فلموں کی کمی کو پورا کرتے ہیں ۔میری ناقص رائے میں ان ڈراموں کو پاکستانی ٹچ دینے کے لئے ان میں بارش کے گانے ڈبنگ کے دوران شامل کئے جائیں کیونکہ ہماری بارشی ہیروئن فلمیں بند ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی پابند سلاسل ہیں کچھ ان کا بھی روزی رزق چل جائے گا۔ایسا کرنے سے جو چند ایک انگلیاں تنقید کے لئے اٹھ رہی ہیں وہ بھی خاموش ہو جائیں گی۔بلکہ ہو سکتا ہے اس بارشی ٹچ سے یہ ڈرامے ترکش ٹیلی ویژن کی دوبارہ ڈیمانڈ بن جائیں۔
جان بابو،سابقہ ممبر سنسر بورڈ

تیسری نسل کے پروگرام چینلز پر بڑھائے جائیں

مکرمی ! میں آپ کے موقر جریدے کو اپنی آواز بناتے ہوئے اپنے قوم کے ایک انتہائی اہم مسئلے کو چینلز کے علم میں لانا چاہتی ہوں۔ٹیلی ویژن سکرین پر اس وقت صرف ’’لیٹ لیٹ ود علی سلیم ‘‘ ہی ایک ایسا پروگرام ہے جو کہ ہماری نمائندگی کرنے میں مصروف عمل ہے ۔اس قبل باجی علی سلیم نے نہایت عمدہ پروگرام ’’بیگم نوازش علی ‘‘پیش کر کے پا کستانی قوم کے دل موہ لئے تھے۔باجی اتنے دل نشین انداز میں انگلش میں’’ جانیز‘‘ کہتی تھیں کہ میری ہم جولیاں تالیاں پیٹ پیٹ کر اس کی داد دیتی تھیں۔نہ جانے وہ کونسی وجوہات تھیں کہ اتنا اچھا پروگرام بند کر دیا گیا۔باجی کی انگلش دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہماری برادری میں صرف ،باجی ہی اعلی تعلیم یافتہ ہے۔اب چونکہ باجی ایک عام سا پروگرام ’’لیٹ لیٹ ود علی سلیم ‘‘اپنا ’’ٹھرک‘‘ پورا کرنے کے لئے پیش کرتی ہیں مگر اس پروگرام میں ’’لیٹ ‘‘ والی کوئی بات نہیں،ہم ساری ہم جولیاں اس کے ساتھ اپنے گھروں میں ناچتی بھی ہیں اور شور بھی مچاتی ہیں۔ہماری برادری کی تمام چینلز سے استدعا ہے کہ کم از کم ہر چینل ہماری برادری کے لئے ایک پروگرام ضرور مختص کرئے۔تاکہ ہماری نمائندگی ہر چینل میں محسوس ہو۔اور ہماری متفقہ رائے میں تمام پروگرام باجی علی سلیم کو دیئے جائیں۔
صادق بالم چیر مین

گدھے اور گھوڑے کی قیمت برابر کی جائے
مکرمی!
گھوڑے اور گدھے کے مابین جو فرق صدیوں سے چلا آ رہا ہے اس کو پاٹا نہیں جا سکا گو کہ شکل صورت ،دولتی،چارہ اور رسم ورواج سے دونوں ایک ہی خاندان کے افراد دکھائی ہی نہیں بلکہ سنائی بھی دیتے ہیں دونوں کی ہنہناہٹ میں معمولی سے فرق کو شائد اس کا مالک ہی محسوس کر سکتا ہو۔گدھا ،گھوڑے سے صرف قد میں مار کھاتا ہے ورنہ بار برداری سے لے بھاگنے میں دونوں میں کوئی اتنا فرق نہیں ہے۔ملک عزیز میں حالیہ دنوں میں گدھے کے ساتھ جو ہوا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ملک کے طول و عرض میں گدھوں کے اغوا کی وارداتوں نے گدھوں کی فیملیزمیں خوف و حراس کی فضا نے جنم لیا بعد میں ان اغوا شدہ گدھوں کی کھالیں بے دردی سے نوچ لی گئی جہاں پر ان کے گوشت کی ترسیل میں مشکلات تھیں وہاں پر تو گدھے بغیر کھالوں کے کوڑے اسٹینڈیا جنگل بیابانوں میں پائے گئے البتہ جہاں گوشت مافیا مضبوط تھا وہاں گدھے کبابوں ،کڑاہیوں ،تکا باٹا کے مصالحوں میں لتھڑے ہوئے پائے گئے ۔تحقیقات کی روشنی میں پتہ چلا کہ صدیوں بعد گدھے نے اپنی کھال کے زور پر ایک مرتبہ گھوڑے کو پچھاڑ دیا ہے گھوڑے اور گدھے تو برابر نہیں ہو سکے لیکن اب ان کی کھالوں کے ریٹس عالمی مارکیٹ میں برابر ہو چکے ہیں ۔لیکن مزید تحقیقات کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا کہ ایک مافیا گدھے کی کھالوں کو ایک کیمیکل پراسس کے بعد گھوڑے کی کھال بنا کر پیش کر رہا ہے یہاں پر بھی گدھے اپنی معصوم سی صورت لئے پھرپچھلی لائن میں کھڑے ہیں۔گدھوں کو عالمی مافیا کے طلم سے بچانے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے گھوڑے اور گدھوں کی قیمتوں میں روا رکھا جانے والا فرق ختم کیا جائے اور دونوں کی ایک ہی قیمت مقرر کی جائے تاکہ گدھا جوصرف اپنی کھال کی وجہ سے گھوڑا بن رہا ہے اسے غیر ملک کے کھال اور ملک عزیز کے گوشت مافیا سے بچایا جا سکے
بدرو کمہار ۔۔۔۔۔ڈونکی فارم ۔۔۔۔منڈی موڑ

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply