یہ کائنات اور ہم ۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

کہا جاتا ہےکہ2 ہی possibilities ہوسکتی ہیں، یا تو ہم اس عظیم کائنات میں بالکل تنہا ہیں یا پھرہم تنہا نہیں ہیں،یہ دونوں ممکنات دل دہلا دینے والے ہیں۔جب سے کائنات کو حضرتِ انسان نے کھوجنا شروع کیا تو ستاروں، سیاروں کی کھوج علاوہ کسی انجانی مخلوق کو کھوجنے کا تجسس بھی دل میں لئے تحقیقات کیں۔کائنات کے دُور دراز دریچوں میں جھانکتے ہوئے 1964ء میں رُوسی سائنسدانNikolai Kardashevنے 8 ارب نوری سال دُورCTA-102نامی quasar پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کچھ انجانے سے سگنلز اس کواسر سے ہمیں موصول ہورہے ہیں اِن سگنلز کو نِکولی کارڈشیف نے خلائی مخلوق کا شاخسانہ قرار دیا،
یاد رہے کہ کواسرز دراصل بلیک ہولز ہی ہوتے ہیں مگر جب کوئی مادہ بلیک ہول میں گرنے لگتا ہے تو وہ بلیک ہول کے گرد چکر لگانا شروع ہوجاتا ہے جسے ہم accretion disk کہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ مادہ بلیک ہول میں داخل ہونے کے لئے تیزی سے لپکتا ہےتو مادے کا کچھ حصہ بلیک ہول میں گرنے کی بجائے بلیک ہولز کے poles کی جانب نکل جاتا ہے اور دُور سے دیکھنے میں یوں دِکھائی دیتا ہے جیسے کسی ستارے کے کناروں سے روشنی کی دھاریں پھُوٹ رہی ہو، اسے ہم ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ نے بالٹی میں پانی بھرنے کی خاطر نل کھولا، پانی کی بہت تیز رفتار کے باعث کچھ پانی بالٹی کے پیندے سے ٹکرا کرکناروں تک آجائے گابالکل یہی مظہر ہمیں کواسرز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک کواسر سے نکلنے والی توانائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس سے نکلنے والی توانائی ہماری ملکی وے کے کُل ستاروں سےنکلنے والی توانائی کے برابر ہوتی ہے، ہماری ملکی وے میں اندازاً 200 سے 400 ارب ستارے موجود ہیں۔
بہرحال 60ء کی دہائی میں چونکہ جدید فلکیات کے متعلق کافی مظاہر دیکھنے کو مل رہے تھے جس وجہ سے دُنیا بھر میں نِکولی کارڈشیف کی دریافت کو پذیرائی ملی اور سائنسدانوں کی تحقیق کا رُخ اس جانب مڑ گیا کہ کیا واقعی کواسرCTA-102 سے کوئی خلائی مخلوق ہم سے رابطہ کرنا چاہ رہی ہے؟اس دریافت کے بل بوتے پر نکولی کارڈشیف نے سائنسی پیپر چھاپا اور ممکنہ خلائی مخلوق کی ذہانت کے متعلق کچھ پیمانے طے کئے جن کو “کارڈشیف سکیل” (Kardashev scale) کے نام سے جانا جاتا ہے۔کارڈشیف سکیل کے مطابقType-I Civilizationوہ مخلوق ہوگی جو سورج سے اپنے سیارے پر آنے والی تمام انرجی کو استعمال کرسکے، ہم زمین پر سورج سے آنے والی زیادہ تر انرجی استعمال نہیں کرسکتے اور ضائع ہوجاتی ہے ابھی ہم نے سولر پینل کے ذریعے سورج کی انرجی کو استعمال میں لانے کا طریقہ کار ڈھونڈا ہے لیکن خود زندہ رہنے کے لئے ہم پودوں اور جانوروں پر ہی گزارا کررہے ہیں لہٰذا سائنسدانوں کے مطابق ہم انسان ابھی Type-0 Civilization  کہلانے کے قابل ہیں جبکہ Type-I Civilization کے دور میں داخل ہونے کے لئے ہمیں مزید 200 سال لگیں گے۔ اس کے بعد اس سکیل پہ Type-II Civilizationکا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے، Type-II Civilizationوہ مخلوق ہوگی جو اپنے ستارے (سورج) سے نکلنے والی تمام کی تمام انرجی کو استعمال کرنے کے قابل ہو۔
اندازہ ہے کہ ایسی مخلوق اپنے ستارے/سورج کے گرد ایک mega-structureتعمیر کرے گی جسے Dyson Sphereکا نام دیا گیاہے۔اس کی مثال ایسے لی جاسکتی ہے کہ ہمارے سورج کی زیادہ ترانرجی خلاء میں بکھر کر ضائع ہورہی ہے سو اس کے گرد کوئی ہالہ (mega-structure)تعمیر کرکے یہ مخلوق اپنے ستارے کی تمام انرجی کو جمع کرلینے کے قابل ہوجائے گی، اس کے علاوہ یہ   مخلوق انرجی کے حصول کے لئے کسی بھی ستارے کا کوئی بھی حصہ star lifting کے ذریعے”چُرا” سکے گی، اندازہ ہے کہ انسان Type-II Civilizationکا تمغہ اگلے چند ہزار سالوں میں حاصل کرلے گا۔ کچھ سال پہلے اس ضمن میں سائنسدانوں کو شدید مغالطہ تب لگا جب Tabby Star نامی ایک ستارے پر تحقیق سے معلوم ہواکہ اس کی روشنی 20 فیصد تک کم ہوچکی ہے جس سے کئی سائنسدانوں کو شک پڑا کہ اس ستارے کے گرد Type-II Civilizationجیسی کوئی مخلوق ہوسکتی ہے، مگر جنوری 2018ء میں 200 فلکیات دانوں کی جانب سے تحقیق کے بعد انکشاف کیا گیا کہ ٹیبی ستارے میں روشنی کی کمی کسی خلائی مخلوق کےmegastructure کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے گرد موجود دیوہیکل گرد کے بادلوں کے باعث ہے
ٹیبی ستارے کے متعلق سال پہلے لکھے گئےتفصیلی مضمون کا لنک ۔
اس کے بعد Type-III Civilizationکا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔کارڈشیف سکیل کے مطابق Type-III Civilization کی حامل مخلوق اپنی کہکشاں کی تمام کی تمام انرجی استعمال کرسکے گی،اس کے علاوہ Supermassive blackholes اور کواسرزسے انرجی حاصل کرسکے گی، انسانوں کو اس level تک پہنچنے کے لئے 1 سے دس لاکھ سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔نکولی کارڈشیف نے صرف ان 3 لیولز کا ذکر کیا تھا جس میں سائنسدانوں نے بعد ازاں مزید 2 levels کی addition کردی کیونکہ “خواب دیکھنا کونسا جرم ہیں”۔ سو نئے کارڈشیف سکیل کے مطابقType-IV Civilization وہ مخلوق ہوگی جو پوری کائنات کی انرجی کو استعمال کرنے کے قابل ہوگی، یہاں تک کہ ڈارک انرجی کو بھی قابل استعمال بنائے گی۔جبکہ Type-V Civilization وہ مخلوق ہوگی جو دیگر کائناتوں (ملٹی ورس) کی انرجی کو استعمال کرے گی۔
فی الحال Type-IV اور Type-V کو چھوڑیں،سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ہمارے ارد گرد ایک ارب نوری سال کے احاطے میں بھی Type I-III تک کی کوئی خلائی مخلوق موجود نہیں ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ جیسے ہی ترقی کرکے ٹائپ ون اور ٹو تہذیبوں میں انسان قدم رکھے گا تو اس زمین پر دیگر جانداروں کے رہنے کی جگہ نہیں رہے گی سو ہوسکتا ہے اس وقت کےانسان بھی ویسے نہ ہوجیسے آج کے ہیں۔مشہور فلکیات دان کارل ساگان نے1973ء میں کارڈشیف سکیل سے ہٹ کر ایک انفارمیشن سکیل متعارف کروایا جسے Information Mastery کا نام دیا گیااور آئیڈیا دیا کہ مخلوقات کو اس سکیل پر categorizeکیا جائے کہ ان کے پاس کتنی انفارمیشن موجود ہے،اس اسکیل میں A سے Z تک categoryبنائی گئیں، شروع میں انسان کے پاس انفارمیشن کم تھی لہٰذا اس وقت انسان Aکیٹاگری میں تھا، 1973ء میں انسان ترقی کرکے Hکیٹاگری تک پہنچا اور آج ٹیکنالوجی کی وجہ سے انفارمیشن کا سیلاب آچکا ہے سو انسان ترقی کرکے Qکیٹاگری تک پہنچ چکا ہےاور اندازہ ہے کہ 2020ء تک انسان Rکیٹاگری میں قدم رکھ لے گا۔
لیکن جوں جوں ہم اس اسکیل میں آگے جاتے ہیں تو زیادہ انفارمیشن کی شرط کے باعث اگلی کیٹاگری کا حصول زیادہ مشکل ہوتا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کارل ساگان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے اسکیل کے مطابق Z کیٹاگری حاصل کرنا کسی بھی مخلوق کے لئے ناممکن ہوگا کیونکہ کائنات کو بنے اتنا وقت ہی نہیں گزرا کہ کوئی مخلوق اتنی انفارمیشن جمع کرسکےلیکن اب ماہرین کو لگتا ہے کہ اس سکیل میں extension کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ان 2 سکیلز کے علاوہ امریکی فلکیات دان Robert Zubrin نے بھی Civilizational Range نام کا سکیل متعارف کروایا جس کے تحت Type-I مخلوق اپنے سیارے تک محدود رہے گی، Type-II مخلوق دیگر سیاروں تک اپنی کالونیاں بنائے گی، جبکہType-III مخلوق دیگر ستاروں تک اپنی کالونیاں پھیلا لے گی۔اندازہ ہے کہ انسان اس سکیل کے مطابق اگلے 12 سالوں میں Type-II مخلوق کا درجہ پا لیں گے۔اِن تمام سکیلز سے ہٹ کر برطانوی فلکیات دان John Barrow نے Micro dimensional Masteryکےنام سے منفردنظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اس سکیل کے مطابق مخلوقات کی ترقی کا پیمانہ Micro levelکے مطابق رکھاگیا۔اس کے تحت Type-I Minus کی حامل مخلوق چیزوں کو توڑے ،جوڑنے، نقل بنانے اور structuresبنانے پر قادر ہونگی۔
Type-II Minus کی حامل مخلوق جینز کے حوالے سے کافی ترقی یافتہ ہوگی، genetic code کو readکرسکے گی ،اپنے اعضاء کو ٹرانسپلانٹ کرسکے گی۔اگلی اسٹیج پر Type-III Minusمخلوق مالیکیول کے ساتھ کھیل سکے گی، نئے مالیکیولز بنا سکے گی، کسی بھی مالیکیول کی نقل بنا سکے گی۔Type-IV Minusمخلوق atomic level پر نئے ایٹم بناسکے گی،ایٹمی سکیل پر nanotechnology بناپائے گی۔Type-V Minus مخلوق nucleons اور ایٹم کے nucleusکو کنٹرول کرسکے گی اور ان کی نقل تخلیق کرسکے گی۔Type-VI Minusکوانٹمی ذرات (کوارکس اور لیپٹانز وغیرہ)کو کنٹرول کرکے ان کی نقل تخلیق کرسکے گی اور ان سے complex particles بناسکے گی۔آخری قسم Type-Omega Minusہوگی جو time-space کی نقل تخلیق کرسکے گی۔ اس سکیل کے مطابق اگر دیکھا جائے تو انسان Type-VI Minusتک پہنچ چکا ہے۔فلکیات میں ستاروں اور سیاروں کی کھوج کے ساتھ خلائی مخلوق کی کھوج بھی اہم حصہ بن چکی ہے۔ یہ بھی اندازہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مشتری کے چاند یوروپا، زحل کے چاند انسلادس اورٹائٹن یا سیارہ مریخ پر مائیکرو لیول پہ زندگی موجود ہوسکتی ہے ۔لیکن ان جگہوں پر خوردبینی جرثوموں کو ڈھونڈنے میں سب سے بڑا مسئلہ زمینی جراثیم ہیں،کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی بھی چیز جراثیموں سے سو فیصد پاک نہیں ہوسکتی
، ہمیں یاد ہے کہ جب ناسا چاند پر گیا تو وہاں جانے سے پہلے 1967ء میں سروئیر نامی خلائی گاڑیاں چاند پر اتاریں جو آج بھی وہاں موجود ہیں، 1969ء میں جب انسان نےچاند پر قدم رکھا تو واپسی پر خلاء باز وہاں 2 سال سے موجود سروئیر خلائی گاڑی کے ٹکڑے اپنے ساتھ لے آئے ، جن پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس پہ موجود بیکٹریا چاند جیسے سخت ماحول میں  2 سال گزارنے کے باوجود زندہ تھے، یہی وجہ ہے کہ اب سائنسدان کسی بھی سیارے کے ایسے علاقے میں خلائی گاڑی نہیں اتارتے جہاں مائیکرو لیول پہ زندگی کا چانس موجود ہوکیونکہ زمین کے جراثیم سخت سے سخت ماحول میں رہنے کے عادی ہیں اوراگر اس سیارے پہ کوئی زندگی جراثیم کی شکل میں موجود ہوئی تو ہمارے زمینی جراثیم ان پر اثرانداز ہوسکتے ہیں جس وجہ سے وہاں کی زندگی کی اصل حالت کا ہمیں کبھی پتہ نہیں چل پائے گا۔آپ  کو یاد ہوگا 8 ماہ پہلے اسی وجہ سے کیسینی مشن کو زحل کی فضاء میں ٹکرا کر ختم کردیا گیا تاکہ اگر یہ خلائی گاڑی زحل کے چاند انسلادس پر گرگئی جہاں گرم پانی کا سمندر موجود ہے،تو وہاں اگر کوئی جراثیم موجود ہوئے تو وہ ناپید ہوسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مریخ پر کئی مشنز جانے کے باوجود ان مشنز کو مریخ کے اس علاقے میں نہیں لے جایا گیا جہاں پانی کے ثبوت ملے ہیں۔خلائی مخلوق کے متعلق جاننا اس خاطر بھی مشکل ہے کہ جب کبھی ہم آسمان پہ نظر دوڑاتے ہیں تو کائنات کا اربوں سال پُرانا ماضی ہمارا استقبال کررہا ہوتا ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ آج اربوں نوری سال دور کوئی مخلوق وجود رکھتی ہو لیکن چونکہ ہم اُن ستاروں کا “ماضی” دیکھ رہے ہیں “حال” سے واقف نہیں سو اس متعلق جان نہیں پا رہے۔
کچھ دہائیاں پہلے Wow Signalنامی ایک سگنل ہمیں موصول ہوا تھا جس کو خلائی مخلوق کی موجودگی کا واضح ثبوت مانا جارہا تھا ، اس متعلق سائنسدانوں کو اتنا پختہ یقین تھا کہ 2012ء میں سائنسدانوں نے اس ستارے کی جانب جوابی سگنل تک بھیجا مگر حال ہی میں جدید تحقیق نے اس کو بھی رد کردیا اور اس ستارے سے آنے والےسگنل کو دراصل اس ستارے کے پاس موجود ہائیڈروجن گیس کے بادلوں میں سے نکلنے والی ریڈیشنز قرار دے دیا یوں خلائی مخلوق ملنے کی آخری اُمید بھی دَم توڑ گئی،ہم ماضی میں کئی فلکیاتی اجسام سے آنے والی radiations کو خلائی مخلوق کی “شرارت” سمجھتے رہے مگر جدید تحقیقات نے تمام کارد کردیا ۔فی الحال ہمارے پاس خلائی مخلوق کی موجودگی کا ایک بھی ثبوت نہیں ہےلہٰذایہ کہا جاسکتا ہےکہ”انسان سے زیادہ ذہین خلائی مخلوق اِس کائنات میں موجودنہیں!”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply