حال حوال کی بندش:مت قتل کرو آوازوں کو۔۔۔ عابد میر

یہ 2009 کی بات ہے۔
میں کوئٹہ سے شائع ہونے والے قوم پرست رجحان کے حامل روزنامہ’آساپ‘ کا ایڈیٹوریل انچارج تھا۔یہ بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کے ابھار اور اس کے خلاف کارروائیوں کے عروج کا زمانہ تھا۔اسی برس فروری میں ہمارے ایڈیٹر ان چیف پر جان لیوا حملہ ہوا۔ خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ علاج کے لیے لندن شفٹ ہوئے اور پھر ایک طویل عرصہ وہیں گزارا۔
اس دوران کچھ ماہ بعد ایف سی نے ایک عجب معاملہ کیا۔ پہلے ان کا ایک بکتربند ٹینک دفتر کی عمارت کے عین سامنے آ کر ٹھہر گیا۔ جس سے خوف و ہراس کی صورت حال نے جنم لیا۔ پھر کچھ اہلکار دفتر آئے۔ دفتری و انتظامی امور سمیت تمام اہلکاروں کی تفصیلات معلوم کیں۔ پھر کچھ دن بعد ادارے کے کسی مطالبے کے بنا، چند اہلکار دفتر کے مرکزی دفتر پہ ایستادہ ہو گئے۔ انہوں نے ایک عجب وطیرہ اپنایا۔ یہ عملے کی جامع تلاشی لیتے، لوگوں سے تفتیش کرتے کہ؛ کہاں جانا ہے؟ کیوں جانا ہے؟ کیا کرتے ہو؟ کب آتے ہو؟ کب جاتے ہو؟ وغیرہ۔ پھر یہ کہ کمپیوٹر آپریٹرز، سب ایڈیٹرز وغیرہ کو آدھا آدھا گھنٹہ دروازے سے باہر یا ریسپشن پہ بٹھا دیتے۔ اس سے بیزار آ کر عملے کے بیشتر ارکان چھوڑ کر جانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند ماہ بعد انتظامیہ نے اخبار کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

مجھے یاد پڑتا ہے ایک عالمی نشریاتی ادارے کے ایک صحافی نے مجھ سے یہ تفصیل لے کر جب اُس وقت کے آئی جی ایف سی سے اس بابت بات کی تو انہوں نے کمال تغافل سے فرمایا، ہمارا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، ایسے اقدامات عوام کی حفاظت کے پیش نظر کیے جاتے ہیں، اگر کوئی اس سے گھبرا کر ادارہ بند کر دے تو یہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہم نے کسی کو اخبار بند کرنے کو نہیں کہا۔
یوں ’آساپ‘ بند ہوگیا۔ یہ بلوچستان کا پہلا اور واحد اخبار تھا جس کا ادارتی صفحہ مکمل طو ر پر لوکل ہوتا تھا۔ مقامی لکھاریوں کے کالم اور مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ یوں لگ بھگ ایک عشرہ زندہ رہنے والا یہ ادارہ نئے لکھنے، پڑھنے والوں کی ایک بڑی نرسری بنا رہا۔ جہاں کوئٹہ سے لے کر آواران کے قصبوں سے بھی لکھنے والوں کی تحریریں جگہ پاتی تھیں۔ یہ روایت اس ادارے کے ساتھ ہی دم توڑ گئی۔

اس فورم کے کچھ بچھڑے ساتھی، کئی برس کے بحث مباحثے کے بعد بالآخر ’حال حوال‘ کے نئے پلیٹ فارم پہ یکجا ہوئے۔ یہ بلوچستان سے خبروں اور تجزوں پہ مبنی اپنی نوعیت کا اولین آن لائن فورم تھا۔جس نے اپنے ابتدائی ایام میں پڑھنے والوں کی خاصی توجہ حاصل کی، البتہ بعد ازاں یہ صرف نئے لکھنے والوں کی نرسری ہی بن کر رہ گیا۔ ادارتی ٹیم کے اراکین کی اولین ترجیح نہ ہونے، اور بعض دیگر ’ناگزیر‘ اسباب کے باعث یہ پلیٹ فارم اس قدر وسعت حاصل نہیں کر پایا، جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔ البتہ نوجوان لکھاری اس جانب وسیع تعداد میں مائل ہوئے۔ یہی وہ واحد عنصر ہے، جسے یہ ادارہ بطور کنٹری بیوشن اپنا اعزاز بتا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی ء صحافت کے عالمی دن (تین مئی) کو دو سالہ سفر کی تکمیل پر بطور ایڈیٹر میں نے جو اداریہ لکھا، اس کا عنوان تھا:”دو سالہ ناکامیاں۔“جس میں اُن اہم باتوں کا تذکرہ کیا گیا،جنہیں بطور ادارہ ناکامی سے معنون کیا جا سکتا ہے۔

مگر حیرت انگیز طور پر اس کے فقط ایک روز بعد (چار مئی) ہمیں یہ شکایت موصول ہوئی کہ ’حال حوال‘کی ویب سائٹ ملک میں نہیں کھل رہی۔ جب کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثر شہروں میں اس کا ایکسسز دستیاب تھا۔ البتہ تفصیل معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بلوچستان کے علاوہ ملک کے اکثر حصوں میں ویب سائٹ پر رسائی روک دی گئی ہے، اور یہ بندش پی ٹی اے کی جانب سے عائد کی گئی ہے۔ اگلے روز پی ٹی اے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، مگر ہفتہ، اتوار کی تعطیل کے باعث کوئی جواب ممکن نہ تھا۔ سوموار کو ایک دوست کے توسط سے بتایا گیا کہ (مبینہ طور پر) حساس اداروں کے’اوپر‘ سے آنے والے حکم پر یہ کارروائی کی گئی ہے۔
ہمارے لیے یہ حیران کن تھا۔دبے لفظوں میں ریاست مخالف مواد کی اشاعت کی بات بھی کی گئی مگر کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ حل کا پوچھا، تو کہا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل کے نام خط لکھیں، اپنی پالیسی واضح کریں، اس کی بنیاد پر وہ آگے بات کرنے کی کوشش کریں گے، عین ممکن ہے بات بن جائے۔ یہ اتمامِ حجت بھی کر لیا۔ مگر ہفتہ بھر گزرنے کے بعد بھی جواب ندارد۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پانچ مئی سے ویب سائٹ ملک کے اکثر حصوں میں قابلِ رسائی نہیں رہی۔ لیکن کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثر شہروں میں رسائی ہو رہی ہے۔ پی ٹی اے نہ کوئی جواب دیتا ہے، نہ کوئی لیٹر، نہ کوئی نوٹس۔

ہم حیران و پریشان ہیں کہ یہ مقدمہ کس کے پاس لے جائیں؟۔ اس لیے بھی ڈیجیٹل میڈیا یا آن لائن میڈیا، پاکستان میں اب تک باضابطہ ریکگنائیزڈ میڈیم نہیں ہے۔ اس لیے کسی صحافتی تنظیم اور ادارے کو اس کے لیے احتجاج کا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ پی ٹی اے بادشاہ ہے، جو ان اداروں کو قانونی حیثیت دینے کو تو تیار نہیں، بند کرنے پہ مستعد ہے۔ قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں تو سائبر کرائم کی لٹکتی تلوار سر کاٹنے کو ہمہ وقت موجود ہے۔

پریشانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ معتوب ہیں اور نہیں جانتے کہ کس سبب سے۔ ادارتی ٹیم اپنے تئیں کھوج لگا کر تھک چکی کہ آخر ’غلطی‘ کہاں ہوئی ہے؟۔ حالاں کہ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی اپنی ادارتی پالیسی میں ہم نے واضح طور پر لکھا کہ ہم ملکی آئین اور قانون کے خلاف کچھ شائع نہیں کرتے، نہ ہی کسی قسم کی منافرت پر مبنی مواد شائع کیا جاتا ہے۔ ہم نے واحد مقصد‘ بلوچستان کو ایک پرامن و خوش حال خطہ بنانے سے متعلق بامعنی اور سلیقہ مند مکالمہ رکھااور اسی کی ترویج کی۔

یہ تسلیم کہ مکالمے میں کہیں درشتی در آ سکتی ہے۔ کوئی دلیل، کوئی مؤقف گراں گزر سکتا ہے، مگر مکالمے کا راستہ روکنے کا مطلب آواز کو قتل کرنا ہے۔ مکالمہ، تہذیب اور شائستگی کی علامت ہے۔ تحریر‘اگرچہ خنجر جیسی کرخت ہی کیوں نہ ہو، گولی سے بہرحال برتر ہے۔ ہمارا سماج بڑی مشکل سے بندوق سے قلم کی طرف آیا ہے، ہم اسے کسی صورت واپس اسی ڈگر کی طرف جانے نہیں دیں گے، جس نے ہمیں برسوں پستی میں دھکیلے رکھا۔ ہمیں موت کا خوف نہیں، مگر ہم ہاتھ میں قلم‘کتاب اور زباں پہ حرف کی صدا لیے اس جہاں سے گزرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے بندوق کے جبر کا جوا اتار پھینکا، ہمیں خاموشی کی موت بھی گوارا نہیں۔
سو ہماری صدا ہے……”مت قتل کرو آوازوں کو……“

Advertisements
julia rana solicitors london

تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا
جب قتل ہوا سُر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں
جب دیکھو گے‘ ڈر جاؤ گے!

Facebook Comments

عابد میر
عابد میر بلوچستان سے محبت اور وفا کا نام ہے۔ آپ ایک ترقی پسند سائیٹ حال احوال کے ایڈیٹر ہیں جو بلوچ مسائل کی نشاندھی اور کلچر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply