دنیا کو ہے اُس مہدی برحق کی ضرورت (حصہ دوم )

تعجب ہے کہ افغان دراندازی اور ضیا ء پالیسی سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ حکومت اور پاک فوج نے جنرل راحیل شریف کو این او سی کن بنیادوں پر جاری کیا۔ تا کہ ہم ایک اور وار کا حصہ بن سکیں اور پھر اگلہ عشرہ اسی ردعمل کو بھگتتے پھریں۔گزشتہ ہفتہ سعودی شہزادے کا بیان کہ ہم ایسے ملک کے ساتھ کس طرح بات کرسکتے ہیں جو امام مہدیؑ کی حکومت کے لئے حالات سازگار بنا رہے ہیں۔ اورایران مکہ معظمہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ہم کبھی بھی انتظار نہیں کریں گے کہ ایران سعودی عرب میں گھس کر جنگ چھیڑے ،بلکہ ہم اس سے قبل ہی ایران کے اندر ہی جنگ چھیڑنے کے اسباب پیدا کریں گے۔ کیا اب بھی موقف واضح نہیں ہوا جس اتحاد کا ہم حصہ بنے ہیں۔
افسوس صد افسوس ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود کسی قلم میں جنبش پیدا نہیں ہوئی کہ امام مہدیؑ کے حوالہ سے سعودی بیان کی مذمت ہی کردیں۔ دنیا جہاں کےمعاملات میں ٹانگیں پھنسانا تو ہم ضروری سمجھتے ہیں لیکن جب حق و باطل کو واضح کرنا واجب ہو اس وقت صحافت خاموش، سیاسی حلقے چپ اور عوام بھی صم بکم۔ مذہبی حلقوں کا نام لینے کی جسارت اس لئے نہیں کی، کیوں کہ جب ڈالراور ریال نظر نہیں آئیں گے تو کوئی بیان یا ریلی کیسے نکل سکتی ہے۔ ہم کیسے عاشق رسول ہیں کسی پرتوہین رسالت کا جھوٹا الزام بھی لگا دیا جائے تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ کیا توہین ا مام مہدیؑ توہین رسالت اور احادیث کا انکار نہیں؟ کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ،یعنی جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں ہمیں اپنے پسندیدہ ملک یا شخصیات کے خلاف کوئی بات سوچنا بھی گوارا نہیں۔ٹھنڈے دماغ سے اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکیے گا کہ جب امام حسین ؑ کے قتل کو مباح قرار دینے کے لئے ہزاروں مفتیوں کی رضامندی شامل تھی اس وقت کی تماشائی امت کی طرح کیا ہم بھی آج اس طرح خاموش رہیں گے؟
اب کچھ موجودہ حالات پر آپکی توجہ مطلوب ہے جن کے تانے بانے بہت گہری سازشوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق جناب ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورہ کے لئے پہلے سعودی عرب اور اس کے بعد اسرائیل کا رخ کریں گے۔ اللہ جانے یہ دورہ کیا گل کھلائے اور مسلمانوں کے کیلئے کون سے مصائب کا آغاز کرے۔
پارہ چنار میں دھماکہ ہوا تھا اس میں احتجاج کیا گیا اور ان نہتے احتجاج کرنے والوں پر گولی چلا دی گئی اور وہاں پر کئی جوان اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اخبارات میں کرنل عمر نامی مجاہد کے حکم پر فائرنگ کی گئی۔ جس سے خیبر پختون خوا کے گورنر نے جا کر استفسار بھی کیا کہ جب کسی نے حملہ نہیں کیا فورسز پر اٹیک نہیں ہوا تو پھر گولیاں کیوں برسائی گئیں۔ کوئٹہ ، پارہ چنار اور گلگت بلتستان میں بدامنی اور انتششار دراصل “نیل سے لیکر تابخاک کاشغر” منصوبہ کا ایک حصہ ہے ۔اسرائیل اپنے اہداف نہیں بھولا لیکن ہم زبان ، مسلک اور قوم کی بنیادوں پر لڑ لڑ کر ان اہداف کو پورا کرنے میں معاون ضرور ثابت ہورہے ہیں۔
کچھ اطلاعات کے مطابق اصفہان کے یہودیوں نے ایک شاندار جشن منایا ۔ان کی روایات کے مطابق جب اصفہان میں 70 ہزار کی تعداد پوری ہوگی تو دجال کے آنے کا وقت قریب ہو گا۔ یعنی ایک طرف یہود دجال کا انتظار کر رہے ہیں اور دجالی نظام کے قیام و استحکام کے لئے حالات سازگار کررہے ہیں ۔ عالمی معیشت ، سیاست ، افراط زر، ٹیکنالوجی اور ہر طرح کی ریسورسز پر یہود کی مکمل اجارہ داری ہے۔ جبکہ ہمارے دلوں میں ایسے شکوک و وسوے پیدا کئے جا رہے ہیں کہ ہم اس قابل ہی نہ رہیں کہ خلافت و حکومت مہدی میں معاون بن سکیں ۔یا دجال کی سرکوبی کے لئے اپنا کوئی کردار ادا کر سکیں۔
پندرہ شعبان قریب ہے اور ہمیشہ کی طرح امید ہے کہ اب پھر سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقہ اس رات کی بے برکتی اور کمتری ثابت کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردے گا۔ کچھ لا علمی میں اور اکثر کم علمی میں کٹھ پتلی بن کرباطل قوتوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے متحرک ہو جائیں گے۔ اور اصل مقصد صرف یہی ہے کہ نظریہ مہدویت کو کمزور سے کمزور تر کیا جا سکے اور اس نظریہ سے اہلسنت بھائیوں کو اتنا بیزار کردیا جائے کہ وہ سمجھیں کہ مہدی ؑ کا تعلق صرف تشیع سے ہے۔ 15 شعبان شب برات اور ولادت امام مہدی ؑکےلحاظ سے مخصوص ہے اوردعا ہے کہ اس بابرکت رات تقرب الہیٰ و نصرت اسلام کے لئے ہماری قوتیں مثبت سمت میں صرف ہوں۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply