لیو ٹالسٹائی اور صوفیہ ٹالسٹائی۔۔۔سلمی اعوان

اپنے ماسکو میں قیام کے دوران میں یاسنا یا پولیانہYasnaya ployanaجانے کی بڑی خواہش مند تھی۔ٹالسٹائی کا وہ گھرجہاں وہ پیدا ہوا۔جہاں اُس نے اپنے ادبی شہ پاروں کی تخلیق کی تھی۔پر جیسے وہاں حاضری دینی میری قسمت میں نہ تھی۔
یوں ماسکو میں کروپوتکن سٹریٹ پر موزے ٹالسٹائی میں اس کی اپنی لکھائی میں لکھے ہوئے اُس کے دو شہرہ آفاق ناولوں وار اینڈ پیس اور اینا کرینیناKarenina کے مسودے رکھے ہوئے ہیں اور ٹالسٹائی سکوائر کے ویران سے پارک میں اُس کے مجسمے کے ساتھ تصویریں وغیرہ بنوا کر دل کے رانجھے کو پرچانے کی کوشش کی تھی۔
پر یا سنایا پولیانہ جانے کی ہڑک نچلا نہ بیٹھنے دے رہی تھی۔ اُس دن اپنے ہوٹل کے سامنے ریسٹورنٹ میں ناشتہ کرتے ہوئے میں ویٹرس ورونیکا جو یاسنایا پولیانہ سے تھی کہہ بیٹھی۔
”تمہارا تو گھر ہے وہاں۔ جس دن تمہاری چھٹی ہو۔ہمیں لے چلو نا اپنے ساتھ۔“وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔
”آپ کو معلوم ہے وہاں کوئی بھی چیز اصلی نہیں ہے۔نہ وہ درخت جنہیں ٹالسٹائی نے خود اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا،نہ وہ فرنیچر، نہ وہ کمروں کا سامان،نہ وہ تصویریں۔دوسری جنگ عظیم میں نازی فوجوں نے ماسکو پر حملے کے دوران یاسنایاپولیانہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ایسے ننگ انسانیت لوگ تھے کہ درختوں کو کاٹ ڈالا۔فرنیچر جلادیا۔یادگار تصویروں کو آگ لگا دی۔
مجھے احساس ہوا تھا کیفے کی ورونیکا اور داشا پڑھی لکھی ہی نہ تھیں ادبی ذوق کی حامل بھی تھیں۔جب وہ پنیر پراٹھا اور بھاپ اڑاتی چائے ہمارے سامنے رکھ رہی تھیں۔میں نے اُن سے ٹالسٹائی کے اُن دونوں شاہکار ناولوں کی بابت پوچھا تھا کہ وہ انہوں نے پڑھے ہیں۔ورونیکا نے اثبات میں سر ہلایا۔ساتھ ہی داشا کی طرف ہاتھ پھیلایا جو کاؤنٹر پر کھڑی ہمیں مسکراتے ہوئے دیکھتی تھی اور بولی۔
”دراصل یہ صوفیہ ٹالسٹائی کو پڑھے بیٹھی ہے اور میں ٹالسٹائی کو۔چلو اگر شام میں ایک نشست ہوجائے تو لطف آئے گا۔آج شام ہم دونوں فارغ ہیں۔یہیں چبوترے پر بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔“

شام بہت خوبصورت تھی۔ہمارے ہوٹل کی دیوہیکل عمارت کیفے اور اس سے ملحقہ کمپاؤنڈ پر کسی مہرباں کی طرح سایہ فگن تھی۔پرے بسوں کے یارڈ میں دھوپ اپنا بڑھاپا بڑے کروّفر کے سے انداز میں گزار رہی تھی۔سنبل کے بلندوبالا پیٹروں میں ہوا کی مست خرامیاں جاری تھیں۔
یارڈ کے موتی بکھیرتے فوارے کی سنگی دیواروں پر بیٹھتے ہوئے ہم نے کونے والی دوکان سے کِسی اجنبی زبان میں گائے گیت کے بول فضا میں بکھرتے سُنے تھے۔درمیانی عمر کی خوبصورت ورونیکا اُن بولوں پر جھومتے، زیر لب گنگناتے چبوترے پربیٹھی اور ساتھ ہی اُس نے مجھ سے سوال کرڈالا تھا کہ میں نے کون کون سے ناول پڑھے ہیں اور کس نے زیادہ متاثر کیا ہے؟
پڑھے تو میں نے دونوں تھے اور دونوں میرے پاس بھی ہیں۔وار اینڈ پیس روسیوں کی نپولین بونا پارٹ کے خلاف عظیم جدوجہد کی شاندار کہانی ہے اِس ناول کا ایک حصّہ ” 1805کا سال”کے عنوان سے “The Russian Messenger” جیسے ادبی پرچے میں چھپنے سے اس کے بارے میں بے حد پسندیدگی سامنے آئی تھی۔تین مزید باب چھپے۔دونوں تنقید نگاروں اور عام قارئین نے اِس ناول کے تاریخی پس منظر کو پسند کیا تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اینا کرینیناکی بات ہی اور ہے۔یہ اُسکا دوسرا ناول تھا۔اینا کرینینا کے کچھ حصّے میں روس کی ترکی کے
ساتھ جنگ کا بھی ذکر ہوا۔تاہم یہ سچائی کی حقیقت نگاری اور جذبوں کی انتہاؤں کو چھوتا ایسا دلکش ناول جس نے اپنے وقت اور عہدکے بہترین لکھاریوں سے خود کو منوایا۔نقادوں کی رائے ہے۔
This is less a work of art than a piece of life, but what it loses in art it gains in reality.

اُس کے سارے کردار تو جیسے چھم چھم کرتے میری آنکھوں کے سامنے آگئے تھے۔اینا کرینینا کے چہرے پر پھیلی متانت اور خوبصورتی کی گھمبیرتا اس کے احساسات کی داخلی کشمکش،روح کی افسردگی،ورونسکی کے اندر بھرا ہوا جوش و جذبہ،جوانی کا حُسن اور جنون ایک شادی شدہ عورت سے انتہا درجے کا عشق، دلیر مگر اندر سے خوف زدہ بھی۔ورونسکی کے کردار کے اِن پہلوؤں کی عکاسی کس درجہ خوبصورت تھی۔
لیوین Levin بھی انتہا درجے کا متاثر کن کردار ہے جو اُنیسویں صدی کی آخری نصف صدی کے روسی معاشرے پر اثر انداز ہوتے مختلف رجحانات جن میں تعلیم،خواتین کے حقوق،سیاسی نظریات،کسانوں کا معاشرے میں کردار جیسے موضوعات پر بے باکانہ اظہار لیوین کی شخصیت کو دل کش بناتے تھے۔
دراصل جب لکھنے والا اپنے زمانے کی معاشرتی خرابیوں کو موضوع بناتا ہے تو جاذبیت بڑھ جاتی ہے۔اس ناول نے روسی معاشرے میں پھیلے ہوئے منافقانہ رویوں، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی عادتوں، حسد،بغض سے بھرے جذبوں کی بڑی کھل کر عکاسی کی تھی۔
خاندانوں میں شادی بیاہ کے مسائل بھی اس وقت کا ایک اہم مسئلہ تھا۔ ناول میں یہ پہلو بھی مختلف انداز میں زیر بحث آیا۔ سوسائٹی میں نفسانی خواہشات کے بے ڈھنگے اور بے ڈھبے اظہار،اخلاقی اقدار کی کمی،شہری زندگی کے طرز معاشرت میں دیہی زندگی اور زرعی مسائل کا دخول سب ایسے موضوع تھے کہ جو اُس وقت کی سوسائٹی میں رچے بسے ہوئے تھے۔ جن کی خامیوں اور کہیں خوبیوں سے معاشرے کا تانا بانا بنا ہواتھا۔

مزے کی بات یہا ں ٹالسٹائی کا منفرد اسلوب سامنے آتا ہے کہ ان پر لکھتے ہوئے ٹالسٹائی ان کی اخلاقی نقطہ نظر یا بطور نشان دہی کے کِسی وضاحت کے چکر میں ہرگز نہیں پڑا بلکہ وہ اپنے موضوع اور خیالات کو روسی زندگی کے وسیع پینوراما میں پھیلاتے ہوئے چلا جاتا ہے اور وہ جو پیغام دینا چاہتا ہے وہ بھی عیاں ہوجاتاہے۔ کہہ لیجئیے کہ لیوین کے کردار میں خود ٹالسٹائی ہے۔اس کی فکر،اس کے خیالات،اس کی جدوجہد،اسکے تجربات سبھی کا کھل کر اظہار سامنے آتا ہے۔

ورونیکا نے میری باتوں سے لطف اٹھاتے ہوئے کہا۔
”دراصل تو سارا کمال ہی مصنف کا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ اُس کی ناول نگاری نے روسی سوسائٹی کی سبھی پرتوں کو جن میں وہ خود بھی رہ رہا تھا تہہ در تہہ کھول کر اپنے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔
اب کوساکز The Cossacksکو ہی دیکھیں۔یہ ناول بھی بنیادی طور پر ٹالسٹائی کے تجربات پر ہی مبنی ہے۔جب وہ کاکیشیا کے علاقوں میں رہا تھا۔

کہانی دیکھیں ذرا۔اس کے ایک مرکزی کردار دمیتری آلیننOlenin جو روسی فوج کا کیڈٹ ہے۔جس پر اُس علاقے کا فطری حُسن، انسانی نفسیات اور رویوں کی پیچیدگیاں،سچائی،انسان کے اندر نیکی کا حُسن اور کوساک معاشرہ اپنے تمام تر حُسن اور
کجیوں کے ساتھ آشکارہ ہوا تھا۔کوساک لڑکی کی ماریناکی سادگی، اُس کا کاکیشیائی حُسن، پہناوے اور لوکاLuka مارینا کے منگیترکی دلیری، شجاعت،کینہ،نفرت جیسے جذبات کے ساتھ ناول ایک خوبصورت ادب پارہ بن گیا ہے۔
میں محسوس کررہی تھی کہ دل کش خدوخال والی دوشاکیلئے اب خاموشی سے اُسے مزید سُننا بہت مشکل ہورہا تھا۔اُس نے لب کھول لئے تھے۔

آپ کی رائے اپنی جگہ اہم ہے۔ اس پر بحث نہیں ہوسکتی۔ تحریرکو دیکھنے اور پر کھنے کے پیمانے ہر ایک کے اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ تاہم میری ناقص رائے میں ”جنگ اور امن“ کو عظیم ترین ناولوں میں سے ایک شاہکار خیال کیا گیا ہے۔ اس کے موضوع کی وسعت اور کرداروں کی اختتام تک جرات کمال کی ہے۔ ناول میں بکھرے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں کردار کہیں گھریلو زندگی، کہیں نپولین کے ہیڈ کواٹر، کہیں زار روس الیگزینڈر اول اور کہیں جنگ کے میدانوں کی کیا خوب عکاسی کرتے ہیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ٹالسٹائی کا ناول کو لکھنے کا بنیادی مقصدتو صرف دسمبرسٹ بغاوت کی وجوہات کو کھوجنا اور انہیں فکشن کی صورت دینا تھا۔ دراصل دسمبر سٹ تحریک تاریخ روس میں بڑی انقلابی تحریک بن کر ظاہر ہوئی تھی۔ مگر ہوا کیا کہ وہ بہت سے دوسرے موضوعات میں اُلجھ گیااور یہ صرف اختتامی باب تک ہی محدود ہو کر رہ گیا جہاں اُس نے اینڈریوبالکوفسکی Bolkonskکے بیٹے کو ایک دسمبری بنا کر قصہ پار کیا۔

ہاں ورونیکارک گئی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ کی کلی کھلی۔ آنکھوں میں سرور کی سی کیفیت کی لودمکی اور انگلیوں کا چٹکی کے سے انداز میں بجانے کی کھنک فضا میں گونجی۔ میں نے نگاہوں کا رخ پھیرا۔ ماحول میں تیرتی تبدیلی نے مجھے سمجھایا تھا کہ یارڈ کی دکان سے آتی گانے اور موسیقی کی آوازیں ورونیکا کے کسی پسندیدہ گیت میں ڈھل گئی ہیں۔ بات کے موڈ میں اس وقت آئی جب گانا ختم ہوا۔

عجیب سی بات ہے ٹالسٹائی تواپنے اس ناول کو ناول نہیں بلکہ کچھ اور ہی خیال کرتا ہے۔ یہ بھی مزے کی بات ہے کہ اپنے وقت کے بڑے ناولوں اور ناول نگاروں کا اعتراف کر نے سے بھی وہ انکار کرتا ہے۔ تاہم اس کے اس خیال کی حیرت اس وقت کم ہو جاتی ہے جب آپ محسوس کرتے ہیں کہ ٹالسٹائی ایک حقیقت پسند ناول نگار ہے جس کے خیال میں انیسویں صدی کی زندگی کے سیاسی اور سماجی مسائل میں گھری اور اس کی حقیقی ترجمانی کرتی ہی کوئی تحریرناول ہوسکتی ہے۔
میں ہنس پڑی تھی۔
اب دیکھ لو ورنیکا وہ تو خود کہتا ہے کہ اینا کرینینا ہی میرا پہلا سچا اور کھرا ناول ہے۔
اسی طرح what is to be done میں کیسے وہ ملک میں پھیلی انارکی کی کیفیت سے امن پسندی کی خواہش میں عیسائیت کے فلسفے سے متاثر روسی آرتھوڈوکس چرچ کی گود میں چلا جاتا ہے۔
بلاشبہ بطور لکھاری وہ روسی ادب کا دیو ہے۔اُس نے شاہکار تخلیقات دنیا کو دیں۔مگربطور شوہر ایک بیوی کی نظر میں وہ کیسا انسان ہے؟ یہ بھی دیکھنے والی بات ہے۔

یہ کس قدر ستم کی بات ہے کہ وہ آدمی جس کا دماغ عجیب و غریب سے مذہبی خیالات سے بھرا ہے۔وہ جو روسی ارسٹوکریسی عورتوں کے بارے میں ایک رائے رکھتا ہے اور وہ رائے بڑی منفی قسم کی ہے کہ وہ اچھے کردار کی مالک نہیں۔اور یہ کہ اُسے شادی ہی نہیں کرنی۔

اب ہوتا کیا ہے۔شادی ماسکو میں ہوتی ہے۔ 1862 میں ماسکو کے ایک ڈاکٹر اینڈریو کی تیسری بیٹی صوفیہ بہرز Behrs
سے چونتیس سال کا آدمی عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تحریری خط کے ذریعے اُسے بتاتا ہے کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
شادی کے فوراً بعد اُسے اپنی ڈائریاں دیتا ہے جن میں اُس کے عشق کی داستانیں ہیں۔اس کے عجیب وغریب سے مذہبی خیالات ہیں جن میں وہ روسی ارسٹو کریسی کی عورتوں کو بہت اچھی طرح جاننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ان کے بارے میں اس کے خیالات بڑے منفی قسم کے ہیں۔ اس کا فیصلہ تھا کہ وہ شادی ہی نہیں کرے گا۔
ان ڈائریوں میں اس کے جنسی تعلقات کی بھی تفصیلات ہیں۔ زرعی کسان غلام جنہیں سرف کہتے ہیں کی ایک خوبرو عورت سے جنسی تعلقات اور ایک بچے کا باپ ہونے کی نویداپنی تحریر کے ذریعے اُس کی آنکھوں سے گزار کر دل کو گھائل کرتا ہے۔

ذرا اپنے آپ کو اس کی جگہ رکھ کر تصور کریں کہ امنگوں اور آرزو ں سے بھری ایک دلکش لڑکی اپنی آنکھوں میں خواب سجائے یہ سب پڑھتے ہوئے کتنی دل برداشتہ ہوئی ہوگی۔ زمانہ بھی تقریباً سوا ڈیڑھ صدی پیچھے کا ہے جب روسی عورت اتنی آزاد بھی نہ تھی جتنی آج ہے۔پر حقیقت یہ ہے کہ آج کی ماڈرن عورت کو بھی اگر ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بھی صوفیہ ٹالسٹائی کی طرح روتی اور کرلاتی ہے۔
ورونیکا کھلکھلا کر ہنسی اس کے دانت گو سفید موتیوں جیسے نہ تھے مگر خفیف سی درزوں کے ساتھ ایک تناسب سے جڑے خوبصورت لگتے تھے۔
”من و عین یہی سین ٹالسٹائی اینا کرینینا میں دہراتا ہے۔جب چونتیس سالہ کونستیننConstantinاپنی انیس سالہ منگیتر کیٹی کو ڈائریاں دیتے ہوئے کہتا ہے۔
”انہیں پڑھ لینا میرے ماضی سے واقف ہوجاؤ گی۔“
اب دونوں میں ہلکی پھلکی سی نوک جھونک کا منظر پیداہوگیا تھا۔
”ایک نوخیز دلہن کے جذبات کا ذرا سوچو تو یہ کتنا سفاکانہ پہلو تھا کیا تم اِسے سراہو گی۔“
داشا نے قدرے نروٹھے پن سے ورونیکا کو گھورا اور بولی۔
صوفیہ اپنی ڈائری میں کیسے یاس بھرے انداز میں لکھتی ہے۔
”مجھے تو یوں محسوس ہوا تھاجیسے میرے اوپر کوئی بم پھٹا ہو۔ایک خوف میری رگوں میں سرایت کرنے لگاتھا کہ وہ کہیں دوبارہ اس کے پاس نہ چلاجائے۔

شادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی اس نے جو لکھا اُسے ذرا سنو۔
شادی جو جوانی کے خوبصورت اور محبت بھرے رومانس سے شروع ہوئی تھی۔اسمیں کچھ خوشی بھرے لمحے بھی آئے۔مگر ان کی مدت کتنی تھوڑی تھی۔جھگڑے بہت جلد شروع ہوگئے تھے۔
”وہ بہت سرد مہری کا سلوک کرتا تھا۔گھرسے نکلتا تو گھنٹوں واپس آنے کا نام نہ لیتا۔میں صبح،دوپہر اور شاموں میں اکیلی ہوتی۔مجھے محسوس ہوتا میں اس کے بچے کی نرس ہوں،گھر میں رکھے فرنیچر کا ایک ٹکڑا ہوں۔ سٹور میں پڑے سامان کا ایک حصّہ ہوں۔میں بے حدناکارہ اور کوئی فالتو چیز ہوں۔میں کتنی تنہا ہوں۔“
یہ تو پاگلوں جیسی باتیں کرتی ہے۔ عورتیں تو سدا ہی شوہروں سے شاکی رہتی ہیں۔ جس سے پوچھ لو وہ سو کیڑے نکالے گی اُن میں۔ زمانہ جس کی عظمتوں کا گواہ ہوا۔ میرا وہ پیرو مرشد، میرا راہبر، میرا محبوب لینن کلاسیک لٹریچر کا دیوانہ۔ کیا بتاؤں کہ وہ ٹالسٹائی کا کتنا بڑا مدّاح تھا؟ اُسے بار بار پڑھتا۔ لطف اٹھاتا اور اپنی نصف بہتر سے کہتا۔
”کر پسکا یورپ میں ٹالسٹائی کا مقابلہ کس سے کروگی؟“
اپنے ہاتھوں کو خوشی ومسرت سے مسلتے ہوئے وہ اپنے سوال کا جواب خود ہی دیتا۔
”کسی سے بھی نہیں۔ ارے کرپسکا یا کوئی بھی اُس جیسا نہیں۔“
داشا کی آواز بھرّا سی گئی تھی۔

وہ مزید اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہے۔
”میں ہمہ وقت حاملہ ہی رہتی تھی۔زندگی کتنی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔میں اکثر اپنے دل کو ٹٹولتی اور خود سے پوچھتی ہوں۔میں کیا چاہتی ہوں؟اور جو جواب آتا ہے وہ مجھے خوف زدہ کردیتا ہے۔میرا اندر رنگ رلیوں سے بھری زندگی کا متمنی ہے۔میں سمارٹ رہنا چاہتی ہوں۔لوگوں سے سُننا چاہتی ہوں کہ تم کتنی خوبصورت ہو۔پھرجیسے میں جھلّا جاتی ہو ں اور کہتی ہوں کہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے؟“
ورونیکا کچھ بولنا چاہتی تھی۔داشا نے اسے بھانپ لیا تھا۔اُسے ٹوکتے ہوئے بولی۔
”عورت کے نقطہ ء نظر سے اِن جملوں میں چھپا درد دیکھو۔

اس کی یاداشتوں کو لکھتے ہوئے میں ایک جملہ پڑھتی ہوں۔”دنیا میں محبت قسم کی کوئی چیز نہیں۔یہ صرف جسمانی ضرورت ہے۔جنسی تعلقات کیلئے ساتھی کی ضرورت بس۔اگر میں یہ چیزیں شادی سے پہلے کہیں پڑھ لیتی تو کبھی اس سے شادی نہ کرتی۔“
دوشا کو کیفے کے اندر سے کِسی نے آواز دی تھی وہ ابھی آئی کہتی ہوئی چلی گئی۔

”چلو ورونیکا تم ٹالسٹائی کی زندگی کے بارے کچھ بتاؤ۔“
نو ستمبر 1828ء میں روس کے صوبے طلا(Tula) میں اپنی ذاتی جاگیر یاسنا یا پولیانہ میں پیدا ہونے والایہ عظیم لکھاری چاربھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ماں شہزادی
نی(Nee) اُسے صرف دو سال کی عمر میں ہی چھوڑ کر دنیا سے چلی گئی۔اِن بچوں کی پرورش کی پہلی ذمہ داری ان کے باپ کاؤنٹ نکولائی ٹالسٹائی کی کزن نے اٹھائی۔جب وہ نو سال کا تھاتب باپ بھی رخصت ہوا۔ قانونی گارجین ان کی پھوپھی ٹہری۔مگرابھی تھوڑا سا ہی وقت گزرا تھا کہ اُسے بھی موت چھین کر لے گئی۔سارے بچوں کو کازان ایک اور خالہ کے پاس جانا پڑا۔
بچپن میں اِن انتہائی قریبی رشتوں کی پے در پے محرومیاں تھیں۔اس کا اندازہ اس کی یادداشتوں سے ہوتا ہے۔ابتدائی
تعلیم گھر پر ہوئی۔جرمن اور فرنچ استاد تھے۔سکولنگ میں احساس ہوا کہ وہ اچھا طالب علم نہیں ہے۔ہمیشہ معمولی نمبر لیتا۔کازان یونیورسٹی سے کوئی ڈگری یا ڈپلوما تک نہیں حاصل کرسکا۔اب کرنے کو کیا کام تھا؟باپ کی جاگیر پر آگیا۔کھیتی باڑی میں مصروف ہوا۔

رُوس میں اُس زمانے میں زرعی غلامانہ نظام رائج تھا۔اس نے کسان غلامی تحریک کو متحرک کیا اور اُس کا لیڈر بن گیا۔مگر وہ اسے بھی زیادہ فعال نہ کرسکا کہ آئے دن تو وہ ماسکو اور طُولا(Tula) بھاگا پھرتا۔تاہم ایک کام کا اس نے باقاعدہ آغاز کیا اور وہ اُس میں کامیاب ہوا اور اسی نے اُسے ناول نویسی کی طرف متحرک کیا۔یہ اُس کا روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔
ابھی وہ اپنی جاگیر پر ہی تھاجب اُس کا بھائی نکولائی Nokoleyاُسے ملنے آیا۔ وہ آرمی میں تھا۔اُس نے اُسے بھی آرمی جوائن کرنے کو کہا۔کاکیشیائی پہاڑوں کے قصے تفصیلات کے ساتھ اُسے سنائے۔
فوج میں اُس نے جنکر کے طور پر شمولیت کی اور یہی وہ مقام تھاجہاں اُس کی زندگی نے راہ بدلی۔وقت کی فراوانی تھی۔ اُس نے وقت گزاری کیلئے اپنے بچپن کی یادوں کو کہانی کے طور پر لکھنا شروع کیا۔پھر یہ اُس وقت کے پسندیدہ اور مقبول ترین روزنامہ”The Contemporary“میں چھپنے کیلئے بھیج دیا۔اور بس یہی مقام آغاز تھا کہ اسے پڑھنے والوں نے انتہائی پسندیدگی کا مرتبہ دیا تھا۔

یہ اہم بات تھی کہ یہ لکھنا جیسے عادت سی بن گئی۔جنگ کریمین(Crimean)کے دوران اُس نے لڑکپن”Boy hood“لکھی۔اور اُسی دوران اُس نے جنگ سے متعلق تضادات پر اپنے خیالات کا اظہار تین سریز پر مشتمل Seva stopl Talesکے عنوان سے کرتے ہوئے اُسے ایک نیا رنگ اور نیا اسلوب دیا۔
یہ سریز ایک سپاہی کے شعور و آگہی کی خوبصورت عکاس تھی۔جنگ ختم ہوئی۔اُس نے فوج کو خیرباد کہا اورروس آگیا۔
تیزی سے اُبھرتے مصنف کو پیٹرز برگ کے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔ضدی،ہٹیلے اور منہ زور سے ٹالسٹائی نے کسی بھی ادبی تنظیم سے وابستہ ہونے سے انکار کردیا۔ببانگ دہل اُس نے خود کو انارکسٹ کہا اور پیرس آگیا۔جو پیسہ ساتھ لایا تھاوہ جوئے کے شوق کی نظر ہوا۔جب جیب میں پھوٹی کوڑی نہ رہی تب گھر لوٹا۔
“Youth” جوانی نے 1857میں چھپ کر اس مثلث کو مکمل کردیاجو اُس کے بچپن،لڑکپن اور جوانی پر پھیلی ہوئی تھی۔وار اینڈ پیس کے بعد 1873میں اینا کرینینا اور 1986میں The Death of ivan llyich چھپے۔Resurrection اُس کا بے حد ضخیم ناول تھا۔1904میں ہادی مراد لکھا گیا جو اس کی موت کے بعد چھپا۔
داشا واپس آئی۔خوبصورت دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔
”اس کے فن پر قصیدے ابھی جاری ہیں۔“

”ہم تو تمہارے انتظار میں تھے کہ کب آؤ اور صوفیہ کی ڈائری کے چند ورق اُلٹو۔اور صوفیہ کی شان میں اس کی عظمتوں کے گیت گاؤ۔

”تو سُنیے پھر۔ میں ورق پلٹی ہوں۔“
میں اپنے شوہر کے لڑیری کام میں کتنی بڑی معاون تھی۔ اُس کا شاید اُسے احسا س ہی نہیں تھا۔” وار اینڈ پیس” کو میں نے دوتین بار نہیں سات بار لکھا۔یہ نہیں کہ اسکا کوئی حصّہ جس میں کہیں ترمیم یا کوئی اضافہ ہوا ہو۔بلکہ اول سے آخر تک لکھا۔اس کی تمام تر سفاکیوں کے باوجود، اُس کے رُلا دینے والے رویوں سے دل برداشتہ جہاں وہ مجھے مجبورکرتا کہ میں ہر بچے کو اپنا دودھ پلاؤں۔اس کیلئے سبزی کا سالن بھی خود بناؤں کیونکہ وہ ویجیٹرین تھا۔کام کے بوجھ نے مجھے بیمار کرڈالا تھا۔کمرکا دردمستقل رہنے لگا تھا۔نکسیر اکثر پھوٹی رہتی۔اور دانتوں کی تکالیف آئے دن مجھے رُلاتیں۔
مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان تکالیف کی شدت اس وقت بہت کم ہوجاتی ہے جب میں اُس کا لکھا ہوا پڑھتی اور اُسے لکھتی۔سچ تو یہ تھا کہ مجھے کوئی بھی چیز اتنی متاثر نہیں کرتی تھی جتنے اس کے خیالات اور اس کی ذہانت۔الفاظ جیسے کھلونوں کی طرح اُس کے ہاتھوں میں کھیلتے اور خیالات کسی آسمانی پھوار کی طرح اُس کے دماغ سے برستے۔

بہت سالوں بعدصوفیہ کی ایک اور تحریر ہماری آنکھوں کو بھگوتی ہے۔درمیانی عمر کی وہ عورت ابھی بھی بہت پرکشش تھی۔ڈھیروں بچوں کے باوجود اِس عورت نے اپنی ذات کو خود اذیت پرستی میں مبتلاکرلیا تھا۔گندی اور بے ہودہ کتابیں ڈُھنڈ ڈُھنڈکرلاتی اور انہیں پڑھتی۔گھنٹوں پیانو بجاتی رہتی۔ٹھنڈے پانیوں میں دیر تک پیراکی کرتی اور نوجوان کمپوزر سرگئی تانیرSergei Taneerسے گپ شپ کرتی۔

قدرتی بات تھی ٹالسٹائی کو شدید حسد محسوس ہوا تھا۔اُس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا۔
”میں خود کشی کرلوں گا اگر تم باز نہ آئیں۔“
اور اُسے نہ چاہنے کے باوجود اپنی اُن تمام سرگرمیوں کوختم کرنا پڑا جن سے وہ مسرت کشید کرنے لگی تھی۔
کاش اُسے نسائی نفسیات کی ذرہ سی بھی سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ یقینا میرے اندر پھیلے درد اور یاس بھرے جذبات کو سمجھتا۔
میں تو اپنے گھر میں ہی مہاجر ہوگئی تھی۔
ہم سب قدرے اُداس اور ملول سی فضا میں سانس لیتے تھے۔داشا پھر صوفیہ کا روپ دھارے بولتی چلی جارہی تھی۔
میں کھانا کھانے، سونے اور خاموش رہنے میں تو خودمختار تھی پر کسی ایسے کو پیار کرنے میں جس میں میری رضا اور خوشی شامل ہو آزاد نہیں تھی۔کبھی کِسی محفل میں جب لوگ یہ کہتے تم کتنی خوش قسمت عورت ہو۔تمہارا شوہر جینئس ہے۔کیا تم خوش اور شکر گزار نہیں ہو؟میرا اندرکبھی کبھی میرے چہرے پر رقم ہو جاتا تب میں حیرت بھرے جملے بھی سُنتی۔
”تم کتنی ناشکری عورت ہو۔“
اور جب میں بڑے بڑے لکھنے والوں کے تاثرات اور آرا ء پڑھتی جیسا کہ دوستووسکی نے کہا کہ یہ ایسا کمال کا کام ہے جس میں کوئی خلا نہیں، کوئی نقص نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ آرٹ کا شاہکار ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار ولادی میر نیبو وکووNabokovاور ولیم فولکر نرFaulknerنے کیا جن کے خیال میں وہ ایسا ناول ہے
جو شاید ہی کبھی لکھا گیا ہو۔ جادوئی اثر والا۔
تب میں عجیب سے احساسات کا شکار ہو جاتی۔ بہت دیر ایک تاسف اور دکھ کی سی کیفیت میں گم رہتی۔ پھر جیسے میرا اندر بلبلانے لگتا۔ میں خود سے باتیں کرتی۔
یہ ناشکری عورت اس کی سکریڑی تھی،پروف ریڈر،ایڈیٹر،ہاؤس کیپر،اس کی ایجنٹ اس کے سٹیٹ معاملات کی نگران،اُس کے تیرہ بچوں کو پیدا کرنے والی ماں اور ایک نرس۔

سچ تو یہ ہے کہ میں نے چالیس سال تک ایک جنیئس کی خدمت کی۔اپنی کتنی خواہشوں کا گلا گھونٹا اور اس نے کیا کیا؟وہ اپنی پرسکون،آرام دہ اور پرامن گھریلو زندگی کو 82سال کی عمر میں چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
صوفیہ اپنی ساٹھویں 60 کو مناتے ہوئے کہ جو عین اس دن تھی جب اُسے پروپوز کیا گیا تھا خود سے پوچھتی ہے کہ اُس نے اٹھارہ سالہ لڑکی کے ساتھ کیا کیا؟جس نے اپنی ساری زندگی اُسے دے دی۔اپنی محبت،اپنا اعتماد سبھی کچھ اسکے قدموں میں نچھاور کردیا اور میں نے کیا حاصل کیا؟اذیتیں،سرد مہری،ظلم۔
زندگی کی آخری دو دہائیوں میں اُس نے ایک اور مصیبت اپنے گلے میں ڈال لی تھی۔ایک کامیاب ناول نگار ہونے اور بے حد شہرت پانے کے باوجود وہ روحانیت کے جھنجھٹ میں پڑگیا اور اکثر بہت ڈپرس رہنے لگا۔” زندگی کیا ہے” اس کا مفہوم واضح کرنے کیلئے وہ آرتھوڈوکس گرجوں میں جانے لگا۔اسکا یقین پختہ ہوگیا کہ یہ سب خرابیوں کے اڈے ہیں۔اس نے اپنے خیالات اور عقائد کو لکھنا شروع کیا۔
1883 میں The Meditator چھپی اور ساتھ ہی اُس نے گورو کی سی حیثیت اختیار کرلی تھی۔اُس کے مداحوں کے تانتے تو پہلے ہی تھے اب عقیدت مندوں اور پیروکاروں کی قطاریں لگ گئیں۔اس نئے مشغلے کی دیکھ بھال کا بوجھ بھی صوفیہ کو ہی اٹھانا پڑا۔

انہی دنوں میں وہ لکھتی ہے۔میں خود سے پوچھتی ہوں کیا میں نے اپنے شوہر کو خوش نہیں کیا۔کبھی کبھی میرا جی اُسے قتل کرنے کو چاہتا ہے۔کبھی میں اپنے آپ کو قتل کرنے کا سوچتی ہوں۔
اس کی ایک اور بڑی ہی افسردہ تحریر دل کو ملول کرتی ہے۔
انقلاب،بالشویک انقلاب دروازوں پر دستک دے رہاہے۔قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہونے جیسی سرگوشیوں نے واضح صورت اختیار کرلی ہے۔ آئے دن دھمکیاں ملنا معمول بن گیا ہے۔ تاریخ ہر چیز کوتباہ کرنے پر تُلی نظر آتی ہے۔
اُف میں اپنی چار ہزار 4000 ایکٹر کی اسٹیٹ پرایک نظر ڈالتے ہوئے خود سے کہتی ہوں۔
”ہمیں یہاں رہتے ہوئے ہمیں نصف صدی گزر گئی ہے۔اِس طرزِ زندگی کی عادت سی ہوگئی ہے۔ہر روز ہم اکٹھے ہوتے ہیں۔میٹنگ ہونا معمول بن گیا ہے۔اس میں سوچ بچار ہوتی ہے کہ ہمیں اِس لوٹ مار سے خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے؟ میری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ہمارے گھوڑے،خیچر،بیل مزارعے سب طولا کی ہائی وے پر بھاگے چلے جارہے ہیں۔میری ہر وہ چیز لٹتی جارہی ہے جس سے مجھے پیار ہے۔جن کے ساتھ میرا وقت گزراجو میرے خوشی اور یاس کے دنوں کے ساتھی ہیں۔
موت بھی عجیب ڈرامائی انداز میں ہوئی۔
نمونیے  کا پرانا مریض تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ و اشتعال،بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا۔خودکشی کرنے کی خواہش بھی اکثر اندر سر اٹھاتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹالسٹائی کا ایک بااعتماد پیروکار ولددی میرchertkovسابق فوجی افسر ایک بڑا بیوروکریٹ اس کے ادبی معاملات کو ڈیل بھی کرتا تھا۔صوفیہ کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکتا تھا۔اس کے خیال میں وہ شیطان تھا۔اُسے دونوں کے درمیان جنسی تعلقات کا
بھی شبہ تھا۔
7نومبر 1910 کی سرد ہڈیوں میں گودا جماتی رات تھی۔جب بیاسی 82 سال کی عمر میں اُس نے ڈرامائی فیصلہ کیا۔اُس نے اُس عورت کو جو اس کے ہر دکھ درد میں اس کی ساتھی تھی کو بتانے کی تکلیف بھی گوارا نہ کی کہ اسکے دل میں کیا ہے؟
آدھی رات کو اُس نے کسی کو بتائے بغیر اپنا آرام دہ گھر اپنی اسٹیٹ چھوڑی۔چھتیس گھنٹے کے سفر کے بعد وہ شرمارڈینوSharmardino پہنچا۔یہاں اس کی بہن ماریا رہتی تھی۔یہیں کوئی ہٹ کرائے پر لے کر وہ بقیہ زندگی گزارنے کا متمنی تھا۔لیکن اُسے وہاں ٹکنانصیب نہ ہوا۔اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ کاکیشیا جانے کیلئے گاڑی میں سوار ہو۔اس کی کمزور صحت اسے برداشت نہ کرسکی۔Astaporoایک بہت چھوٹے سے
دورافتادہ سٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر نے اُس کیلئے اپنے گھر کے دروازے کھولے۔یہ بیس 20 نومبر تھا اور وقت ساڑھے چھ کا جب اُس نے دنیا کو الوداع کہا۔
ٍ اور میری آنکھیں گیلی تھیں۔داشا کی آنکھیں گیلی تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply