• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کارپوریٹ جمہوری کلچر اور پاکستان سے متعلقہ سوالات ۔۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

کارپوریٹ جمہوری کلچر اور پاکستان سے متعلقہ سوالات ۔۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

یہ خاکسار نفسیات کا ایک مبتدی طالب علم ہے۔ آج تک “ہم سب” کے لئے جو بھی گزارش کیا ہے وہ اپنے انتہائی محدود دائرہ علم میں رہتے ہوئے کیا ہے. آج جو کچھ گزارش کرنے جا رہا ہوں ہوسکتا ہے وہ بادی النظر (اس بدنام زمانہ لفظ کے استعمال پرمعذرت) میں نفسیات سے باہر کی بات لگے۔ اگر ایسا محسوس ہو تو پیشگی معذرت قبول فرمائیں لیکن اس طالب علم کے گمان میں آئندہ سطور میں ہونے والی گفتگو کا تعلق چاہے دور کا سہی مگر ہے نفسیات سے۔۔۔۔۔

اقتصادیات کے بارے میں میرا علم انتہائی واجبی ہے۔ صرف پڑھے لکھے احباب کی عالمانہ تحریروں کے ذریعے مجھے یہ علم ہے کہ دنیا میں اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ ہے۔ دو لفظ کثرت سے سننے میں آتے ہیں ایک کارپوریشن اور دوسرا مارکیٹ اکانومی۔ ان دونوں اصطلاحات کے معنی “ہم سب” پر لکھنے والے علماء سے پوچھیے. یہ بات بھی مجھے انہی دوستوں نے سمجھائی ہے کہ فی الوقت اس نظام کا کوئی بھی عملی نعم البدل موجود نہیں ہے۔ اس نظام میں موجود لچک اور باہر کی ہر ضروری چیز کو اپنے اندر سمو لینے کی بے پایاں صلاحیت نے اسے ناقابل شکست بنا دیا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ظالمانہ نظام ہے جس نے عام آدمی کی ایک ایک سانس پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود بھی اس سے مفر ممکن نہیں ہے اس طالب علم کو اس نظام کے نفسیاتی اثرات کا علم ایرک فرام، آر ڈی لینگ اور فرانز فینن جیسے ماہرین کی تحریروں سے ہوا تھا۔

ابھی حال ہی میں ہندوستانی ناولسٹ اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے موجودہ جمہوری نظام کو سرمایہ دارانہ نظام کا آلہ کار قرار دیتے ہوئے اسے حقیقی جمہوریت ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس جمہوریت میں عوام کی مرضی کو سرمایہ دار اپنے مفادات کے تحت موڑتے تروڑتے رہتے ہیں۔ معروف فلسفی اور دانشور نوم چومسکی کی مشہور اصطلاح Manufacturing Consent اسی تصور کی وضاحت کرتی ہے۔ مصیبت یہ ہوئی کہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح جمہوریت کا بھی تمام تر قباحتوں کے باوجود کوئی نعم البدل موجود نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں بادشاہتیں قائم ہیں وہ بھی بتدریج جمہوری نظام کی جانب مائل ہورہی ہیں۔ جس طرح سرمایہ دارانہ نظام سے اس کی قباحتوں کے باوجود فی الوقت چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جمہوریت میں موجود کوتاہیوں کے باوجود بھی اس سے بہتر کوئی اور نظام حکومت تاحال دریافت نہیں ہوا۔ پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلز پر گفتگو کرنے والے دفاعی تجزیہ نگار بھی جمہوریت ہی کو بہترین نظام قرار دیتے ہیں۔ چند ایک دانشور جو جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ان کے پاس بھی کسی اور متبادل نظام کا کوئی خاکہ موجود نہیں ہے

جس طرح دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت سے مفر ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں فوج کے کردار کو نظام حکومت سے نکالنا بھی قریباً ناممکن ہے۔ چاہے یہ بات اچھی لگے یا بری۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کار مملکت کا کوئی شعبہ فوج کی مداخلت سے محفوظ نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے یا غلط۔۔ اس کو فی الوقت گفتگو سے باہر رکھیے۔ اس وقت صرف اس حقیقت کا ادراک فرمائیے کہ خارجہ پالیسی سے لے کر تعلیم تک۔ دفاع سے لیکر صحت تک اور اب پراپرٹی اور کھیلوں سے لیکر ٹورازم تک ہر شعبے میں فوج ایک نمایاں کھلاڑی ہے۔ آپ کو سرمایہ دارانہ نظام اچھا نہیں لگتا۔ آپ کو جمہوریت میں موجود قباحتیں ناپسند ہیں۔ آپ کو اقتدار میں فوج کی شمولیت گراں گزرتی ہے۔ بالکل بجا۔۔ ان تمام باتوں کو اسی طرح کی ایک حقیقت ماننا پڑے گا جس طرح پاکستان میں رہنے والوں کو جون جولائی کا گرم موسم۔۔۔۔۔ جون جولائی کی گرمی کو برداشت کرنے سے انکار آپ کے لئے اس گرمی کو مشکل تو بنا سکتا ہے مگر اس گرمی کو ختم نہیں کر سکتا۔ آپ زیادہ سے زیادہ اس گرمی کے مضر اثرات سے بچنے اور اس کے فوائد ( مشروبات پھل مثلآ خربوزے, تربوز اور آم) سے لطف اٹھانے کا اہتمام تو کرسکتے ہیں مگر گرمی کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتے. اس مختصر سی تمہید کے بعد شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی حد تک تین چیزوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ایک سرمایہ دارانہ نظام (جس کو کارپوریشنز چلاتی ہیں) دوسرے جمہوریت (جسے سیاسی جماعتیں چلاتی ہیں) اور تیسری پاکستان فوج…

وہ سرمایہ دارانہ نظام جس کو دنیا میں کارپوریشنز چلاتی ہیں پاکستان میں اس کی صورت یوں مختلف ہوجاتی ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی کارپوریشن خود فوج ہے۔۔۔۔۔ اب اس تصویر کو مکمل کیجیے۔۔ پاکستان فوج ایک فوج کے طور پر بھی نظام ہائے حکومت میں دخیل ہے اور ملک کی سب سے بڑی کارپوریشن کے طور پر بھی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ موجودہ عالمی صورتحال میں فوج کے لیےفی الوقت براہ راست نظام حکومت چلانا شاید ممکن نہیں رہا۔

ذرا دنیا بھر کی جمہوریتوں پر نظر ڈالیے۔ امریکہ کا عراق میں جانا ابھی کل کی بات ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ فیصلہ کن بڑی کارپوریشنز کے ایما پر کیا گیا تھا۔ آزاد میڈیا نے عراق میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں کس کے کہنے پر جھوٹ بولا تھا۔ لندن، مانچسٹر، برمنگھم اور ایڈنبرا کی سڑکوں پر ملین افراد کے مظاہرے برطانوی پارلیمنٹ کے فیصلے تبدیل کروانے میں ناکام رہے تھے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ اتنے بڑے مظاہرے کرنے والی عوام نے امریکہ کے جارج بش برطانیہ کے ٹونی بلیئر اور آسٹریلیا کے جان اورآسٹریلیا کے جان ہاورڈ کو اگلی ٹرم کے لئے دوبارہ منتخب کرلیا تھا۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ 2002 میں جب ہندوستان اور پاکستان کی فوجیں سرحدوں پر ہتھیار بکف بیٹھی تھیں ایسے میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا اپنے امن مشن پر دونوں ملکوں کے دورے پر تشریف لائے تھے اور دونوں ملکوں کو کئی ملین پاؤنڈز کے ہتھیار بیچ کر لوٹے تھے۔ یہ ان کا امن مشن تھا۔۔۔۔۔۔ کیا یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ سودے انہوں نے وزیر خارجہ کے طور پر کیے یا اسلحہ ساز فیکٹریوں کے ایجنٹ کے طور پر۔۔۔۔۔۔

جارج گیلوے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن عراقی سفارت خانے میں صدام حسین کے لوگوں سے اسلحے کی فروخت کے معاہدے کر رہے ہوتے تھے جب وہ عراق ایران جنگ کے زمانے میں عراقی سفارت خانے کے باہر ہونے والے مظاہروں میں شریک ہوتے تھے۔ امریکہ کے سابق نائب صدر ڈک چینی اور سابق وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے اپنے عرصہ اقتدار میں کن کارپوریشنز کے مفادات کا خیال رکھا ان سب کا دوبارہ بیان تضیع اوقات ہوگا۔ عراق میں اٹھائیس لاکھ افراد کی زندگیوں کی قیمت پر کن کارپوریشنز نے کتنا منافع کمایا وہ آج سب کے علم میں ہے۔۔۔ گزارش صرف یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ کارپوریشنز کے اس سارے کھیل میں جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے سیاستدانوں نے ان کے ایجنٹ سے زیادہ کوئی اور کردار ادا نہیں کیا۔

جمہوریت کی اس قباحت پر نظر ڈالنے کے بعد ذرا مغربی ممالک میں رہ کر دیکھئے۔ یہاں کے باشندے گو ان کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہوتا ہے مگر بظاہر ایک خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔۔ تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات ان کو عموما ضرورت کے مطابق ملتی ہیں۔ ہمارے ہاں ہر آدمی ان کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی مثالیں دیتا نہیں تھکتا۔ صاحبان زر تعلیم اور علاج کے لئے مغرب کا رخ کرتے ہیں۔ مغرب کے کسی بھی ملک کے پاسپورٹ کا حصول ایک خواب ہے جو شاید ہمارے ملک کا ہر باشندہ دیکھتا ہے۔ انتہائی ظالمانہ نظام میں رہنے والے لوگ اتنے خوش حال کیسے رہتے ہیں؟ یہ سب کیسے ممکن ہوا ہے؟ کارپوریشنز نے ان ممالک میں ایک خاص جمہوری کلچر پیدا کیا ہے جس کا بنیادی مقصد وہی ہے جو بائیں بازو کے ہمارے دوست بیان کرتے ہیں اور وہ مقصد ہے عوام کے غصے اور بے اطمینانی کو کم سے کم سطح پر رکھنا. (دیکھیے میں اپنے مضمون یعنی نفسیات سے متصل ہو گیا) عوام کے غصے اور بے اطمینانی کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لئے کارپوریشن نے جمہوری اداروں کی مدد سے چند اہم کام کیے ہیں

عام آدمی کو یہ احساس دلایا کہ حکومت کا انتخاب اس کا حق ہے. اس کا ووٹ تبدیلی لاتا ہے اور حق حکمرانی صرف اکثریتی رائے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مذہب ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے. ایک کا عقیدہ دوسرے کے لئے سند نہیں ہے.
قانون کی عمل داری حکومت کا فریضہ ہے۔
قانون سازی پارلیمان کا استحقاق ہے۔
ملک میں رہنے والے تمام شہری برابر کے حقوق رکھتے ہیں.
اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ خواہ یہ کسی بھی موضوع پر ہو۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا نقاد نوم چونسکی امریکی یونیورسٹی کا ایک استاد ہے۔
ان معاشروں نے گزشتہ 50 سالوں میں کوئی بڑا لیڈر پیدا نہیں کیا سیاستدان مختلف منصب پر کچھ عرصہ سرفراز رہنے کے بعد ایسے غائب ہوتے ہیں کہ ان کا نام بھی سننے میں نہیں آتا. کوئی بتا سکتا ہے کہ برطانوی وزراء اعظم جان میجر, گورڈن براؤن, اور ڈیوڈ کیمرون آج کل کہاں ہیں؟ آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر کے بارے میں اطلاع ان کی وفات پر آئی تھی۔

گفتگو کو واپس ملک میں لے کر آئیے۔ پاکستان کے عام آدمی کی ترقی کے لئے اس وقت کوئی اور ماڈل ممکن نہیں ہے سوائے اس کے کہ جس کا تجربہ مغرب میں کامیاب ہوچکا۔ (یہ نتیجہ اخذ کرنا بالکل غلط ہوگا کہ یہ طالب علم اس نظام کے حق میں ہے) ہمیں بھی بعینہٖ وہی کام کرنے پڑیں گے جو پس پردہ رہ کر مغرب میں کارپوریشنز نے کیے۔ یہ بات ہم بیان کر چکے کہ پاکستان کی سب سے بڑی کارپوریشن پاک فوج ہے۔ یہ ذمہ داری پاک فوج کی ہے کہ وہ اوپر بیان کردہ امور کی نگرانی کرتی ہے یا نہیں۔ فی الوقت اس طالب علم کی رائے میں سب سے بڑا مسئلہ پاک فوج کے لئے اپنے کردار کے تعین کا ہے اور وہ یہ کہ کیا وہ ملک کو ایک سکیورٹی سٹیٹ سے فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے پر آمادہ ہے یا نہیں۔ کیا وہ خود کو ایک لڑنے والی فوج سے ایک کارپوریشن میں تبدیل کر سکتی ہے یا نہیں۔۔ پاکستان فوج معاملات میں اپنے عمل دخل کو دھونس کے ساتھ چلانا چاہتی ہے یا مغربی کارپوریشنز کی طرح یعنی سیاستدانوں کے ذریعے۔۔۔ کیا وہ مذہب، مذہبی اداروں اور شخصیتوں کو ایسے ہی استعمال کرنا چاہتی ہے جیسے آج کر رہی ہے یا مذھب سے ماورا جاکر منافع کمانے کو ترجیح دینا چاہتی ہے۔ کیا وہ اپنے دفاعی تجزیہ نگاروں کے ذریعے فوج کے سیاست میں عمل دخل کو برحق اور اپنی تمام غلطیوں کا ملبہ سیاستدانوں پر ڈال کر ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے سامنے آنا چاہتی ہے۔ اور کبھی ایک اور کبھی دوسرے سیاستدان سے ساز باز کرکے دوسرے کے بازو مروڑ نے کا کام کرنا چاہتی ہے۔ یا یہ کام سیاستدانوں کے لئے چھوڑ کر ایک کارپوریشن کے طور پر اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس اجمال کی تفصیل میں بے پناہ سوالات چھپے ہیں اور غالباَ یہ سوال آج جتنے اہم ہیں آج سے پہلے کبھی نہ تھ

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply