رمضان سر پر ہے لہٰذا اِس کی تیاریاں بھی پورے عروج پر ہیں۔ جن لوگوں نے روزے رکھنے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ اس بات کی تیاری کر رہے ہیں کہ کھجوریں‘ بیسن اور بھلّیاں پہلے سے خرید لی جائیں اور جنہوں نے روزے نہیں رکھنے وہ اِس بات کے لیے فکر مند ہیں کہ سالن تو فریج سے مل ہی جائے گا‘ روٹیاں کہاں سے لگوائیں؟ رمضان میں 90 فیصد بیگمات کا سب سے پہلا اعتراض یہی ہوتا ہے کہ کچن میں اگر کچھ بنایا تو ساتھ والوں کے گھر سالن کی مہک جائے گی اور شک پڑ جائے گا کہ ہم لوگ روزے سے نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمسائے سے بے شک دوپہر ڈیڑھ بجے ہی بھنڈیوں کے تڑکے کی مہک آنا شروع ہو جائے۔ میرے دوست ‘اچھو بیکولائٹ‘ نے چونکہ روزے نہیں رکھنے ہوتے لہٰذا رمضان سے پہلے ہی تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتا ہے۔ اچھو کی بیوی پورے روزے رکھتی ہے لہٰذا اچھو کو پتا ہے کہ کھانا نہیں ملے گا تاہم اِس کا حل اُس نے پچھلے رمضان میں ہی نکال لیا تھا۔ سحری کے وقت ہی بیگم سے دو تگڑے پراٹھے بنوا لیتا اور لپیٹ کے رکھ دیتا۔ صبح سالن میں لپیٹ کر پراٹھے ساتھ دکان پر لے جاتا اور وہاں لنچ کے طور پر استعمال کر لیتا۔ میرا خیال تھا کہ اب کی بار بھی وہ ایسا ہی کرے گا لیکن پتا چلا کہ اب اس نے ٹھنڈے پراٹھوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے گرم روٹی کا انتظام کیا ہے۔ تفصیل پوچھی تو کہنے لگا ”میں نے روٹیاں بنانی سیکھ لی ہیں اور دکان پر ایک گیس والا چولہا بھی رکھ لیا ہے… کھانے کا انتظام بھی ہو جائے گا اور بہترین کمائی بھی ہو جائے گی‘‘۔ میں چونکا ”کمائی کیسے ہو گی؟‘‘۔ اُس نے قہقہہ لگایا ”بھائی صاحب! میں نے اپنی دکان کے ارد گرد کے علاقوں کے تمام روزہ خوروں کا واٹس ایپ گروپ بنا کر میسج کر دیا ہے کہ دوپہر تین بجے مبلغ پندرہ روپے میں تازہ روٹی میری دکان کی عقبی سمت میں دستیاب ہو گی … ایڈوانس بکنگ جاری ہے‘‘۔
یہ جو اکثر سموسے پکوڑے تین بجے ہی لگنے شروع ہو جاتے ہیں اِن کے زیادہ تر گاہک بھی روزہ خور ہی ہوتے ہیں‘ ورنہ روزے دار تو عموماً روزہ کھلے سے دس پندرہ منٹ پہلے یہ چیزیں خریدتے ہیں۔ روزہ خوروں کی بڑی نشانی یہ ہے کہ افطاری بھی کر رہے ہوں تو ایسے ہشاش بشاش ہوتے ہیں گویا سحری کر رہے ہیں۔ ‘اچھو بیکولائٹ‘ کہتا ہے کہ ” فی الوقت جو شخص سخت گرمی میں بھی نہایت تمیز سے بات کرے اور افطاری کے وقت اِشارے پر رُکے اُس کے بارے میں گمان رکھنا چاہیے کہ یقینا روزہ خور ہے‘‘۔ آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو رمضان میں کسی قریب کھڑے شخص سے بات کرتے وقت اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں‘ یقینا اِن میں سے کئی روزے سے بھی ہوتے ہوں گے لیکن کئی آلو انڈے کی خوشبو بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ روزہ خور عین افطاری کے وقت مسجد میں ہوتے ہیں اور جماعت کھڑی ہونے تک باہر کھسک جاتے ہیں۔ یہ افطاری میں شربت کی بجائے تین سموسے اکٹھے اٹھاتے ہیں۔ یہ بار بار فریج سے پانی کی بوتل نکال کر منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے جاتے ہیں۔ افطاری سے ایک گھنٹہ پہلے تک یہ نہایت اطمینان سے سڑک پر کھڑے کوئی اشتہار پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اِنہیں کہیں نہ بھی جانا ہو پھر بھی دن میں ایک چکر ریلوے سٹیشن ‘ ہسپتال یا لاری اڈے کا ضرور لگاتے ہیں۔ یہ صرف مغرب کے وقت مسجد میں نظر آتے ہیں۔ یہ اپنے کولیگز سے بار بار کہتے نظر آتے ہیں ”یار اگر روزہ نہیں رکھا تو کچھ کھا پی لو‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔ ایسے لوگوں کی اکثریت دن میں دو تین دفعہ دفتر کی چھت یا کسی ایسے کونے کا ضرور وزٹ کرتی ہے جہاں عام حالات میں کوئی نہیں جاتا۔ یہ پہلے روزے سے ہی پوچھنا شروع ہو جاتے ہیں ”باقی کتنے رہ گئے؟‘‘۔ یہ دفتر میں بات بات پر قہقہہ لگاتے ہیں۔ اِن سے اگر پوچھا جائے کہ ‘روزہ ہے؟‘ تو ازلی جواب دیتے ہیں ”ہاں بھئی روزہ تو ہے‘‘۔ لیکن اگر کوئی واضح پوچھ لے کہ ”بھائی جی آپ کا روزہ ہے؟‘‘۔ تو انتہائی انکساری سے 10 پرسنٹ مسکرا کر نقاہت بھرے انداز میں آگے نکل جاتے ہیں۔ افطاری کے وقت سب سے پہلے اِن کی آواز بلند ہوتی ہے ”میراخیال ہے روزہ کھول لینا چاہیے ٹائم تو ہو گیا ہے‘‘۔
یہ لوگ سارا دن اپنے ڈکار کو ہچکی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر تپتی دوپہر میں چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں اور سگریٹ والی دکانوں کو غور سے دیکھتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اِن کے لیپ ٹاپ کے بیگ میں بُرے وقت کے لیے ایک سیب ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ چونکہ یہ روزہ خور ہوتے ہیں لہٰذا کئی دفعہ جب اِنہیں کوئی افطار پارٹی پر بلاتا ہے تو یہ بے دھیانی میں پوچھ بیٹھتے ہیں ”کتنے بجے ہو گی؟‘‘۔ دفتر میں نماز کا وقت ہو جائے اور سارا سٹاف نماز کے لیے جمع ہو تو اکثر یہ لوگ دفتر میں موجود ہونے کے باوجود نماز میں تین چار منٹ بعد شریک ہوتے ہیں۔ یہ اکثر دفتر کے کچن میں وضو کرنے جاتے ہیں اور کھانے کے لیے اور کچھ نہ ملے تو خشک دودھ کے ڈبے سے دو چار چمچ پھانک آتے ہیں۔ یہ روزہ نہیں رکھتے اس کے باوجود اِنہیں سب سے زیادہ روزہ لگتا ہے۔ اِن کا پسندیدہ لباس پینٹ شرٹ ہوتا ہے لیکن رمضان میں یہ تین جیبوں والی شلوار قمیض پہننا شروع کر دیتے ہیں۔ اِن کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اتوار کے روز اِن کی بیگم اور بچے اپنی نانی کی طرف چلے جائیں۔ یہ سفر میں ہوں اور بس کسی سٹاپ پر رُکے تو یہ سب سے پہلے پردے والا ہوٹل ڈھونڈتے ہیں اور اندر گھستے ہی لیگ پیس کا آرڈر کرتے ہیں۔ اِنہیں افطاری کے فوراً بعد برگر کی طلب ہونے لگتی ہے۔ یہ اکثر پانی کی بوتل اپنے نیفے میں اُڑس لیتے ہیں اور چھ سات سٹرا جوڑ کر اُن کا سِرا گریبان کے قریب سے نکال لیتے ہیں اور وقفے وقفے سے نڈھال ہو کر یوں سر جھکا لیتے ہیں گویا بے حال ہو گئے ہوں۔ رمضان میں اِن کے دل میں اچانک غیر مسلموں کے لیے محبت جاگ اٹھتی ہے۔ یہ دفتر کے ملازم کو دوپہر ایک بجے سے کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ”یار افطاری کے وقت رش ہو جاتا ہے ذرا بازار کا چکر لگا لو… اور دہی بڑے لگنا شروع ہو گئے ہوں تو ایک پلیٹ پیک کروا لینا‘‘۔
اِنہیں کھانے کا اور کوئی بہانہ نہ مل رہا ہو تو سب کے سامنے نمکو کھانا شروع کر دیتے ہیں‘ کوئی توجہ دلائے تو ”اخ تھو‘‘ کہتے ہوئے یوں واش روم کی طرف دوڑتے ہیں گویا انجانے میں تین پیکٹ کھا گئے ہوں۔ یہ اپنا حلیہ پورا روزے داروں والا بنائے رکھتے ہیں… یعنی بڑھی ہوئی شیو‘ شکل پر تھکاوٹ‘ لبوں پر پیاس اور سر پر باریک سوراخوں والی سفید ٹوپی… لیکن اس کے باوجود یہ پکڑے اُس وقت جاتے ہیں جب اِن کی ڈسٹ بن سے ‘کپ کیک‘ کے ریپر اور سگریٹ کے ٹوٹے برآمد ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر موٹر سائیکل والے ہوں تو ہیلمٹ کی صورت میں اِنہیں اور بھی آسرا مل جاتا ہے۔ کالا شیشہ منہ کے آگے کرتے ہیں اور جیب سے اکٹھے دو دو بسکٹ نکال کر کوٹہ پورا کیے رکھتے ہیں۔ ایک بھی روزہ نہ رکھنے کے باوجود اِن کے نخرے دیکھنے والے ہوتے ہیں‘ جوتی ٹوٹی ہو تو موچی کے پاس جانے کا پروگرام بھی رمضان کے بعد کا رکھتے ہیں۔ روزہ خوروں کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو گی کہ یہ لوگ عین افطاری کے وقت بھی فیس بک پر رمضان کے حوالے سے کوئی بابرکت پوسٹ شیئر کر رہے ہوتے ہیں…!!!
Facebook Comments
جناب۔۔۔ یہ روزہ خوروں کی نشانیوں ہیں یا روزہ خوروں کی پریشانیاں
حسب سابق اعلی تحریر ہے۔