• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بیت المقدس میں ٹرمپ کا آگ سے کھیل۔۔۔احمد کاظم زادہ

بیت المقدس میں ٹرمپ کا آگ سے کھیل۔۔۔احمد کاظم زادہ

مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر کی دنیا سے سامنے آنے والی شدید مخالفت اور اعتراض کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر 14 مئی کے روز جو فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ قبضے کی 70 ویں سالگرہ ہے، امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے پر بضد دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ چند ماہ سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے کا عندیہ دے رکھا تھا۔ اعلان شدہ پروگرام کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اعلی سطحی امریکی وفد کے ہمراہ کل مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرنا ہے اور اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقلی کیلئے منعقد ہونے والے خصوصی پروگرام میں شرکت کرنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام ان کے دیگر بہت سے اقدامات کی طرح عالمی اصولوں اور قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں، امن معاہدوں اور نیز امریکی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کئے جانے کے حتمی فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ امریکی حکومت درحقیقت تل ابیب پر حکمفرما جنگ طلب عناصر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی نظام خاص طور پر مغربی ایشیا کو انتشار اور انارکی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیر قانونی اقدام کے غیر متوقع نتائج اور اثرات کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اگرچہ مقبوضہ فلسطین پر صہیونی رژیم کے غاصبانہ قبضے کے بعد امریکہ نے ہمیشہ اس غاصب صہیونی رژیم کی حمایت اور پشت پناہی کی ہے لیکن بیت المقدس جیسے حساس ایشو پر سابقہ امریکی حکومتیں احتیاط کرتی آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عشرے پہلے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے پر مبنی بل کی منظوری کے باوجود سابقہ امریکی صدور اس پر عملدرآمد کرنے سے کتراتے آئے ہیں اور اس فیصلے کو ملتوی کرتے آئے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو امریکی حکام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ اتنے عشروں تک اس سرزمین پر اپنا ناجائز قبضہ جاری رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ امریکہ نے غاصب صہیونی رژیم کی تشکیل سے لے کر اب تک اسے ہر قسم کی اخلاقی، مالی، فوجی اور سیاسی مدد فراہم کی ہے۔ لہذا فلسطینی عوام، اسلامی ممالک اور مسلمانان عالم قدس شریف پر ناجائز قبضے کیلئے انجام پانے والی صہیونی رژیم کی کوششوں کی براہ راست ذمہ داری امریکی حکومت پر عائد کریں گے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بھی ایک عرصے سے یہی سازش تیار کر رہی تھی کہ امریکہ اور چند عرب حکومتوں کو آگے لگا کر اپنے پست عزائم کی ذمہ داری ان کی گردن پر ڈال دے۔ ان عرب حکومتوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی حکومتیں سرفہرست ہیں۔ سعودی، اماراتی اور بحرینی حکام نے اعلانیہ طور پر امریکی سفاتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے کے غیر قانونی فیصلے کی حمایت کی ہے اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والے پروگرام میں ان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ان کا یہ اقدام مظلوم فلسطینی قوم کی پشت میں خجنر گھونپنے اور قبلہ اول سے غداری کے مترادف ہے۔

جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے پر مبنی فیصلے پر سنجیدگی کا اظہار کرنا شروع کیا اور واشنگٹن، تل ابیب، ریاض اور ابوظہبی کے منحوس اتحاد نے “ڈیل آف دی سینچری” نامی معاہدے سے پردہ اٹھایا ہے، فلسطین مہاجرین نے حق واپسی کے عنوان سے شدید احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ گذشتہ چند ماہ سے جاری ان مظاہروں کے دوران غاصب صہیونی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ اور شیلنگ سے اب تک پچاس فلسطینی شہید جبکہ دس ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے منحوس حکام کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم کی ہمراہی فلسطینیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ایک تاریخی غداری محسوب ہوتی ہے جو ہر گز فراموش نہیں کی جائے گی۔

مقبوضہ فلسطین اور قدس شریف کے خلاف اس تازہ ترین سازش میں شریک ممالک کی تعداد انتہائی محدود ہے جو بذات خود اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمانان عالم کے دل میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ دوسری طرف مسئلہ فلسطین کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں ہر مسلمان کا دل قدس شریف اور مظلوم فلسطینی عوام کیلئے دھڑکتا ہے۔ اب مسلمانان عالم کا یہ دینی فریضہ بنتا ہے کہ وہ فلسطین کی دشمن قوتوں اور حکومتوں کے خلاف عملی اقدامات انجام دیں۔ اس بنیاد پر اسلامی دنیا میں امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ شروع ہو جانا چاہئے اور یہ مہم اتنی عروج تک پہنچ جانی چاہئے کہ اسلام دشمن قوتوں کیلئے عبرت کا باعث بن جائے۔ اے مسلمانو، اب قدس شریف کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ آج کے بعد اسلام کی حقیقی حامی قوتوں اور حکومتوں کی پہچان بھی ہونا شروع ہو جائے گی اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانان عالم میں اختلافات اور تفرقہ ڈالنے والی قوتوں اور حکومتوں کے چہرے بھی عیاں ہونا شروع ہو جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply