منشیات اور ہماری اجتماعی غفلت۔۔۔فضل رحیم آفریدی

دنیا میں آج کل ہر طرف منشیات کی بھر مار ہے۔ آج ہر سمگلر چند ٹکوں کی خاطر نوجوان نسل کو دائمی تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے اور اس جرم میں رہی سہی کسر قانون کی وردی میں ملبوس ان کالی بھیڑوں نے پوری کر رکھی ہے جو ان درندہ صفت سمگلروں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے ایک قدیم معروف اخبار “دی ٹیلی گراف” (The Telegraph ) سے وابستہ  صحافی ڈیوڈ براون کی مارچ  2014 میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پوری دنیا میں ہیروئن کے عادی افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا جبکہ خیبر پختونخوا کی %11 فیصد آبادی ہیروئن استعمال کے اس مکروہ فعل میں مبتلا تھی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریبا 2 بلین ڈالر کی منشیات  سمگل  کی جاتی ہے جبکہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی %75 فیصد ہیروئن کو افغانستان سےدوسرے ملکوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔

منشیات کا استعمال ایک ایسی عادت ہے جو انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو مفلوج کرکے اس کو احساس کمتری ، ڈپریشن (Depression) اور دیگر امراض میں مبتلا کر دیتی ہے۔ منشیات کا استعمال نہ صرف جسمانی امراض کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ یہ انسان کے روحانی سکون کو چھین کر اس کی زندگی اجیرن کردیتا ہے۔  ایک ایسا ناسور ہے جو اپنے عادی کو ذلت و رسوائی، غربت و افلاس، ذہنی و جسمانی بیماریوں، نفرت و کدورت اور احساس کمتری میں مبتلا کرکے اس کی دنیا اور آخرت کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔ اس کا استعمال انسان کو زندگی کی تمام خوشیوں ، رونقوں اور پرمسرت حسین لمحات سے محروم کرکے بے بسی، لاچاری، دکھ، درد، غم اور مصیبت سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ نشہ انسان کو تعصب، دشمنی اور قتل و غارت جیسے قبیح گناہوں پر آمادہ کرکے  انسانیت کے دائرے سے نکال کر حیوانیت کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح کھا کر قوم کی ترقی اور روشن مستقبل کو پامال کرتا ہے۔

اسلام میں ہر نشہ  آور چیز کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ منشیات کا استعمال نہ صرف انسان کے  نفسیاتی نظام کو مفلوج کرتا ہے بلکہ یہ جسمانی صحت کی تباہی کا ذریعہ بھی بنتا ہے جبکہ منشیات کا عادی سب حقائق جانتے ہوئے بھی تباہی کی اس منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔

منشیات کے نقصانات سے تو ہم سب واقف ہیں یہاں تک کہ خود منشیات کے عادی افراد کا بھی اسی بات پر اتفاق ہے کہ یہ ہماری  دنیا و آخرت کی بربادی کا باعث ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت معاشرے کے ایک رکن اس کو کس انداز میں دیکھ رہے ہیں اور کیوں ہم مستقبل کے ان پھولوں کے مرجھانے کا انتظار کررہے ہیں؟ ہم کیوں اپنی اجتماعی معاشرتی ذمہ داریوں کو چھوڑ انفرادی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں؟ حالانکہ اگر غور سے تجزیہ کیا جائے تو ہمارے زیادہ تر انفرادی مسائل ہی ہماری اجتماعی معاشرتی ذمہ داریوں میں غفلت کی پیداوار ہیں۔۔

“فطرت   افراد  سے ا غماض بھی کرلیتی ہے”
“کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف”

علامہ اقبال  اس شعر میں فرماتے ہیں کہ خدا بھی اکثر اوقات ہمارے انفرادی گناہوں کی پردہ پوشی اور اس پر درگزر فرماتے ہیں لیکن وہ کبھی اجتماعی گناہوں کو معاف نہیں کرتے۔ آج اگر دیکھا جائے تو ہر فرد انفرادیت اور مادہ پرستی کی زنجیروں میں جکڑا کر اجتماعیت، انسانیت اور ایثار کے تصور کو پامال کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے قریب معاشرے میں لگی ہوئی اس آگ کو دیکھنے سے قاصر ہیں جو کسی بھی وقت ہماری ہنستی مسکراتی زندگی کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتی ہے۔ آج ہم اسی اجتماعی گناہ کے مرتکب ہیں جس کا اقبال نے ذکر فرمایا۔ اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو موجودہ دور میں آپ کو بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سماجی برائیوں کیخلاف جہاد کیا اور معاشرتی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔

ہمیں چاہئے کہ ہم انفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاشرتی مسائل کے حل کیلئے بھی تگ ودو کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس معاشرے کے لوگوں نے اجتماعی معاشرتی برائیوں کو سنجیدگی سے لیکر اس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اصلاح کا بیڑا اٹھایا تو اللہ تعالی نے ان کی ذاتی اور انفرادی زندگی کو معاشرے کے برے اثرات سے بچایا۔ ہر فرد کے ذمہ  واجب ہے کہ وہ حتی الاستطاعت ستارہ بن کر ملت کے مقدر کو روشن کرنے میں اپنا کردار نبھائے اور معاشرے میں مثبت سوچ کو فروغ دیکر اس کو امن اورمحبت کا گہوارہ بنائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر”
” ہر  فرد  ہے  ملت    کے      مقدر     کا ستارہ”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply