• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاسی گندے انڈوں کی ٹوکری اور بھٹو کا ٹھڈا۔۔ارشد بٹ

سیاسی گندے انڈوں کی ٹوکری اور بھٹو کا ٹھڈا۔۔ارشد بٹ

شہید بھٹو نے کٹھ پتلی سیاستدانوں کے بارے میں کہا تھا سیاسی گندے انڈوں کی ٹوکری ایک عوامی ٹھڈے کی مار ہوتی ہے۔ پھر بھٹو نے 1970 کے الیکشن میں سیاسی بالشتیوں، مذہبی نعرہ بازوں اور استحصالی طبقوں کے نمائندہ سیاسی بتوں کو عوامی ٹھوکر سے پاش پاش کر دیا۔
بقول شخصے آج نہ جانے کس کے خفیہ اشارے پر سیاسی گندے انڈے جوق در جوق “انصافی پٹاری” میں اکھٹے ہونے لگے ہیں۔ اقتدار کے سہانے سپنے دکھا کر ادھر ادھر سے بھان متی کا کنبہ جوڑا جا رہا ہے۔ نسل در نسل انگریزوں اور آمریتوں کے اشارے پر ناچنے والی سیاسی کٹھ پتلیوں نے ہمیشہ جمہوری اور سول بالادستی کے خلاف آمروں اور غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کیے۔جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے بوٹ پالشیے ماضی کے نام نہاد سیاستدان یا ان کی موجودہ نسلیں “انصافی پٹاری” کا پیٹ بھرنے جارہے ہیں۔ ان سب میں ایک چہرہ بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جو یہ دعویٰ سے کہہ سکے کہ اس نے آمرانہ حکومتوں کے خلاف جمہوری جدوجہد میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔
کپتان حقیقی تبدیلی لے آئے کہ چند چہروں کو چھوڑ کر جنرل مشرف کی ٹیم ق لیگ کو انصافی لبادہ اوڑھا دیا۔ زرداری کا ساتھ دو تو لٹیرے کہلاؤ، کپتان کا نعرہ بلند کیا تو زم زم کے نہلائے نیک و پاک بن جاؤ۔ کپتان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ نام نہاد الیکٹیبلز دھڑا دھڑ پی ٹی آئی میں شامل ہو کر کپتان کو ناقابل شکست بنا رہے ہیں۔ اب کپتان کو وزارت عظیٰ کا حصول بائیں ہاتھ کا کھیل معلوم ہونے لگا ہے۔
پنجاب کا پانی پت کپتان کی امیدوں کا مرکز اور فصلی بٹیروں کا محاذ کپتان کے لئے امید کی تازہ کرن۔ کپتان کرشماتی ہاتھوں سے گندے انڈوں میں جان ڈالو کر ان سے برائلر چوزے نکالنا چاہتے ہیں۔
نام نہاد الیکٹیبلز اور سیاسی گندے انڈوں سے کتنے برائلر چوزے برآمد ہوں گے اس کا جائزہ تاریخی حقائق کی روشنی میں لینا چاہیے۔ آمریت کو سیاسی چہرہ دینے کے لئے جنرل مشرف نے بڑے جتن سے ق لیگ کی کھچڑی پکائی اور 2002
میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔ ریاستی اقتدار اور اداروں پر بلا شرکت غیرے مکمل کنٹرول رکھنے والے آمر جنرل مشرف کو یقین تھا کہ الیکشن میں ق لیگ کا کلین سویپ اسکی انگلی کی ایک جنبش کا مرہون منت ہے۔ الیکٹیبلز کی فوج ظفر موج الیکشن میں جھونکنے، تمام تر ریاستی  ذرائع اور اثرونفو ذ استعمال کرنے کے باوجود ق لیگ اور اس کے اتحادی اتنی نشستیں حاصل نہ کر سکے کہ وہ وفاقی حکومت تشکیل کر پاتے۔ جنرل مشرف نے اقتدار کے بھوکے موقع  پرستوں کے ایک ٹولے کو ڈرا دھمکا اور اقتدرا کا لالچ دے کر پیپلز پارٹی سے توڑا۔ پی پی پی پیٹریاٹ کو جنم دیا اور تب جا کر جمالی پٹھو حکومت معروض وجود میں  لائی جا سکی۔ یاد رہے کہ 2002 کے الیکشن، بے شہید نظیر بھٹو اور نواز شریف کی غیر موجودگی میں منعقد کرائے گئے تھے۔
اب سندھ میں بلاول دندنا رہا ہے اور کپتان کو ادھر کا رخ کرتے ہوئے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ کراچی میں پاؤںرکھنے  کو جگہ نہیں مل رہی۔ کراچی میں 12 مئی کے ناکام جلسے کے بعد پی ٹی آئی نے 27 مئی کو نیا جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کرکے بلاول کو چیلنج کر دیا۔ پنجاب کے میدانوں میں نواز شریف بھاگ دوڑ کر رہے ہیں بلکہ مریم نواز پنجاب میں بڑے بڑے الیکٹیبلز کے لئے چیلنج بنتی جا رہی ہیں۔ جبکہ شہباز شریف کی پھرتیاں اپنی جگہ پر۔ مبصرین کے مطابق جنوبی پنجاب میں پی پی پی اور بلاول کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو جنوبی پنجاب محاذ کپتان کی جھولی میں ڈالنے پر مجبور ہو نا پڑا۔ یہاں یہ کہتا چلوں کہ اگر جنوبی محاذ والے اور دیگر موسمی پرندے ن لیگ اور پی پی پی سے اڑا کر پی ٹی آئی کی چھتری پر نہ بٹھائے جاتے تو کپتان کی تبدیلی پارٹی 2018 کے مجوزہ الیکشن میں کیا گل کھلاتی۔
دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں کپتان کی پی ٹی آئی کا وجود نہ ہونے کے برابر۔ صوبہ پختونخوا میں مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے کی جانب جانے کے واضع اشارے۔ وزیر اعلیٰ کے خلاف نیب کی تحقیقات، بیسیوں ارکان اسمبلی پر کرپشن اور بکاؤ  مال ہونے کے الزامات۔ ایم ایم اے بھی سر گرم، اے این پی بھر پور چیلنج دینے کو تیار اور پھر چیف جسٹس نے ہسپتالوں کے دورے کر کے رہی سہی کسر نکال دی۔ اس وقت کپتان اور خٹک حکومت کو حکومتی کارکردگی کا دفاع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اگر نواز شریف کو جیل بھیج دیا جائے، شہباز بھی نا اہل ہو جائیں، تب بھی سیاسی میدان میں اکیلے دندنانے کی کپتانی خواہش پوری نہیں ہو گی۔ عمر رسیدہ ریٹائرڈ کپتان کو اگر سیاست میں رہنا ہے تو مریم نواز اور بلاول کا مقابلہ تو کرنا پڑے گا۔ تبدیلی اور انصاف کا نعرہ ترک کر کے الیکٹیبلز کے سہارے اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں کچھ اضافہ تو ممکن بنایا جا سکتا ہے مگر وفاقی حکومت تشکیل دینے کے لئے سوہپنگ اکثریت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ عقل مند کو اشارہ کافی کہ اب نیا فرینکن سٹائن مونسٹر تخلیق کرنے کے زمانے لد گئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply