افغان وار۔ افغان پالیسی اور سرحدی تنازعہ

“سفید ریچھ سے نمٹ لیں پھر کابل پر بلاشرکت غیرے تمہاری حکمرانی ہو گی”۔ملحدوں کے خاتمہ کے لئے یہ وہ سبز باغ تھا جو مجاہدین کو دکھایا گیا تھا اور ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ روس کی شکست کے بعد کابل کی فتح تک جنگ ( جہاد ) جاری رہے گی ۔ یہ جنگ جسے جہاد کا نام دیا گیا ایک ایسی خود فریبی تھی جس کی تباہ کاریوں نے ہماری قومی ترقی ، سوچ یہا ں تک کہ تہذیب و ثقافت تک کے نقش دھندلا دیئے اور ہم چار عشرے گزرنے کے باوجود اس نام نہاد جہاد کی تباہ کاریوں سے اپنا پیچھا چھڑانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔افغانستان میں روسی مداخلت پر پورے مغرب ، چین اور امریکہ کو بھی تشویش تھی مگر ایک طویل سرد جنگ کے خاتمہ اور ویت نام میں اپنی ہزیمت کا حساب چکانے کے لئے امریکہ کے پاس یہ ایک نادر موقع تھا سو اس نے جنرل ضیا کی حکومت کو روسی عزائم سے متعلق کچھ ایسی طلسماتی کہانیاں سنائیں جن کا حقیقت سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں تھا ،روس بحالت مجبوری افغان حکومت کی مدد کیلئے افغانستان میں داخل ہوا تھا اور اس کا پاکستان پر حملے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر پاکستان میں کوئی ایسی موثر سیاسی اور عوامی حکومت موجود نہ تھی جو امریکہ کے اس سیاسی حربے کا توڑ کر سکتی ،چناچہ جنرل ضیا اور ان کے رفقا امریکی بہلاوے میں آگئے اس ضمن میں آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل اختر عبد الرحمان پیش پیش تھے جنہوں نے اس جنگ کو جہاد کا نام دیا اور بریگیڈئیر محمد یوسف کی نگرانی میں باقاعدہ افغان جہاد سیل قائم کر دیا گیا ۔
جنرل اختر ، بریگیڈئیر یوسف اور ان کے رفقا کے عزائم تو جنگ کے ابتدائی مہینوں ہی میں امریکہ پر روزروشن کی طرح عیاں ہو چکے تھے اور وہ جان چکا تھا کہ ان ” جذبہ جہاد” سے سرشار فوجیوں کی تگ و دو روس کو افغانستان سے دھکیلنے سے زیادہ کابل میں ایک بنیاد پرست حکومت کے قیام کی خواہش کے زیر اثر ہے لہذا اس دوران خود پاکستان میں جس انداز کا جہادی لٹریچر تدوین کیا گیا اور جس انداز میں اسے پاکستان کے ساتھ ساتھ دریائے آمو پار کر کے افغانستان سے متصل روسی ریاستوں میں پھیلایا گیا امریکہ نے اپنے مفادات کے پیش نظر اس سے پانچ چھ برس اپنی آنکھیں بند رکھیں نہ تو اسلحہ کی سپلائی میں کوئی کمی آنے دی اور نہ ہی مالی امداد میں مگر خود امریکہ کے دماغ میں کیا تھا ؟ وہ کیا سوچ رہا تھا اس سے جنرل ضیا اور اس کے جہادی رفقا آخری وقت تک آگاہ نہ ہو سکے ۔ پاکستان کا روشن خیال سماج جو اپنی تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے کبھی تنگ نظر اور انتہا پسند نہ رہا تھا اب تک صرف مسلکی اختلافات کے چھوٹے موٹے طوفانوں کا سامنا کر رہا تھا مگر اب اسے ایک تنگ نظر بنیاد پرست اور انتہا پسند سوچ کی جانب دھکیلا جا رہا تھا ۔
اس دوران امریکہ کی بھرپور کوشش رہی کہ اسے براہ راست افغان جنگ میں حصہ لینے والے کمانڈوز سے رابطہ کرنے دیا جائے یا کم از کم اسلحہ کی تقسیم براہ راست کمانڈرز کو کی جائے مگر جنرل اختر اور ا ن کے رفقا نے کبھی اس کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا وہ چھ سات پارٹی سربراہوں سے رابطہ کرتے اور انہی کے ذریعے اسلحہ کی تقسیم سے لیکر کمانڈرز کی تنظیم تک کا تمام اہتمام کرتے رہے جس سے معاملات مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں رہے اور سینکڑوں ہزاروں کمانڈرز ہونے کے باوجود ان کے درمیان کبھی غیر معمولی رسہ کشی کی صورت نمایاں نہ ہو سکی ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب روسی فضائی حملوں سے ہزاروں جانوں کا نقصان کروانے کے بعد بلآخر امریکہ نے سٹنگز میزائل پاکستان کے حوالے کر دیئے ،کاندھے پر رکھ کر لانچ کیے جانے والے یہ میزائل پندرہ ہزار فٹ تک کی بلندی پر جہاز اور گن شپ ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنا سکتے تھے یہ جنگ کا وہ ڈرامائی موڑ تھا جہاں افغان مجاہدین کو محدود سطح پر مختصر تربیت دے کر گوریلہ کارروائیوں کیلئے میدان میں اتارتے وقت انہیں اپنے سب سے مہلک دشمن روسی فضائیہ اور اس کے ہیبت ناک گن شپ ہیلی کاپٹروں کے خلاف ایک مہلک اور موثر ہتھیار سے آراستہ کر دیا گیا چناچہ کابل کی فضائی اڈے پر اپنی پہلی ہی کارروائی میں مجاہدین نے روس کے آٹھ گن شپ ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنایا پانچ میزائل فائر کیے اور تین ہیلی کاپٹر مار گرائے ،روس کے لئے یہ نہایت ہیبت ناک لمحات تھے اور مجاہدین کے کیمپ میں فتح کا جشن منایا جا رہا تھا دوسری طرف امریکہ بیک ڈور ڈپلومیسی کا آغاز بھی کر چکا تھا جو جلد ہی گوربا چوف کو جنیوا مذاکرات پر رضامند کرنے میں کامیاب رہی ۔
صورتحال بہت پیچیدہ ہو چکی تھی روس افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا ء کے لئے رضامند ہو چکا تھا ۔ جنرل اختر اور ان کے رفقا افغان پارٹی سربراہوں اور کمانڈروں سے وعدہ کیے بیٹھے تھے کہ روس کے انخلا کے بعد کابل کی فتح تک جنگ جاری رہے گی مگر امریکہ جو صرف اپنے مخالف کیمپ کو لیڈ کرنے والے سویت یونین کو ہزیمت کا شکار کر کے اپنی برتری قائم کرنا چاہتا تھا اس کے لئے اس دوران کسی ایک لمحہ میں بھی یہ گمان کرنا ممکن نہیں تھا کہ افغانستان سے ایک دشمن کو نکال کر وہاں کوئی بنیاد پرست حکومت بنا دی جائے اور اس کے اس نقطہ نظر کو خود روس کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ جنرل ضیا کو ایک طرف تو یہ نظر آ رہا تھا کہ روس کی شکست کا تمام تر کریڈٹ جنرل اختر کو جائے گا دوسری طرف جب اس پر جنرل اختر کے جہادی عزائم سے واقف امریکہ کا دباؤ آیا تو اس نے فوری طور پر جنرل اختر کو ترقی دے کر جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کا چیف بنا دیا اور عملی طور پر افغان وار سے دور کر دیا ،جنرل اختر کی جگہ میجر جنرل حمید گل کو تعینات کر دیا گیا ۔ افغان سیل کے سربراہ بریگیڈئیر محمد یوسف نے دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ لے لی ۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پانچ چھ سالہ جنگ کے دوران جنرل اختر اور ا ن کے رفقا نے ہر ممکن کوشش کی کہ صرف پارٹی سربراہوں سے معاملات کیے جائیں اور کمانڈرز کے درمیان براہ راست کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو مگر اس کے باوجود ہزاروں کمانڈرز کی موجودگی میں کوئی کمانڈر پوری جنگ کے دوران کسی دوسری کمانڈر کے علاقہ میں جا کر جہاد کرنے کا مجاز نہیں تھا اور ایسی ہر کوشش میں مجاہدین ایک دوسرے کے مقابل ہونے میں لمحہ ضائع نہیں کرتے تھے حمید گل نے چارج سنبھالتے ہی امریکہ کی دلی آرزو پوری کر دی ،ایک طرف خود جنرل ضیا گلبدین حکمت یار اور دیگر پارٹی رہنماؤں سے بد ظن تھے تو دوسری طرف امریکہ تو چاہتا ہی مجاہدین کو منتشر کرنا تھا پھر وہ روس سے واپسی کے لئے محفوظ ترین راہداری کا وعدہ بھی کرچکا تھا جبکہ مجاہدین بھاگتے ہوئے روس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی تمنا رکھتے تھے سو جب جنرل گل نے امریکہ کو براہ راست کمانڈرز تک رسائی دے دی تب کمانڈرز کو یکجا رکھنا اور زیادہ سے زیادہ امداد و اسلحہ کے لئے باہم دست و گریبان ہونے سے روکنا کسی کے بھی بس میں نہیں رہا ۔ مجاہدین کو دوران جنگ اسلحہ کی سپلائی متاثر نہ ہو اس کے لئے اوجڑی کیمپ میں ایک بہت بڑا گولہ بارود کا ذخیرہ جمع کیا گیا تھا جہاں سے مجاہدین کو متواتر اسلحہ کی سپلائی جاری رہتی تھی ۔
انخلا کا ٹائم فریم طے پا جانے کے بعد دو واقعات کا ظہور ہوا ایک تو فضائی حادثہ جس میں جنرل ضیا اور جنرل اختر اپنے رفقا سمیت جاں بحق ہو گئے دوسرا اوجڑی کیمپ کا اسلحہ ڈپو ایک تخریبی کارروائی کے دوران مکمل طورپر تباہ کر دیا گیا اس کے ساتھ ہی امریکہ نے مجاہدین کی امداد فوری طور پر بند کر دی چناچہ 15 فروری 1989 کو روسی فوج کا آخری سپاہی بھی بہ حفاظت سرحد پار کر گیا اور جاتے جاتے گولہ بارود کا ایک عظیم ذخیرہ اس افغان حکومت کے حوالے کر گیا جس کی مدد کے لئے وہ آیا تھا ۔ مجاہدین کو کابل کے بجائے جلال آباد کی صورت ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا گیا جہاں چند ہفتوں میں ہی پاکستانی اور امریکی امداد سے محروم افغان مجاہدین کھلے میدانوں میں افغان سیکورٹی فورسز کے نشانے پر تھے اور ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے ۔ پانچ برس تک متحد رکھنے کے بعد افغان کمانڈرز کو ڈالر اور اسلحہ کی براہ راست سپلائی سے کچھ اس طرح منتشر کیا گیا کہ پہلے سے صدیوں پرانے تنازعات کا شکار یہ کمانڈرز آپس میں الجھ کر رہ گئے اور کچھ اس طرح منتشر ہوئے کہ تا حال انہیں کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں کیا جا سکا ۔
اس تفصیلی منظر نامہ کا مقصد فی الوقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دوست جو افغانستان میں موجود سینکڑوں متحارب گروپس کی موجودگی ان کے باہمی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ان کے عناد کا سبب سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ جان لیں کے چار عشرے پہلے ہمارے ارباب اختیار نے خود ہمارے ساتھ تو جو کیا سو کیا جن کی مدد کو نکلے تھے ا ن کے ساتھ کیا کیا ۔۔۔۔۔ سو اس قوم پر دوہرا عذاب چار دہائیوں سے نازل ہے ،ایک مقامی سطح پر پیدا کیے گئے انتہا پسندی کے جراثیم ، جنہیں بیچ میدان میں چھوڑ کر بھاگے ا ن کی انتقامی کارروائیاں ۔آج چمن باڈر پر کشیدگی کے بعد ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ گلوبل میپ کے ذریعے سرحدی تنازعہ کو طے کر لیا جائے ،ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث عناصر افغان سرحد پار کر کے آتے ہیں جبکہ افغان حکومت کا دعوی ٰ ہے کہ افغانستان کے داخلی انتشار میں پاکستان ملوث ہے ۔
بات اگر سرحدی تنازعہ ہی کی ہے تو اسمبلی فلور پر افغانیہ صوبہ کی بات کرنے والے جناب محمود خان اچکزئی اور ان کے رفقا کو تو پہلے اس گلوبل میپ پر راضی کر لیں ایک طرف ایسے عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے دوسری طرف انتہا پسند کالعدم جماعتوں کو بس رسمی طور پر شیڈول فور میں ڈال رکھا ہے ایسے میں کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر آپ کی بات کس طرح سنی جائے گی ۔جب ایک پڑوسی ملک گولہ باری کر کے آپ کے درجن بھر سپاہی شہید کر دے اور آپ جوابی کارروائی میں اس کے پچاس فوجی مار گرائیں اور کہیں جنہیں ہم نے مارا وہ تھے تو ہمارے بھائی مگر انہوں نے پہل کی تھی ہم نے تو جوابی کارروائی کی ہے اور دوسری طرف آپ کے ادارے کرائم کے نام پر نہتے شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کر رہے ہوں ،کراچی میں مہاجروں ، بلوچستان میں بلوچوں اور خیبر پختونخوا میں بے گناہ پختونو کا قتل عام کیا جا رہا ہو تو آپ کی باتوں میں کیونکر وزن پیدا ہوگا ؟
آپ کی جوابی کارروائی سے مارے جانے والے افغانی آپ کے بھائی ہیں کوئی بری بات نہیں ۔۔۔۔۔ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہییں مگر یہ مہاجر ، یہ بلوچ، یہ پختون ،یہ ان کی سرکاری عقوبت خانوں میں ہلاکتیں ، سر بریدہ لاشیں ، گمشدگیاں ، مقابلوں میں مار دیا جانا ، ماورائے قانون دستور و عدالت ہلاکتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب تو پاکستانی ہیں، یہ بھی تو آپ کے بھائی ہیں، اگر ا ن کی طرف بھی توجہ کر لیں انہیں بھی اپنا بھائی قرار دے دیں تو یہ معمولی سے سرحدی تنازعات آپ کو اتنا پریشان نہیں کریں گے ۔ اگر آپ داخلی طور پر مضبوط ہیں کراچی سے خیبر تک عوام آپ سے محفوظ اور مطمئن ہے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جا رہا ہے،عوامی امنگوں کا خیال رکھا جا رہا ہے، جرائم اور سیاست میں حد فاصل قائم ہے ، سیاسی معاملات کو ریاستی طاقت سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی، عوام کی حقیقی نمائندگی پر جعلی اور مصنوعی نمائندگی مسلط نہیں کی جا رہی، عدالتوں کے ذریعے انصاف کیا جا رہا ہے تو پھر اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں اور یہ بوکھلاہٹ بھی کسی ایٹمی طاقت کے شایان شان نہیں مگر اس کے برعکس جب داخلی حالات کا امن مصنوعی ہو اور عوامی تحفظات کسی لاوے کی طرح جبر کے سائے تلے ابل پڑنے کو مچل رہے ہوں تب ایسے معمولی سرحدی تنازعات بھی پہاڑ معلوم ہوتے ہیں سو عوام پر اعتماد کیجئے اور عوام کا اعتماد بحال کیجئے ،ملک کی سرحدوں کا اس سے بڑا کوئی دفاع نہیں ہو سکتا ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply