انسانیت

۔۔۔۔۔۔۔ “انسانیت” ۔۔۔۔۔۔۔

ایک بہت خوبصورت موضوع پر چند الفاظ میں اظہار خیال حاضر خدمت ہیں۔ امید ہے کہ احباب پسند فرمائیں گے ۔
خیر اندیش: ایم اکرام الحق

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانیت کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ اللہ کریم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معرفت سے اشرف المخلوقات ہونے کے شرف سے سرفراز فرمایا۔
اگر ہم انسانیت کے لفظ کو اس کے معنی کے پیرائے میں دیکھیں تو جہاں اس کا مطلب ” کردار کی عظمت ” کی دلیل ہے وہیں اس کا دوسرا مطلب ” عظیم ترین مخلوق کا احساس ” ہے۔ آسان لفظوں میں انسانیت یہ ہے کہ جب کسی کا کردار برائی کی حدوں کو چھونے لگتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کے اندر انسانیت ہی نہیں رہی۔ بعینہ دوسرے معنوں کو آسانی سے سمجھنے کے حوالے سے ایک حدیث کا حوالہ کافی ہوگا کہ جب فرمان ہوا،
“ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔”
اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات میں سے انسانیت کو شرف معراج بخشا۔ افسوس آج ہم اس بہت اونچے مقام کا حامل ہونے کے باوجود بہت ارزاں ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان کے ہاتھوں انسانیت دم توڑ رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مذہبی ، قومی ، سیاسی ، لسانی، علاقائی اور ذاتیات کی بنیادوں پر جب ہم انسانیت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس وجہ سے انسان کے ہاتھوں انسان ذلت و رسوائی کا مستحق ٹھہرتا ہے تو “انسانیت ” سسک رہی ہوتی ہے۔
ایک انسان دوسرے انسان کا قتل اس طرح کرتا ہے جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ اس وقت حدیث کے وہ سنہرے الفاظ انسانیت کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
انسانیت کی معراج کا شرف یہ تھا کہ انسان زندگی میں ادب و آداب ، نظم و نسق اور اخلاقیات و صداقت کا پرتو دکھائی دیتا اور انسانیت کے لفظ کا لبادہ اس پر فخر کرتا مگر حضرت انسان اپنے اعمال کی وجہ سے جا بجا حیوانات اور دیگر مخلوقات عالم سے بھی ارزاں ہو جاتا ہے۔ ہمارے اعمال کی سچائی اور ہمارا حسن نیت ہی ہوتا ہے جو ہمیں عزت و تکریم بخشتا اور لائق وفا و ایفا قرار دیتا ہے۔ جب انسان اس دنیا میں بے ضمیری اور نفرت و کدورت کو دلوں میں پال لیتا ہے تو انسانیت کے رتبے سے گر جاتا ہے۔ انسانی عظمت اور رفعت و بلندی کی معراج ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت ساری انسانیت کے سامنے ہیں ۔ جبھی تو غیر مسلم اقوام نے بھی دنیا کا افضل ترین انسان کا رتبہ صرف اسی ہستی کے نام کیا اور اس پر جابجا فخر کیا۔
انسانیت کا سب سے بڑا احترام یہی ہے کہ انسان کو انسانیت کی اس سطح سے نہ گرنے دیا جائے جس کا معیار ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔
لوگوں کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنا ۔ان کے دکھ کا مداوا کرنا ۔اور ایسا بلا تفریق مذہب ،قوم ،رنگ، نسل ،زبان کے کرنا ۔ایک انسان کا دوسرے انسان سے انسانیت کا رشتہ ہے ۔جیسے رہبر انسانیت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یوں بیان کیا کہ ’’تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے تھے ۔‘‘ ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ انسانوں میں انسانیت خوابیدہ ہے ،اکثریت کے دل مردہ ہو چکے ہیں،مردہ ہی نہیں انسانوں کے دل پتھر ہو چکے ہیں ۔بلکہ اس سے بھی سخت ہو چکے ہیں ۔انسان کا دل تو نرم ہوتا ہے وہ دوسرے کے دکھ پر تڑپ جاتا ہے ۔لرزجاتا ہے ۔تعمیر انسانیت کے لیے انسان کے دل میں درد کا ہونا ضروری ہے ۔دل کا نرم اورزندہ ہونا ضروری ہے ۔دردِ دل کے واسطے ہی پیدا کیا انسان کو۔خدمت خلق ہی معراج انسانیت ہے ۔انسان تو وہ ہے ،جو اللہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں اور دوسرے انسانوں کے لئے جیتا ہو۔ ان کی سردی گرمی ،بھوک پیاس ،دکھ غم میں شریک ہوتا ہو ۔ حفیظ جونپوری لکھتے ہیں:
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہیے انساں کو انساں کی طرف
انسان ھونا ھمارا انتخاب نھیں ھے قدرت کی عطا ھے لیکن
اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا ھمارا ا نتخاب ھے۔ انسان کی انسانیت تب ختم ھوتی ھے جب اسے دوسروں کے دکھوں پر ہنسی آنے لگے۔ ہمیں جس سبق کو پڑھنے کی ضرورت سب سے زیادہ ھے وہ انسانیت ھے۔ انسانیت ایک بہت بڑا خزانہ ھے اسے لباس میں نہیں انسان میں تلاش کرو۔ جس گھر میں تعلیم اور نیک ماں ھو وہ گھر تہذیب اور انسانیت کی یونیورسٹی ھے۔ اگر تم عظمت کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ھو تو اپنے دل میں انسانیت کیلئے نفرت کی بجائے محبت آباد کرو۔
جب ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دے تو سمجھ جاؤ اب انسانیت ختم ھو گئ۔ انسان بڑھتے جا رھے ھیں انسانیت ختم ھوتی جارھی ھے۔ انسان جب تک اپنا مول نہیں لگاتا انمول کہلاتا ھے۔
جگر مراد آبادی نے بڑے خوبصورت الفاظ میں کہا تھا :
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
انسان جنون میں سب سے پہلے انسانیت کھوتا ہے، یہ بھول جاتا ہے میں انسان ہوں اور میرے سامنے موجود لوگ بھی انسان ہیں اور ہم سب ایک جیسے ہیں، گوشت پوست کے دھڑکتے پریشان ہوتے انسان جنہیں بارش گیلا، دھوپ گرم ،برف ٹھنڈا، لوہا دکھی اور آگ جلا دیتی ہے.مگر جنون میں ہم یہ تمام حقیقتیں فراموش کر بیٹھتے ہیں ،ہم دوسرے انسان کا قیمہ بنا دیتے ہیں-دنیا میں شیر کو شیر نہیں کھاتا، کتے پر کتے کا گوشت حرام ہوتا ہے. چیلیں چیلوں پر حملہ نہیں کرتیں مگرانسان دوسرے انسان کو کھا جاتا ہے یہ دوسرے انسان کو چیر پھاڑ جاتا ہے یہ اس کا قیمہ کر ڈالتا ہے اور یہ اس کے بعد گلے میں جنون کا ڈھول لٹکا کر دیوانہ وار رقص کرتا ہے-
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف
ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
انسان کے دماغ میں اچھے اور برے خیالات آتے رہتے ہیں
یہ قدرتی بات ہے۔ مگر انسان کی اصل انسانیت یہ ہے کہ وہ اپنے خیالوں کی تطہیر اور تہذیب کرتا رہے اگر انسان اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو جوں کا توں ظاہر کرے گا تو انسانیت کے درجے سے گر جائے گا۔
بہت ہیں سجدہ گاہیں پر در جاناں نہیں ملتا
ہزاروں دیوتا ہیں ہر طرف انساں نہیں ملتا
انسان حقیقت میں وہی ہے جسے دوسرے انسان کا احساس ہو ۔ دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرے،انکا دکهہ، درد ، غم، اپنا دکهہ،درد،غم جانے. انسان کسی دوسرے کو تکلیف میں دیکهہ کر برداشت نہ کر سکے اور غم کی گهڑی میں شریک ہو. اپنے ضمیر کو زندہ رکهے اچهائی کو اچهائی اور برائی کو برائی سمجهے.جو بات، جو چیز اپنے لئے پسند کرے دوسروں کے لئے بهی وہی پسند کرے،تبهی انسان حقیقت میں انسان کہلانے کے قابل ہے.
وا ما علینا الاالبلاغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply