اور جب میں ریکھا سے ملنے گیا۔۔۔صفی سرحدی

ریکھا نے شروع میں مجھے فلم گھر، امراؤ جان، سلسلہ، اور بعد میں فلم اجازت سے کچھ زیادہ متاثر کیا۔ اس لئے میں نے ریکھا کو ان لوگوں کی فہرست میں شامل کیا جن سے مجھے ملنے کی شدید تر خواہش رہتی ہے۔ میری طرح اگر کوئی اور ریکھا کا دیوانہ ہے تو وہ میرے دوست ظفر عمران ہیں جو اپنی پسندیدہ شخصیات سے ملنے پر یقین نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کسی خاص سے ملنے کے بعد پہلی سی طلب اور تڑپ باقی نہیں رہتی۔ میرا دوست بات تو کسی حد تک ٹھیک کرتا ہے لیکن نجانے کیوں میں اسکی اس سوچ کا مخالف ہوں اس لئے میں ملنے پر یقین رکھتا ہوں اور ایک نہ ایک دن اپنی پسندیدہ شخصیت سے ملنے پہنچ جاتا ہوں چاہے وہ سرحد پار ہی کیوں نہ رہتا ہو۔
ہم دونوں ریکھا کی طرح اکثر گلزار کو بھی تعریف کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ریکھا کی بہترین فلم اجازت کا خالق تو وہی ہے۔ اور جب کبھی فیس بک پر ہم دونوں ریکھا کا ذکر شروع کردیتے ہیں تو ہمارے بعض دوست ہم سے بیزار ہو کر سوجاتے ہیں اور ہم دونوں ریکھا کا ذکر کبھی آدھی رات تک تو کبھی ڈوبتے سورج سے اگتے سورج تک کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت دلیپ کمار سے ملنے میں جب جون 2014 میں ممبئی گیا تھا تو اس وقت میں نے شاہ رخ سے ملنے کی بھی کوشش کی تھی کیونکہ بچپن میں شاہ رخ خان کا دیوانہ رہا ہوں لیکن بدقسمتی سے میں صبح کے وقت شاہ رخ کے گھر منت پر پہنچا تھا جبکہ شاہ رخ رات بھر فلم شوٹنگ کے سلسلے میں جاگتے رہتے ہیں اور صبح سوجاتے ہیں اور جب دوپہر اٹھتے ہیں تو اپنے مداحوں کو گھر کی چھت سے اپنی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ باندرہ جہاں بڑے بڑے فلمی سٹارز رہتے ہیں وہی شاہ رخ کے پڑوس میں ریکھا بھی رہتی ہے۔ شاہ رخ کے گھر پر موجود سیکورٹی والے نے مجھے دوپہر آنے کو کہا لیکن اندھیری ایسٹ میں میرے ساتھی میرا انتظار کررہے تھے ہم نے کہیں اور جانا تھا۔ اس لئے میں نے انتظار نہیں کیا لیکن موقع  سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے میں نے پاس ہی ریکھا کے گھر کا رخ کیا۔ ریکھا گھر پر موجود تھی مگر بیس بائیس سالہ سکیورٹی پر معمور ایک کالا لڑکا جو ریکھا کے گھر کے سامنے ساحل پر کھڑا تھا دوڑ کر میرے پاس آیا اور مجھے غصے سے کہا۔۔۔ ابے کیا ہے…؟
میں نے اس سے اپنا تعارف کراویا کہ میں پاکستان پشاور سے آیا ہوں ریکھا کا بڑا فین ہوں آپکی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ریکھا سے کہیں  گے کہ آپ سے ملنے کوئی اتنی دور سے آیا ہوا ہے۔ اس کالے چھوکرے نے مجھے سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھا اور پھر کہا۔
چاہے تم پاکستان سے آئے ہو یا افغانستان سے ، ہم تیرے کو ملنے نہیں دیگا میرے کو میڈم نے منع کیا ہے۔
میں نے اس کالے سے کہا آپ ریکھا سے کہو تو سہی وہ ملے  گی وہ بہت اچھی ہے۔ اس کالے نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے کہا، ہاں ہمکو پتا ہے کہ وہ کتنی اچھی ہے۔
اب تم جاؤ ہم صاف بولا ہم ملنے نہیں دے گا۔ پٹھان دماغ کی وجہ سے شاہ رخ خان کے گھر پر سکیورٹی والے سے گرما گرمی ہوچکی تھی اور اب اس کالے کو ایک کس کر لگانے کو دل کررہا تھا لیکن غصے پر قابو پاکر میں نے چلنا مناسب سمجھا ورنہ میری وجہ سے انڈیا پاکستان کے تعلقات مزید خراب ہوجاتے حالانکہ میں خود کو محبت کا سفیر مانتا ہوں اور دونوں ممالک کی دوستی کیلئے کوشاں رہتا ہوں۔ بہرحال میں چند قدم دور ہی گیا تھا کہ ریکھا کے گھر پر ایک گاڑی آکر رکی، اور دوڑتے ہوئے اسکے قریب پہنچا۔ گاڑی سے تقریباً مرد نما بالوں میں کوئی پچاس سال کے اوپر ایک دلکش سانولی خاتون باہر نکلی جو بہت زیادہ سمارٹ تھیں۔ مجھے خیال آیا کہ یہ میم صاحب ضرور ریکھا کی کوئی دوست ہوگی مجھے اس سے بات کرلینی چاہیے ۔ میں نے اس سے درخواست کی لیکن وہ سوری کہہ کر ریکھا کے گھر کی طرف بڑھ گئی۔ ریکھا کے گھر کا دروازہ بڑا خوفناک سا ہے جس پر لکڑی کے کام سے کئی خوفناک شکلیں بنی ہوئیں ہیں۔ اپنی ریکھا کے اتنے پاس پہنچ کر بھی اس سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس تو ہو رہا تھا لیکن ایک دو باتوں کا سوچ کر افسوس کم بھی ہوجاتا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ میرے پاس موبائل کی  چارجنگ  ختم ہوچکی  تھی  جس سے تصویر بنواتا، اب اگر ریکھا سے ملتا تو کس کمبخت نے یقین کرنا تھا کہ میں ریکھا سے ملا ہوا ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ میرے ایک کنوارے ڈاکٹر دوست ہیں جو گلزار کی بیوی راکھی کے بڑے مداح ہیں اور وہ راکھی کی صحت اور گالوں کو دیکھتے ہوئے اسے پیار سے گلاب جامن کہتے ہیں جبکہ میں ریکھا کا بڑا مداح ہوں چونکہ وہ ابتک دلکش اور بہت سمارٹ لگتی ہے اس لئے میں اسے برفی کہتا ہوں۔ میرے اس ڈاکٹر دوست ہی نے مجھے فلم اجازت دیکھنے کا کہا تھا۔ یہ فلم اسے لاہور میں زمانہ طالب علمی میں ایک سی ڈی والے نے اپنی طرف سے پیش کی تھی کہ آج تم یہ فلم دیکھنا اگر پسند نہ آئی تو سی ڈی واپس کرتے ہوئے کرایہ مت دینا۔ اور اس سی ڈی والے سے ایک دن لاہور میں مجھے اپنے اس ڈاکٹر دوست نے ملوایا بھی تھا جس کا پھر میں نے خصوصی شکریہ ادا کیا تھا کہ آپکی وجہ سے میں نے ایک کلاسک فلم دیکھی ہے۔ لیکن جب میرے ڈاکٹر دوست نے اسے بتایا کہ یہ ریکھا سے ملنے اس کے گھر گیا تھا لیکن وہاں اسے سیکورٹی والے نے ملنے نہیں دیا تو اس بے چارے نے دکھ سے ادھ جلا سگریٹ پھینک دیا تھا۔ میرے ڈاکٹر دوست ہمارے ساتھ انڈیا جانے والے تھے لیکن اسکی ماں بیمار پڑ گئی اس لئے اس نے ویزا نہیں لگوایا۔ لیکن انڈیا جانے سے ایک دو دن پہلے قصہ خوانی بازار میں ہماری ہفتہ وار محفل میں اس ڈاکٹر دوست نے مجھے کہا تھا، اگر تم راکھی سے ملنے گئے تو یاد رکھنا اسے گلے مت ملنا کیونکہ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوگا البتہ ریکھا مجھے بھی کسی زمانے میں بہت زیادہ پسند تھی اس لئے تم اس سے ضرور گلے ملنا اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ تم ضرور ریکھا سے گلے ملوگے اور میں نے بھی اسوقت جذبات میں آکر کہا تھا ٹھیک ہے وعدہ ہے میں ریکھا سے گلے ملوں گا۔ لیکن شاہ رخ اور ریکھا کے گھر جانے سے پہلے میں حاجی علی درگاہ پر گیا تھا اور وہاں سیڑھیوں پر کچھ دیر سمندر کے شور سے سکون اٹھا رہا تھا جبکہ عموماً  میں شور پسند نہیں ہوں۔ وہاں میں نے خود کو سمندر کے کھارے پانی میں پورا گیلا بھی  کیا تھا۔ اور وہاں سے باندرہ جانے کیلئے ایک مسلمان ٹیکسی والے نے سیٹ کو گیلا ہونے سے بچانے کیلئے سیٹ کے اوپر پلاسٹک ڈال دیا تھا جو شاید اس نے ہم جیسی گیلی سواریوں کیلئے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔
ریکھا سے ملاقات پر ناکامی ہونے کے بعد باندرہ میں ریکھا کے گھر سے اندھیری ایسٹ اپنے گرو ساگر سرحدی کے دفتر واپسی کرتے وقت یہ سوچتے ہوئے میں نے اپنا دکھ کم کرنے کی کوشش کی کہ چلو کوئی بات نہیں جو ریکھا سے ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ میں نے اپنے ڈاکٹر دوست سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ میں ریکھا سے گلے ملوں گا۔
اب آپ ہی کہیے  اگر میں اپنی گیلی پینٹ شرٹ میں ریکھا سے گلے ملتا تو وہ بے چاری تو گیلی ہوجاتی نا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply