اسلامی نظام قائم کرنے کا نعرۂ مستانہ۔۔۔آصف وڑائچ

“میں حکومت میں آ کر ملک کو اسلامی بنا دوں گا”جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق صاحب کا بیان.
یعنی موصوف پورے پاکستان میں صرف خود کو ہی توپ قسم کا مسلمان سمجھتے ہیں، باقی سارے انہیں کالے کافر نظر آتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

خود  کو   اعلیٰ ،  اصلی اور نسلی مسلمان سمجھنا  جبکہ دوسروں کو  گمراہ کن یا جعلی مسلمان سمجھنا   ایک عجیب نفسیاتی مغالطہ ہے.
میں کہتا ہوں کہ کلمہ پڑھنے، نمازیں و نوافل ادا کرنے، روزے رکھنے اور زکوٰتیں دینے سے انسان فرشتہ نہیں بن جاتا، وہ انسان ہی رہتا ہے اور اس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور جرائم بھی سرزد ہوتے ہیں جن کے لئے انصاف پر مبنی قوانین نافذ کئے جاتے ہیں اور حالات کے مطابق سزائیں مقرر کی جاتی ہیں تاکہ معاشرے میں امن و امان قائم رکھا جا سکے. قانونی نظام کی کمزوری یا کرپشن کی عادت کو آپ غیر اسلامی ہونے پر منتج نہیں   کر  سکتے. لہذا   یہ کہنا  کہ یہ ایک غیر اسلامی  ملک ہے  یہاں کوئی سچا مسلمان نہیں بستا، سارے کے سارے کالے کافر ہیں، ایک انتہائی جاہلانہ سوچ  اور بیہودہ نعرہ ہے جو عموماً  مذہبی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں.
یہ درست ہے کہ اسلام میں مختلف مکتبہ ہائے فکر اور فرقہ جات ہیں اور تمام دنیا میں فقہ و مسالک ہر ایک کے اپنے اپنے ہیں جنہیں اب 1400  سال پیچھے واپس نہیں موڑا جا سکتا. جو  جس مذہب میں پیدا ہوا   یا جس کا دل جہاں پر لگا ہے وہ اسی پر اکتفا کئے ہوئے ہے. آپ کسی کے آگے اپنا نکتہ نظر دلیل کے ذریعے تو پیش کر سکتے ہیں لیکن اس کا گریبان پکڑ کر اپنے مؤقف کو نہیں منوا سکتے کیونکہ جب دل ہی نہ مانے تو تمام عقلی دلائل بے سود ہو جاتے ہیں.
میں سمجھتا ہوں کہ انسانوں میں مختلف مذاہب اور فرقے بننا ایک فطری عمل ہے کیونکہ ماحولیاتی تغیرات اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی تہذیب، رہن سہن اور سوچ میں نسل در نسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو انسانی معاشرے کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہیں جس میں یقیناً مذہب بھی شامل ہے. یہ عام مشاہدہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ایک جیسے ماحول میں رہنے والے دو بھائیوں کی ذہنی سطح  بھی ہوبہو ایک جیسی نہیں ہوتی،  ذرا غور کیجیے کہ ایک جیسے ماحول میں رہنے والے دو افراد کی سوچ بھی مختلف ہوتی ہے تو مختلف علاقوں اور ماحول میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی سوچ سو فیصد کیسے ایک جیسی ہو سکتی ہے. نیز  قرونِ اولی  اور قرونِ آخر  کی تو بالکل بھی نہیں ہو سکتی.
یہ قضیہ بھی قابلِ غور ہے  کہ اگر  پاکستان جیسے کثیر فرقی ملک کو کسی ایک گروہ کے سپرد کر دیا جائے تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ دیگر مسالک و مذاہب کے لوگوں کا جینا حرام نہیں کرے گا.
لہذا یہ نعرہ کہ “اسلام خطرے میں ہے” صدیوں سے بولا  جانے والا ایک سفید جھوٹ ہے جس کا مسلمانوں کو آج تک کوئی دینی، اخلاقی یا معاشرتی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی گروہ نے مذہب کے نام پر اقتدار حاصل کیا تو ظلم وجبر کی نئی داستانیں رقم کیں. پس آپ ہمیں 30 سال کی خلافتِ راشدہ دکھا کر 1370 سال کی خلافتِ بدحواسہ کے قائل نہیں کر سکتے. ویسے بھی اسلام ایک ایسا نظامِ حیات ہے جس میں آفاقیت ہے، جس کا موضوع فلاحِ انسانیت ہے نہ کہ فلاحِ فرقہ و جبہ.
با شعور اور سنجیدہ حلقے جب غیر اسلامی نظام کا نام لیتے ہیں تو اس سے انکی مراد سودی نظام ہوتا ہے. جہاں تک سودی نظام کا معاملہ ہے تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی ایک ملک تن تنہا سودی نظام ختم نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے اکیلے کا اختیار ہی نہیں. دنیا کے تمام مالیاتی ادارے کہیں نہ کہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت ہیں اور تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں یہودیوں اور غیر مسلموں کی ملکیت ہیں یعنی سودی نظام کا اصل اختیار   انہیں  کے ہاتھ میں ہے.
سمجھنا چاہیے کہ سودی نظام مسلمانوں کا پیدا کردہ نہیں اور نہ ہی مسلمان سودی نظام کو رائج کرنا چاہتے ہیں  یا   اس سے خوش ہیں بلکہ سودی نظام دنیا میں موجود بڑی طاقتوں کا رائج کردہ ہے اور وہ بڑی طاقتیں صرف سود ہی نہیں بلکہ ہر اعتبار سے تمام شعبہ ہائے زندگی پر مسلط ہیں. سود کے علاوہ بھی جتنے سرمایہ دارانہ نظام ہیں انہی  کے جاری کردہ ہیں اور وہی ان کے مالک ہیں. مسلمان یا دیگر کمزور ممالک ان کے آگے چوں بھی نہیں کر سکتے.
لہذا سراج الحق جیسے مذہبی لیڈران کا سودی نظام کو ختم کرنے اور کسی اسلامی نظام کو رائج کرنے کا نعرہ سراسر   نظر کا  دھوکہ ہے.

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply