یورپی یونین ہے، ایشین یونین کیوں نہیں ہے؟۔۔قراۃ العین

یورپ کی ترقی اور کامیابی کی داستان ایشیا میں بسنے والے نوجوان طبقے کے لیے آج بھی دیو مالائی  کہانیوں سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں میں یورپ جانے، وہاں تعلیم حاصل کر نے اور بسنے کا جنون کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ اس کی بڑی وجہ اپنے ملک میں مواقع کی شدید کمی اور صلاحیتوں کے تعمیری استعمال کے لیے سرکاری اور معاشرتی سطح پر حوصلہ افزائی  نہ ہونا ہے۔ ہمارے آباو اجداد جنہوں نے ہمارے لیے ایک محفوظ مستقبل کی خاطر پاکستان بنایا، اُن میں سے بھی زیادہ تر یورپ سے تعلیم یافتہ تھے۔ اور وہ اُسی طرز پر اپنے خطے کی تعلیمی درسگاہوں کی بہتری چاہتے تھے تا کہ ہمارے نوجوانوں میں مثبت اور ترقی پسندانہ زہنی رحجانات فروغ پائیں۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم آج بھی اُسی جگہ کھڑے ہیں، ذہنی کشمکش اور گومگو ں کی حالت میں، جہاں ہمارے بانی ہمیں چھوڑ کے گئے تھے۔ یورپ نے اندھیروں اور تاریکی سے گزر کر یہ روشن مستقبل چنا اور اس کے لئے محنت کی، جبکہ ہم آج بھی اپنے قومی وجود کی بقاء کے لئے فکرمند ہیں۔

بدلتے حالات نے یہ تو ثابت کر دیا ہے   کہ مذہب، سیاست،تعلیم اورمعیشت الگ الگ بھی کامیابی سے چل سکتے ہیں۔ سعودی  عرب میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں اور اسرائیل اور سعودیہ کے درمیان نئے سرے سے کھیلی جانے والی” ککلی کلیر دی” میں مسلم اُمہ اور خاص طور پر پاکستان کے لئے واضح  نشانیاں ہیں۔
میں نے یورپ کے نوجوانوں کو اپنے نوجوانوں سے کم محنتی اور با صلاحیت پایا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں سے زیادہ کامیاب، بااعتماد ، آزاد اور خوش و خرم ہیں؟ کیونکہ ان کو مواقع دستیاب ہیں۔ یورپی یونین نے صیح معنوں میں اپنے نوجوانوں کو فلاحی ریاست کا تصور دیا۔ نوجوانوں کے لئے کامیاب تعلیمی پالیسیاں، مکمل مفت ابتدائی تعلیم سے یونیورسٹی کی سطح پر آسان تعلیمی قرضوں  کی فراہمی اور تحقیق و اشاعت کے لئے باقاعدگی سے وظائف کا اجراء ان کے اپنی نسلوں کے مستقبل کے لئے سنجید گی کا پتہ دیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں ابھی اس سلسلے میں کوششیں مکمل طور پر بارآور نہیں ہو سکیں۔ ایشیا میں آبادی کا تناسب وسائل سے زیادہ ہونا بھی ایسی پالیسیوں کے ثمرات سے فیضیاب نہ ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ تو کیوں نہ ہم بھی یورپ کی طرز پر ان مسائل کے حل کے لئے ایک مشترکہ نظام کے لئے کوشش کریں جو ہما رے بچوں کو ایسے ہی محفوظ مستقبل کی ضمانت دے سکے۔

ایشیا میں بھی اتنی ہی پرُ کشش منڈیاں ہیں جتنی یورپ میں، ایشیا میں بھی اتنے ہی بہترین تعلیمی ادارے بن سکتے ہیں جتنے یورپ میں۔ ہم کیوں نہ اپنے طالب علموں کو  ہارٹ سرجری اورآئی ٹی کی تعلیم کے لیے بھارت بھیجیں؟ کیوں نہ ہم سری لنکا سے ان کا ماڈل مستعار لے کر سمجھنے کی کوشش کریں کیسے انہوں نے غریب ملک ہوتے ہوئے بھی شرح خواندگی ٪99 تک لے گئے۔ کیوں نہ ہم اپنے لوگوں کو سیروتفریح کی طرف راغب کریں۔
یورپ میں لوگ کام اور خاندانی زندگی میں توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں وہ اپنی ذہنی آسودگی اور شخصی آزادی کی مکمل آگہی رکھتے ہیں۔ کام سے وقفے کے دنوں میں یہ لوگ سیروسیاحت کو نکل جاتے ہیں جس کے لیے نہ تو کسی ویزہ کے جھنجھٹ سے گزرنا پڑتا ہے اور نہ ہی لاکھوں یورو درکار ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں عام لوگوں کو روزگار کے بکھیڑوں نے اتنا بے حال کیا ہوا ہے کہ ساری زند گی اسی جمع تفریق میں گزر جاتی ہے اور زندگی کے آخری حصے میں مکہ مدینہ کی زیارت ہی آخری خواہش بن کے رہ جاتی ہے۔ اُس کے لیے بھی زیادہ تر کو ایجنٹوں کی مد د لینا پڑتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ معاشی طور پر آسودہ حال لوگ چھٹیاں گزارنے اور سیروتفریح کے لیے یورپ کا رُخ کرتے ہیں جبکہ ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ اُس سطح تک بھی نہیں پہنچ سکا جہاں اُن کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ سیروسیاحت انسان کی دماغی صحت اور ذہنی وسعت بڑھانے کے علاوہ عقل وشعور اور سماجی بصیرت میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو ہم اپنے بچوں کو روز مرہ کے سیاسی واقعات سے ہٹ کے ایسے تعمیری اور innovative ideas پہ سوچنے کی عادت ڈالیں۔ اُن کے ذہنوں میں یورپ جانے کے خواب ڈالنے کی بجائے یورپی یونین طرز کی ایشین یونین بنانے کے خواب ڈالیں۔ جہاں ہمارے بچے بھی ہمسایا ممالک کے تعلیمی اداروں میں اپنی مرضی اور دلچسپی کے مضامین کا انتخاب اور تعلیمی اداروں سے براہ راست رابطہ استوار کر کے اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکیں۔ یقین کریں ایشین یونین ایک قابلِ عمل خیال ہے اور اگر آج ہم اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ خیال ڈال دیں گے تو وہ آنے والے وقت میں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جو کرہ ا رض کی تاریخ میں ایک بہت خوشگوار اضافہ ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply