نا اہل کون

اگرمجھ سے سوال کیا جائے کہ جمہوریت اور بادشاہت میں کیا فرق ہے؟تو جناب دس سالوں سے کویت میں مقیم ایک پردیسی پاکستانی کی حیثیت سے میں آپ کی خدمت میں یہ ہی عرض کرسکتا ہوں کہ، جب کسی ملک میں ایک ہی شاہی خاندان کے اہل افراد باری باری حکومت کریں تو اسے بادشاہت کہتے ہیں ،اور جب کسی ملک میں مختلف شاہی خاندانوں کے نا اہل افراد باری باری حکومت کریں تو ایسے نظام حکومت کو میرے وطن میں جمہوریت کہاجاتا ہے۔ کویت دنیا کے ان چند بچے کچے ممالک میں سے ایک ہے جہاں آج بھی باشاہت اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ نافذ ہے۔ میں نے کویت میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران تین بادشاہوں کا دور گزارا یعنی ایک بادشاہ کی وفات کے بعد اسی خاندان کے دوسرے فرد کو بادشاہ بنتے دیکھا ۔اسی دوران اپنے ملک میں بھی مختلف جماعتوں کے منتخب حکمرانوں کو نااہل قرار دے کر اپنے اپنے عہدوں سے ہٹائے جاتے ہوئے بھی دیکھا۔بس سوائے آصف علی زرداری صاحب کے تمام ہی وزرا کو نااہل قرار دے کر کئی بار ملک میں ڈکٹیٹر نے حکومت قائم کی یہاں تک کہ آصف علی زرداری صاحب کی زوجہ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی نااہل قرار پاکر اپنی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔اس تناظر میں کہا جائے کہ سوائے آصف علی زرداری صاحب کے تمام ہی بڑے حکمران کم ازکم ایک بار تو نااہل قرار دیے جا چکے ہیں تو اس میں کچھ غلط نہیں، ہاں یہ بات اور ہے کہ آصف علی زرداری کے دور میں عوام نے محترمہ کے اس قول کو حقیقی معنوں میں محسوس کیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
میں ذاتی طور پر سیاستدانوں کی برائیاں کرنے کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاستدان دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں بہرحال ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔ بس ان میں اگر کچھ مختلف ہوتا ہے تو وہ ہوتا ہے ان کا طریقہ واردات ۔ ۔ ۔اور میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ انسان کے جیسے اعمال ہوتے ہیں تو ان سے حساب کتاب کے لیے ویسے ہی فرشتہ منتخب کیے جاتے ہیں ۔۔اس لیئے جیسی عوام ویسے حکمران!یعنی جب بھی کسی قوم کا منتخب کردہ حکمران نااہل قرار پاتا ہے تو درحقیقت وہ قوم نااہل قرار پاتی ہے جو اس طرح کے حکمرانوں کو منتخب کرتی ہے اوراس حساب سے اگر دیکھا جائے تو ماضی میں ہم بحیثیت ایک قوم کئی بار نااہل قرار پا چکے ہیں،اور اب ایک بار پھر ملک میں کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے ۔ پانامہ کا وائرس پوری طرح وائرل ہوچکا ہے کوئی کہتا ہے کہ میاں صاحب نااہل ہیں تو کوئی کہتا ہے جی سو فیصد اہل ہیں۔میں یہ کہتا ہوں کہ کیا بحیثیت ایک قوم ہم اس بات کےاہل ہیں کہ اپنے ملک کے لیے کسی اہل حکمران کا انتخاب کرسکیں ؟شاید بحیثیت ایک قوم ہم آج تک اپنے ملک کے مستقبل کے لیے رائیٹ پرسن فار دی رائیٹ جاب )right person for the right job ) کے کونسیپٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمیں انتخاب کرنا یا چناؤ کرنا نہیں آتا، ہمارے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر کے لیے جب سبزی لینے بازار جاتے ہیں تو پہلے دس دکانوں کے چکر لگاتے ہیں، سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، پرکھتے ہیں اور پھر انتخاب کرتے ہیں لیکن جب اپنے ملک کے لیے حکمران منتخب کرنے کی بات آتی ہے ۔۔۔ تو نہ ہم سوچتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی ہم پرکھنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔بات احساس ذمہ داری کی ہے بات ہمارے اپنے اہل ہونے کی ہے، جس دن بحیثیت قوم ہم اس بات کے قابل ہوگئے کہ اپنے ملک کے لیے کسی اہل حکمران کا انتخاب کرسکیں تو یقین کریں پھر نہ دھرنے ہوں گے نہ پھر کوئی ڈکٹیٹر آئے گا اور نہ ہی کوئی حکمران نااہل قرار پائے گا کیونکہ جب قوم اہل ہوگی تو پھر حکمران بھی اہل ہوں گے ورنہ جو ہورہا ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا اور یہ ہی چلتا رہے گا اور اب اگرہم چاہتے ہیں کہ اس اہلی اور نااہلی کے ڈرامے سے ہماری جان چھوٹے تو اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں خود اہل ہونا ہوگا۔

Facebook Comments

فرقان علی
اپنے بارے میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ عام سا آدمی ہوں اور عام سی باتیں کرتا ہوں گزشتہ دس سالوں سے کویت میں مقیم ہوں یہاں ایک انٹرنیشنل فیشن برانڈ میں سیلز ایڈوائزر اپنی خدمات نبھا رہا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply