نیم لیکچرار کلاس روم میں۔۔۔طارق احمد /قسط4

گوالمنڈی کے پہلوان ، اسلامیہ کالج کے اسلام پہلوان اور پرنسپل مجید پہلوان سے فراغت ملی تو پہلوانوں کے ایک پورے جتھے یعنی لشکر سے واسطہ پڑ گیا۔ پرانے زمانے کی جنگوں کی مانند جب دو بدو مقابلے کے بعد عام لشکر کشی شروع ہو جاتی اور کشتوں کے پشتے لگ جاتے۔ ہماری اس جنگ میں کشتہ بھی ہمارا بنا اور پشتہ بھی ہمارا ہلا۔ اور یہ معرکہ سر انجام دینے والے فورتھ ایئر کے وہ طلباء تھے  جن کو انگریزی پڑھانے کا مقدس فریضہ ہمیں سونپا گیا۔ ہمارا معاملہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا والا تھا اور یہ کھجوریں تقریباً  چالیس پچاس کے قریب تھیں۔ اونچی لمبی ، تناور اور تیکھی۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا۔۔۔

اندازہ کریں ایک نیا نیا نیم لیکچرار جو ابھی اڑنے بھی نہ پایا تھا۔ اسے پہلے دن ہی فورتھ ایئر کی کلاس کے حوالے کر دیا گیا۔ جی ہاں یہ کلاس ہمارے حوالے نہیں کی گئی بلکہ ہمیں اس کلاس کے حوالے کر دیا گیا۔ اب ہمارے ساتھ جو بھی کرنا تھا اسی کلاس نے کرنا تھا ۔ ہمیں اندازہ تھا ۔ ہمارے خلاف کوئی بین الاقوامی سازش ہوئی  ہے  جس میں اسلامیہ کالج کے اندرونی و بیرونی پہلوانوں کا ہاتھ ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں ،  کسی بھی کالج کے سال چہارم کے طلباء اس کالج کے مائی  باپ ہوتے ہیں۔ جبکہ سال اول کی کلاس کالج میں آئے نئے معصوم بچوں پر مشتمل ہوتی ہے  جسے ہینڈل کرنا آسان ہوتا ہے۔ جبکہ ہماری اس کلاس میں نہ صرف سینئر موسٹ پکے پیٹھے طلباء تھے بلکہ یہ گوالمنڈی کے پکے ہوئے تھے۔ ان میں وہ سیاسی خلیفے تھے جو ہر سال جان بوجھ کر فیل ہوتے ہیں اور ہر سال نیا داخلہ لیتے ہیں تاکہ کالج پر ان کا ہولڈ قائم رہے۔ یہ سیاسی مافیا تھا  جو سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں طلباء فراہم کرتا ہے  اور ان میں وہ شوقین بھی تھے جو کالج لائف انجوائے کرنے آتے ہیں اور شام کو پان سگریٹ کا کھوکھا چلاتے ہیں۔ چنانچہ ابھی ہم کلاس روم میں داخل نہیں ہوئے تھے لیکن سوچ کر ہی ہمارے اوسان خطا ہو چکے تھے اور کچھ مزید اشیاء خطا ہونے کو تھیں۔

انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں ہم کسی ایسی کم عمر دوشیزہ کی مانند گم سم بیٹھے تھے  جس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کسی کھوچل بابے سے طے کر دی گئی ہو  اور آنے والے لمحات کے خوف سے اس پر ہلکا ہلکا لرزہ طاری ہو۔ اوپر سے ہمارے سینئر کولیگز ایسے ستم ظریف تھے  ہمیں حوصلہ دینے کی بجائے ہمارا چیزہ لے رہے تھے۔ آخر وہ نازک ترین لمحہ بھی آن پہنچا جب کالج کے درودیوار نیا پیریڈ شروع ہونے کی گھنٹی سے گونج اٹھے۔ یہ آواز سنتے ہی ہمارا جسم تھر تھرایا اور ہم ایک جھر جھری لے کر کھڑے ہو گئے۔ گھنٹی کی آواز ایسی خوفناک تھی جیسے کسی سورما کو پھانسی لگاتے وقت ناقوس کی صدائیں بلند ہو رہی ہوں۔ ہم لڑکھڑاتے قدموں سے کلاس روم کی جانب روانہ ہوئے گویا پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہے ہوں۔ گلا خشک ہو چکا تھا اور سخت سردی کے باوجود ہمارے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک  رہی تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہمارا پورا بدن بھی لرز رہا تھا۔ ارتعاش کی زلزلہ نما کیفیت تھی،جیسے ہی ہم کلاس روم میں داخل ہوئے ہماری آنکھوں میں مکمل اندھیرا چھا گیا۔ ہمیں دیکھ کر چالیس پچاس مرد نما لڑکے کھڑے ہو گئے۔ ادھر ہماری ہمت بالکل ہی بیٹھ گئی ۔ ہم خواب ناک سی کیفیت میں روسٹرم تک پہنچے۔ اپنی جگہوں پر کھڑے لڑکوں کی جانب منہ کیا جو اس وقت حقیقتا ً فٹے منہ بن چکا تھا  اور خشک گلے سے جو پہلا کھر کھراتا چیخ نما جملہ نکلا وہ یہ تھا۔ سٹینڈ اپ بوائیز ! لڑکے تو پہلے ہی سٹینڈ اپ تھے۔ اور ہم عجب حالت بیہوشی میں سٹ ڈاؤن کی بجائے سٹینڈ اپ بول چکے تھے۔ اس غلطی کا اندازہ تب ہوا جب پوری کلاس نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور آدھے لڑکے بنچوں پر چڑھ کر مزید اوپر کھڑے ہو گئے۔ ہمارے رہے سہے ہوش بھی اڑ چکے تھے۔ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ سر گھوم رہا تھا۔ کلاس روم کی دیواریں گھوم رہی تھیں۔ کھڑکیاں گھوم رہی تھیں۔ لڑکے گھوم رہے تھے۔
ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا!

مزاحمت لیکچراراں ۔۔طارق احمد/قسط3
ہمارا سانس اکھڑ چکا تھا۔ ہمارے قدم اکھڑ چکے تھے۔ قدموں کے نیچے فرش اکھڑ چکا تھا۔ دیواروں کا پلستر اکھڑ چکا تھا  اور ہماری کیفیت اس بکرے کی مانند تھی  جس کےگلے پر چھری پھر چکی ہو اور وہ حالت تشنج میں ہو  لیکن یہ آج یا کبھی نہیں والا معاملہ تھا۔ ہم نے اس کلاس روم پر اپنی رٹ بحال رکھنا تھی۔ ورنہ یہ فورتھ ایئر کے مسٹنڈے روز ہماری کلاس لیتے۔ چنانچہ روسٹرم کو مضبوطی سے پکڑا،ٹانگوں اور زبان کی کپکپاہٹ اور لڑکھڑاہٹ کو کنٹرول کیا۔ بال ٹھیک کرنے کے بہانے سر کو سہارا دیا۔ منہ کو تھوڑا ٹیڑھا کیا۔ آواز کو پاٹ دار کیا۔۔ اور کہا۔ بوائز سٹ ڈاؤن ۔ ہمیں لگا ہماری آواز کچھ زیادہ پاٹ گئی ہے۔ منہ مزید فٹے منہ ہو گیا ہے۔ سر اور ٹانگیں زیادہ کپکپا گئی  ہیں ۔ اور روسٹرم پر ہماری گرفت اور کلاس روم پر ہماری رٹ مزید ڈھیلی ہو گئی ہے۔ لڑکے ہمیں مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ ایک لڑکا بولا۔ سر آپ کے لیے پانی لاؤں۔ دوسرے نے آواز لگائی، کولڈ ڈرنک چلے گی۔ ایک لڑکا ٹشو پیپر لے آیا۔۔ لیں سر پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے۔ ایک پہلوان نما لڑکا خود مقرر کردہ مانیٹر بن گیا۔ اور کھڑے ہو کر کلاس کو ڈانٹ پھٹکار کرنے لگا۔ دوسرے احتجاج کرنے لگے۔ انواع و اقسام کی جگتیں فائر ہو رہی تھیں۔ قہقہے بلند ہو رہے تھے۔ ہمارے چہرے پر بے بسی کی ماری ایک پھیکی مسکراہٹ تھی۔ کم بختوں کو معلوم تھا  یہ کلاس میں بطور ٹیچر ہمارا پہلا پیریڈ ہے  اور یہ پیریڈ بھی کچھ ایسا کہ شیطان کی آنت مانند طویل ہوتا جا رہا تھا۔ جیسے تیسے اسے ختم کیا۔ واپس ڈیپارٹمنٹ میں آئے ۔ ٹھنڈا پانی پیا، گرم چائے پی ۔ نمکین بسکٹ کھا کر کم شوگر لیول کو بحال کیا۔ پہلی کلاس لینے کے آفٹر شاکس شام تک محسوس ہوتے رہے۔ اور اس کے بعد ہم اس کھوچل بابے کی مانند نارمل ہو گئے۔ جو ہر سال ایک نئی بارات کا مکمل اعتماد اور تجربے کے ساتھ سامنا کرتا ہے۔ جی ہاں ہر سال آنے والے نئے طلباء کی کلاس!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply