ذہانت کے آزار سے آزاد لوگ۔۔۔ اسد مفتی

اگر آپ اتنے ذہین ہیں تو پھر آپ کی مالی حالت اتنی پتلی کیوں ہے؟
یہ سوال بڑا عام اور سادہ سا نظر آتا ہے کیونکہ معاشرے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی کا چولی دامن کا ساتھ ہے تاہم ہالینڈ میں ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ذہانت زندگی میں کامیابی میں مدد نہیں کرتی بلکہ الٹا ا س کے آڑےآتی ہے۔ اس موضوع پر کئے جانے والے ایک تحقیقی مقالے و مطالعے کے ڈچ پروفیسر برنک یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس ذہانت کا فائدہ کیا ہے کہ اچھی تنخواہ اور اعلیٰ نوکری کے باوجود کوئی ذہین شخص قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو؟

اس سوال کا جواب دینے کیلئے انہوں نے یورپ کے شماریات کے مرکزی ادارے کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کا بھی بغور مطالعہ کیا ہے جس میں ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ نوجوان خواتین و حضرات سے ان کے حالات زندگی کے بارے میں 25سوالات پوچھے گئے تھے، اس سروے کے سائنسی جائزے سے انہیں معلوم ہوا کہ انسانی ’’آئی کیو‘‘ میں ایک اسکور کے اضافے کا مطلب ہے سالانہ آمدنی 80ہزار یورو کے لگ بھگ ہوگی، تاہم اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ آئی کیو والے افراد زیادہ پیسہ ضرور کماتے ہیں لیکن وہ اس پیسے کو بچا نہیں پاتے اور آخر میں ان کی مالی حالت کم آئی کیو والوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی اور جہاں تک معاشی پریشان حالی کا معاملہ ہے زیادہ عقل یہاں بالکل بے کار ثابت ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کا آئی کیو `140سےزیادہ ہے (یعنی انتہائی ذہین لوگ) وہ کم آئی کیو (یاد رہے کہ اوسط آئی کیو 100ہوتاہے) والے افراد کے مقابلے میں قرضے کی قسطیں ادا کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کے دیوالیہ ہونے کی شرح 15.1فیصد ہے جو محض 80آئی کیو والے افراد کے قریب ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 80آئی کیو والے افراد کند ذہن افراد میں شامل ہوتے ہیں۔

پروفیسر برنک کی تحقیق کے مطابق صرف وہ لوگ معاشی بدحالی سے نسبتاً بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں جن کا آئی کیو 100سے تھوڑا سا اوپر ہو تاہم اگر کسی کو قدرت کی طرف سے زیادہ آئی کیو ودیعت نہیں ہوااور اس وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہورہا ہو تو اسے دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آسٹریلیا کے سائنس دان نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ زیادہ ذہانت اور زندگی میں کامیابی لازم و ملزوم نہیں ہے اس لئے کم ذہانت والے افراد بھی معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں اس کیلئے یہ آسٹریلوی پروفیسر ایک ’’بقراطی ٹوپی‘‘ بنا رہے ہیں۔ آپ نے سلیمانی ٹوپی کے بارے میں تو سنا ہوگا جسے پہن کر انسان نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اب آسٹریلیا کے سائنس دان ایک ایسی بقراطی ٹوپی ڈیزائن کررہے ہیں جس کے پہننے والے کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے گا۔ اس ٹوپی کے اندر ایسے الیکٹرانک آلات نصب ہیں جو ذہن کے بعض حصوں کو بند (آف) اور دوسروں کو ’’آن‘‘ کرسکتے ہیں، ممکنہ طور پر انسان ایسی ٹوپی پہن کر زیادہ ذہین اور تخلیقی ہوسکتا ہے۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی کے پروفیسر ایلن شنائڈر اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس ٹوپی پر تحقیق کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب میں ہر طرح کی صلاحیتیں خفیہ حالت میں موجود ہوتی ہیں لیکن ہمیں ان صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں کہ مجھے دو چیزیں مہمیز کرتی ہیں ایک تو مجھے خیالات کی ساخت جاننے کا شوق ہے کہ آخر ذہن کا بنیادی نقشہ اور بنیادی ڈھانچہ کیا اور کیونکر ہے؟ اور دوسری چیز یہ ہے کہ مجھے دنیا کی ’’حقیقی تصویر‘‘ دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوچنے والی اس ٹوپی پر تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ ان اعلیٰ صلاحیتوں کو صرف ایسے موقعوں پر بروئے کار لایا جائے جب ان کی ضرورت ہو۔ ٹوپی کے اندر ننھے منے مقناطیس لگے ہوئے ہیں جو سوچ کی لہروں کو متاثر کرتے ہیں۔

تجربات کے دوران سائنس دانوں نے دماغ کا فنکارانہ صلاحیتوں سے مالامال حصہ بیدار کردیا اور بایاں حصہ وقتی طور پر بند کردیا۔ واضح رہے کہ ذہن کا بایاں حصہ بنیادی طور پر وقتی یادداشت اور زبان وغیرہ سے متعلق ہوتا ہے اورتجزیاتی فرائض انجام دیتا ہے۔ یہاں ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ دنیا میں 95فیصد کم عقل مندوں سے عقل مند ترین لوگ رقم اور روپے پیسے کی طاقت کو مانتے اور اس طاقت کے کرشمے کو لاشعوری طور پر سمجھتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پیسے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب سے دنیا پر معاشی و اقتصادی بحران ٹوٹا ہے لوگوں میں ذہنی امراض اور ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگار افراد جن کے لئے پیسے کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے وہ پریشانی کی بلند سطح پر پہنچ کر ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بیشتر اختلافات اور قتل و غارت کا سبب بھی کسی نہ کسی طرح دولت ہی قرار پائی ہے۔ ماہرین نے یہ بھی دیکھا ہے کہ روپے پیسے کی موجودگی باقاعدہ بلڈ کیمسٹری میں تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ جدید طبی، نفسیاتی اور جنیاتی تحقیق کے مطابق جیب میں پیسے کی موجودگی انسانی طبیعت میں فرحت اور تازگی پیدا کرتی ہے۔

موڈ میں تبدیلی کے اس عامل پر ہونے والی تحقیق کے مطابق عورتیں اس عمل سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جو مردوں سے 79گنا زیادہ ہے۔ خانگی مسائل کی زیادہ وجہ بھی جیب میں پیسے نہ ہونا ہے کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پیسے سے ایسے بہت سے مسائل دب جاتے ہیں جو عام حالات میں لڑائی جھگڑوں اور علیحدگی کا سبب بنتے ہیں اور آئے روز کے قتل و غارت میں بھی غربت کا کہیں نہ کہیں ہاتھ نظر آتا ہے ۔یہ بات درست ہے کہ پیسے سے خوشی و مسرت نہیں خریدی جاسکتی لیکن پیسے کے ساتھ وہ چیزیں ضرور خریدی جاسکتی ہیں جن سے انسان کو طمانیت اور خوشی ہوتی ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے اور اکثر احساسات گردوپیش کے تابع ہوتے ہیں، میرے حساب سے خوشی کا انحصار اس پر بھی ہے کہ آپ کتنے صحت مند ہیں، خوشی کی تعریف میں پہلی اور بنیادی شق یہ ہے کہ کیا آپ صحت مند ہیں؟ یعنی انسانی صحت کو خوشی حاصل کرنے میں پہلا مقام حاصل ہے، اس کے بعد پیسہ ہے یعنی آپ کے پاس کتنا پیسہ ہے؟ اور یہ بھی کہ وہ کیسے حاصل ہوا ہے، محنت سے کمایا ہوا ایک دھیلہ بھی جب ہتھیلی میں آتا ہے تو وہ خوشی کا احساس دلاتا ہے اور استحصال و ناجائز ذرائع سے حاصل کیا جانے والا قارون کا خزانہ بھی ایک دیانت دار آدمی کو سوائے خلش کے کچھ نہیں دیتا۔

ماہر نفسیات نے کہا ہے کہ خوش رہنے کیلئے آپ کو ایک خاص حد تک پیسے کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ کی آمدنی اس خاص سطح سے کم ہے تو اس میں اضافہ کرکے آپ اپنے لئے مزید خوشیاں خرید سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی آمدنی اس حد سے زیادہ ہے تو پھر اس کے بعد جیسےجیسے آپ کی آمدنی بڑھتی ہے خوشی کا احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ ہالینڈ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 75ہزار یورو سالانہ آمدنی کے ساتھ آپ بہت سی خوشیاں خرید سکتے ہیں جبکہ 50ہزار پونڈ سالانہ آمدنی کے ساتھ برطانیہ میں اپنے حصے کی خوشیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جو چیزیں ہمیں خوشی دیتی ہیں، ان میں سے اکثر پیسے کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں چنانچہ پرانے وقتوں کی یہ کہاوت اپنی موت آپ مرچکی ہے کہ خوشیاں خریدی نہیں جاسکتیں۔ ہاں البتہ سرمایہ داری بری ہے اور سرمایہ دار ہر حال میں برا ہے کہ کوئلہ جب گرم ہوتا ہے تو ہاتھ جلاتا ہے اور ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہاتھ کالے کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انسان کو سب سے عظیم دو ہی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ زندگی اور مقصد زندگی، کہ دل کا سکون دماغ کے سکون سے بہتر ہے۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply