سول سروس کے جن مقامی افسران نے سب سے پہلے مقابلے کے ان امتحانات میں کامیابی حاصل کی وہ سب کے سب بنگالی تھے جن میں سب سے پہلے تو ستیندر ناتھ ٹیگور تھے جو رابندر ناتھ ٹیگور کے چھوٹے بھائی تھے۔یہ کچھ عرصہ حیدرآباد۔ سندھ میں بھی اسسٹنٹ کمشنر رہے تھے۔ سندھ کے اپنے افسر آج بھی مرتے دم تک مرکزی ملازمت کے افسر ہونے کے باوجود سندھ سے باہر کی ملازمت سے گھبراتے ہیں جب کہ اعلی بنگالی خاندان کا یہ افسر جنگ عظیم اول سے پہلے سندھ افسر ی کرنے پہنچ گیا تھا۔ان افسران کو آئی سی ایس افسران کہا جاتا تھا اور یہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔اس انتطامی مشنری کو ہندوستان کا‘steel frame’کہا جاتا تھا۔
یہ انگریز افسران جہاں جاتے وہاں کے لوگوں کی بود و باش، ان کی کمزوریاں، ان کی زبان اور اپنے علاقے کی ترقی میں بہت خصوصی دل چسپی لیتے تھے۔ ان کے ترتیب دیے ہوئے سرکاری مجلے جنہیں یہ اپنے علاقے میں تعیناتی کے دوران ترتیب دیتے تھے آج بھی اپنے علاقہء اختیار سے ان کی بے پناہ واقفیت کی گواہی دیتے ہیں۔اس کے گیزیٹوں میں درج ہے کہ کس سردار کی دم کیسے مروڑنی ہے۔ایک سرکشی پر اتر آئے تو اس کو دوسرے کی مدد سے کیسے سیدھا کرنا ہے۔کس سردار کو دفتر میں کھڑا رکھنا ہے کس کو کرسی دینی ہے۔سردار اکبر بگٹی کے ڈاکٹرظفر الطاف سی ایس پی اور ہمارے ایک اور اعلی افسر سے اچھے مراسم تھے۔ایک دن ترنگ میں آن کر کہنے لگے کہ”قیام پاکستان سے پہلے میرے باپ کو چوپال(بیٹھک) کے باہر اگر پٹواری دکھائی دے جائے تو اس کا رنگ بدل جاتا تھا اور وہ سمجھ جاتا تھا کہ تحصیل دار صاحب کا بلاوا ہے۔ دروازے کے باہر جس کے بھی جوتے نظر آتے میرا باپ پہن کر بھاگتا تھا کہ دیر نہ ہوجائے اور اب دیکھو یہ(گالی دے کر) وزیر اعظم بھٹو مجھے کال کرتا ہے تو میں اس کو کئی کئی دن جواب نہیں دیتا۔“
اپُن کا کراں چی،سندھ ،سول سروس اور انگریز۔۔۔محمد اقبال دیوان/قسط10
در اصل انگریز افسروں نے اپنی تعیناتی کے دوران یہاں جو کتابیں لکھیں وہ ان کی علمیت کی بین گواہ ہے اس میں سر میلکم لائل ڈارلنگ کی کتاب The Punjab Peasant in Prosperity and Debt جس میں اس نے پنجاب کے کسان طبقے کے اپنے پیر، مذہبی رہنما، زمین دار اور ملّا سے تعلقات کا بڑی تفصیل سے احاطہ کیا ہے وہ اب بھی ایک بے مثال کارنامہ سمجھی جاتی ہے اسی طرح سندھی زبان کے موجودہ سکرپٹ (رسم الخط) کی ابتدا ایک دفتری مخاصمت سے ہوئی۔
سندھ کے حکمران میر نصیر خان ٹالپر کی انگریزوں کے ہاتھوں جنگ میانی فارسٹ میں شکست کے تین سال بعد سن1846 میں حیدرآباد شہر میں میونسپل کارپوریشن بنا دی گئی۔انگریزوں نے ایک ہندو بنیے مکھی ہیرا نند کو اس کارپوریشن میں ایک ممبر بنادیا۔حیدرآباد کے انگریز کلکٹر نے اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ہندو بنیے مختارکار(تحصیلدار)دیوان باگو مل کو بھی ریکارڈ کو ترتیب دینے کا فریضہ سونپ دیا۔باگو مل کو سندھی زبان موجودہ عربی رسم الخط میں لکھنا آتی تھی۔مسئلہ یہاں سے شروع ہو ا کہ مکھی ہیرا نند جن کے ذمے تھا وہ سندھی زبان خداآبادی رسم الخط میں لکھنا جانتے تھے اس تفاوت سے بہت الجھن محسوس ہوئی۔
انگریز افسروں کی ایک اکثریت اس بات کی حامی تھی کہ یہ ریکارڈدیوناگری رسم الخط میں محفوظ کیا جائے۔اس کے برعکس ہندو افسران سندھی زبان عربی رسم الخط میں لکھنے کے حامی تھے۔اس پر ایک بحث کا آغاز ہوگیا۔ بالآخر معاملہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز تک جاپہنچا اور سر بارٹل فرئیر جو اس وقت سندھ کے کمشنر تھے انہیں اس معاملے کا ثالث بنادیا گیا۔ فیصلہ عربی رسم الخط میں لکھے جانے کے حق میں ہوا لیکن اس میں زان کے رچاؤ اور مزاج کو سمونے کے لیے اس کا سکرپٹ فارسی زبان سے مستعار لیا گیا۔ اس میں اٹھارہ الفاظ وہ خاص حروف تہجی تھے جو سندھی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں پائے جاتے۔۔
اس دور کے کمشنر کی طاقت اور معاملہ فہمی کا اندازہ اس سے کیجئے کہ اس کا صادرکردہ فیصلہ 172 سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے اصل روپ میں مروج ہے۔ 1852 میں سندھی زبان کا موجودہ باون الفاظ کا سکرپٹ اس وقت کے کمشنر کی ہدایت پر ایک سندھ ہند و نارائن جگن ناتھ مہتا نے ترتیب دیا۔
انگریز وں کی ہندوستان میں حکمرانی پر بہت انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ مواصلات، ریلوے، نہروں، گھروں میں استعمال ہونے والے پانی کی ترسیل ،نکاسی ء آب، قانونی اور عدالتی نظام، پولیس اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز کی جو تعمیر ان انگریزوں نے کی وہ صرف انہی کا خاصہ تھا۔مغلوں نے تو صرف مقبرے، باغ اور قلعے بنائے۔
مغل عیاش اور ذاتی حکمرانی اور طمطراق کے گرویدہ تھے وہInstitution Builder نہیں تھے۔انہوں نے سب سے غیر ضروری عمارت تاج محل بنائی۔اس پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ آج کے حساب سے دس کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔ان اخراجات کے بعد فوج کو رکھنے کے لیے لازمی اخراجات میں کمی آگئی۔سپاہی اور ان کے سپہ سالار ادھر ادھر ہوگئے۔ شاہجاں کی حکومت پر گرفت کمزور پڑگئی۔کوئی محرومی سی محرومی ہے کہ جس وقت یورپ میں ہائیڈل برگ، آکسفورڈ اور کیمبرج یونی ورسٹی بن رہی تھی ہمارے حکمران مزارات بنا کر امر ہونے کا سوچ رہے تھے۔
جرنیلی سڑک شیر شاہ سوری نے بنائی، روپے کا نظام (اب بھی تقریباً نو ممالک میں کرنسی کے لیے لفظ روپیہ ہی استعمال ہوتا ہے) اور ڈاک اور مالیے (Revenue) کا موجودہ نظام اسی کے چار سالہ دور حکومت کا کارنامہ ہے جس میں انگیزوں نے جدید تقاضے شامل کیے۔شیر شاہ سوری نے بادشاہ بننے کے فوراً بعد ایک مختصر سا فرمان جاری کیا تھا جو آج بھی پاکستان میں حکمرانوں کے لیے مشل راہ بن سکتا ہے۔اس فرمان میں درج ہے کہ:
”حکمران کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنی رعایا کے جان و مال کا تحفظ ہے۔اس پر لازم ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کرتے وقت مملکت کے تمام باشندوں سے معاملات میں انصاف اور برابری کے تقاضوں کو مدنظر رکھے۔اس پر یہ بھی لازم ہے کہ اس کے اعمال دار لوگوں سے معاملات میں ظلم، ناانصافی اور غفلت شعاری سے اجتناب کریں۔
(حوالے کے لیے دیکھیں A short history of Muslim Rule in India by
ISHWARI PRASAD,
انیسویں صدی کے اواخر تک یہاں امن و امان کا وہ عالم تھا کہ سندھ کے ایک کمشنر سر بارٹل فریئر جن کے نام سے ایک روڈ ایک مارکیٹ اور کراچی کا سب سے خوبصورت باغ فرئیر گارڈن اب بھی موجود ہے نے اپنے ایک اسسٹنٹ کمشنر ولیم میری ویدر(جن کے نام سے ایک مشہور ٹاور میری ویدر ٹاور کراچی کے مشہور ترین کاروباری مرکز میں موجود ہے) کے حوالے سے بمبئی پریذیڈینسی کے گورنر سر چارلس جیمز نپیئرجب سندھ سے بمبئی رخصت ہوئے تو سندھ کی فتح کے بعد سے بلوچستان سندھ اور پنجاب کے سنگم پر کچھ علاقوں میں بے چینی تھی۔وہاں اب جان جیکب، جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر تھے اور ولیم میری ویدر اسٹنٹ کمشنر۔نیپئر نے خط کے ذریعے سندھ کے کمشنر فرئیر بارٹل سے پوچھا کہ ان شورش زدہ علاقوں کا کیا حال ہے تو جواب بھیجا گیا کہ میرا اسٹنٹ کمشنر اور اس کا باس جان جیکب کہتے ہیں کہ “here on the frontier (with Punjab) under the mountains
not a mouse stirs without Merewether’s permission”(پنجاب کی سرحد پر واقع سندھ کے علاقے کے کسی پہاڑ کے کونے کھدرے میں بھی کوئی چوہا تک میری ویدر کی اجازت کے بغیر دم نہیں ہلا سکتا۔)
میری ویدر صاحب بہادر اس وقت جیکب آباد کے اسسٹنٹ کمشنر تھے اور سر جان جیکب وہاں کے ڈپٹی کمشنر۔ یہ دعوی اب شاید پاکستان کی سب سے مقتدر شخصیت اسلحہ اور وسائل کی بھرمار میں بھی کرنے کی مجاز نہیں۔
اس دورا ن یہاں یہ تذکرہ بھی بہت برمحل ہوگا کہ سرکار انگلیشیہ کے جنرل سر چارلس جیمز نیپیئر جن کا یہ قول بھی بہت دل چسپ ہے کہ
”انسانی فطرت جذبہء احسان مندی اور لگاؤ سے تب تک ہی ہم آہنگ رہتی ہے جب تک اس کو خوف کے محلول سے دھوتے رہیں۔“

جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اپُن کا کراں چی،سندھ ،سول سروس اور انگریز۔۔۔محمد اقبال دیوان/قسط11“