جے آئی ٹی کی تشکیل سے پاناما ٹو کا آغاز

جے آئی ٹی کی تشکیل سے پاناما ٹو کا آغاز
طاہر یاسین طاہر
ویسے تو پوری دنیا میں پاناما سکینڈل نے ہلچل مچائی اور بالخصوص ان ممالک میں جہاں پارلیمان مضبوط اور عوام کی قوت قابل اظہار ہے ،وہاں کے سیاسی لیڈروں نے استعفے پیش کر دیے۔پاناما سکینڈل منظر عام پر آتے ہی آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے نام آنے پر استعفیٰ پیش کیا جبکہ برطانیہ کے وزیر اعظم نے پارلیمان میں آ کر وضاحت دی۔اسی طرح گذشتہ دنوں مالٹا کے وزیر اعظم نے اہلیہ کا نام پاناما لیکس سکینڈل میں آنے کے بعد ملک میں نئے انتخابات کرانے کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ ہم پاکستانی بھی اسی نوع کے کسی بڑے اورقابل ِفخر تاریخی فیصلے یا کردار کے منتظر ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی قیادت اورجمہوری روایات ابھی اس قدر بالغ اور مستحکم نہیں ہو سکیں کہ ہم بھی یہ دن دیکھیں۔
چنانچہ ہم ایسے ملکوں یا نام نہاد جمہوریتوں کے پروردہ خطوں والے باسی اپنی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہوتے دیکھتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم صاحب اسی وقت پارلیمنٹ آ کر خطاب کرتے اور اگلے ہی لمحے استعفیٰ پیش کر دیتے۔ اس بنا پر کہ پاناما کے ایک بڑے مالی سکینڈل میں ان کے بیٹوں اور خاندان کا نام آیا ہے۔ اس سے ان کی اخلاقی اور سیاسی ساکھ بام ِعروج کو چھوتی۔مگر انھوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا ۔میڈیا میں یہ بات کئی بار رپورٹ ہوئی ا ور اس پہ تجزیے ٹانکے گئے کہ حسن نواز اور حسین نواز کے بیانات میں تضادات ہیں۔ مے فیئر فلیٹس کے حوالے سےوزیر اعظم صاحب کے خاندان کے دیگر افراد کے بیانات میں بھی تضادات ہیں۔فیکٹریوں کی فروخت کے بارے بھی ابہام ہے۔عمران خان جو پہلے ہی حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے تھے انھوں نے اس ایشو کو زندہ رکھا اور سپریم کورٹ جا پہنچے۔یہاں وزیر اعظم صاحب نے اپنے دفاع میں قطری شہزادے کا خط پیش کیا، جسے کورٹ نے مسترد کر دیا۔القصہ وزیر اعظم صاحب منی ٹریل اور اس کیس سے متعلقہ دیگر دستاویزات سے عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔جس کے باعث دو معزز جج صاحبان نے تو پاناما کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم صادق اور امین نہیں رہے اور وہ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں، جبکہ پانج رکنی بینچ کے تین دیگر ججز نے اس کیس میں لکھا کہ جے آئی ٹی بنا کر اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جائیں۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس بات پہ متفق نظر آیا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی جانی چاہیے اور پھر جے آئی ٹی کی تحقیق کی روشنی میں وزیر اعظم کی اہلیت کے بارے فیصلہ دیا جائے۔
قانون و آئین کی پیچیدگیاں اور باریکیاں تو علمائے قانون بیان کرتے رہیں گے اور بلا شبہ برسوں اس حوالے سے بحث بھی ہوتی رہی گی۔ہم ایسے اخبار نویس تو تجزیے کا پیٹ بھرنے کو ہر موضوع کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، پاناما والا فیصلہ،جے آئی ٹی اور عدالت عظمیٰ کا رویہ سمجھنے کے لیے بہر حال آئینی و قانونی مہارت ضروری ہے۔البتہ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر وزیر اعظم صاحب اس مرحلے پر بھی خود کو منصب سے الگ کر کے جے آئی ٹی پر اثر انداز ہونے کے تاثر کو ختم کر دیتے۔وطن عزیز میں تحقیقاتی کمیشنز اور جے آئی ٹی وغیرہ کی تاریخ قابلِ رشک نہیں ہے۔ یہ جے آئی ٹی مگر مختلف ہوگی۔کیونکہ اس کے اراکین کا انتخاب بھی سپریم کورٹ نے از خود کیاا ور نگران بھی سپریم کورٹ ہی ہو گی۔
بے شک جے آئی ٹی میں سپریم کورٹ نے ہر نمائندہ ادارے سے قابل اور اچھی شہرت کے حامل افسران کا انتخاب کیا ہے۔سپریم کورٹ نے پاناما کیس پر فیصلے کے حوالے سے ایک خصوصی بینچ بھی قائم کیا ہوا ہے۔اس تین رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل کررہے ہیں جبکہ دیگر ججز میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔خصوصی بینچ پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے ایک اسپیشل سیکشن قائم کیا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار محمد علی کو، کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے جبکہ ڈپٹی رجسٹرار اور اسسٹنٹ رجسٹرار جے آئی ٹی ،کوآرڈینیٹر کی معاونت کریں گے،اور مستقبل میں جے آئی ٹی اور بینچ کے درمیان رابطہ کوآرڈینیٹر کے ذریعے ہوگا۔ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ ہر 15 روز کے بعد کوآرڈینیٹر ایڈیشنل رجسٹرار کو جمع کرائے گی جبکہ بینچ کی جانب سے دیئے جانے والے احکامات بھی کوآرڈینیٹر کے ذریعے جے آئی ٹی کو موصول ہوں گے۔
جے آئی ٹی کی تشکیل اور پاناما کیس فیصلے کےحوالے سے عدالت ِعظمیٰ کی توجہ ،یہ احساس دلانے کو کافی ہے کہ جے آئی ٹی پر کسی بھی طرح اثر انداز ہونے کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔کیا ہی اچھا ہو کہ اب اس مرحلے پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے سیاسی قوتیں جے آئی ٹی میں اپنا اپنا موقف پیش کریں۔حکومت کی اولین ترجیح بہر حال لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا خاتمہ ہونی چاہیے ۔جے آئی ٹی کی تحقیقات کیا ہوں گی؟ یہ وقت بتائے گا اور اس کا انحصار شواہد پر ہے۔مگر سچ یہی ہے کہ جے آئی ٹی بننے سے وزیر اعظم صاحب کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ سخت متاثر ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی دلیل مضبوط ہے کہ اگر آئس لینڈ کا وزیر اعظم مستعفی ہو سکتا ہے تو ہمارا کیوں نہیں؟جے آئی ٹی سے پاناما سیکشن ٹو کا آغاز ہو چکا ہے،یہ مرحلہ ہنگامہ خیز تو ہے ہی ، نئے انتخابات کا بگل بھی ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply