بنتی مٹتی تہذیبیں

انسان وہ چوب خشک ہے جس سے ہر دم آواز دوست آتی ہے اور خدا وہ ذات ہے جس سے انسان کو اس کا شرف اور شعور ملتا ہے. زندگی کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس مہلت میں انسان خدا سے اپنا تعلق قائم کرے. تلاش حق میں انسان کی ساری صلاحیتیں حد کمال تک پہنچ جاتی ہیں اور روح انتہائی بلندیوں کو چھو لیتی ہے. جہاں کمال اور بلندی جمع ہو جائیں وہاں تاریخ انسانی کی تہہ میں چھپی ہوئی شاعری ایک ایسے احساس میں بدل جاتی ہے جو صرف خدائے عزوجل اور بزرگ و برتر کے حضور پیدا ہو تی ہے. یہ رائے اس انگریز مؤرخ کی ہے جو تاریخ کے بکھرے ہوئے اوراق میں اس شاعری کی تلاش کرتا ہے جو خدا کو پہچاننے میں مدد دیتی ہے.ٹائن بی کی اہمیت اس کی شہرت سے زیادہ ہے مگر یہ اہمیت اور شہرت دونوں اس کی کتاب “تاریخ کا ایک مطالعہ” پر مبنی ہیں. یہ کتاب تیرہ ابواب،دس جلدوں اور زندگی کے 33 سالوں پر محیط ہے. اس کتاب کا موضوع کسی عہد یا علاقے کی تاریخ نہیں بلکہ تاریخ عالم اور تاریخ انسانی کا ایک ایسا جائزہ ہے جس کی رو سے ایک نیا فلسفہ تاریخ جنم لیتا ہے. ٹائن بی کے فلسفہ تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ تاریخ کے مطالعہ کے لئے موزوں اکائی ملکوں کی غیر مستقل سرحدیں ہیں نہ ان کی عارضی حکمرانیاں بلکہ تہذیب یا معاشرہ ہے. تاریخ عالم میں اٹھائیس تہذیبوں کے نشان ملتے ہیں جن میں سے اٹھارہ فنا ہو چلی ہیں، نو زوال پذیر ہیں، ایک ترقی یافتہ ہے مگر اس کا مستقبل بھی دوسری تہذیبوں سے مختلف نہ ہوگا.
ٹائن بی نے تہذیب کی ابتدا اور فنا کے بارے میں دو نظریات پیش کئے” نظریہ مجاہدہ” اور” نظریہ زوال و انتشار”. نظریہ مجاہدہ کا حاصل یہ ہے کہ مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے جب کوئی معاشرہ فتح حاصل کر لیتا ہے تو تہذیب کی داغ بیل پڑ جاتی ہے. یہ مشکلات داخلی اور خارجی دونوں طرح کی ہو سکتی ہیں. ہر تہذیب کا ارتقا طباع افراد کی اقلیت کا مرہون منت ہوتا ہے. یہ لوگ پہلے راستہ ڈھونڈتے اور تراشتے ہیں. تلاش راہ کے دوران طباع افراد کو تنہا یا ان پر مشتمل اقلیت کو رخصت اور مراجعت کی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے. جہاں اکثریت نے طباع افراد یا اقلیت کی پیروی کا صحیح حق ادا کیا وہاں تہذیب ترقی پذیر رہتی ہے.نظریہ زوال و انتشار میں ٹائن بی زوال کی وجوہات اور انتشار کی کیفیات کا ذکر کرتے ہیں. وہ خودارادیت کی ناکامی کو زوال کی وجہ گردانتے ہیں جو طباعی کے فقدان سے پیدا ہوتی ہے. اس کی کئی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں.
پہلی یہ کہ جب معاشرے میں نئی سماجی طاقت کا اظہار ہو اور اس کے مطابق پرانے اداروں میں تبدیلی نہ کی جائے تو ایسا انقلاب آجاتا ہے جس میں سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے یا پرانے ادارے مسخ ہوجاتے ہیں اور نئی توانائی سلب ہوجاتی ہے.
دوسری صورت یہ ہے کہ طباعی سے کسی بڑی صورت حال پر فتح پا لی جائے تو اس کے بعد عین ممکن ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور غرور اتنا ہوجائے کہ آئندہ عام صورت حال میں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے.
تیسری صورت کسی کامیاب ادارے مثلا شہنشاہیت، پارلیمنٹ، اعلی ذاتیں یا پاپائیت سے ایک ایسا مہلک لگاؤ ہے کہ جب ان سے وابستگی نقصان دہ ثابت ہو تب بھی ان سے علیحدہ نہ ہو سکیں.
چوتھی صور ت اسی قسم کی اس وابستگی سے متعلق ہے جو کسی ایجاد یا اصول سے پیدا ہوجائے.
پانچویں صورت خودکشی بتوسط لشکرکشی ہےجس کو یونانی” افراط، غیر ذمہ داری اور تباہی” کے تین الفاظ میں بیان کرتے تھے کہ اگر جنگ کا دائرہ وسیع کیا جائے تو لشکر کشی اور خود کشی مترادف بن جاتے ہیں.
چھٹی صورت کامیابی کا نشہ ہے. کامیابی ایک عارضی سکون اور دائمی آزمائش کی شکل اختیار کرجاتی ہے. ایک مسئلہ عارضی طور پر حل ہوجاتا ہے مگر کئی اور مسئلے توجہ طلب بن جاتے ہیں. کامیابی کا نشہ اس کی مہلت نہیں دیتا کہ نئے مسائل کا احاطہ کیا جائے. یہی مہلت کی کمیابی، کامیابی کے لئے مہلک ہوتی ہے۔
ٹائن بی کے یہاں زوال تہذیب محض ایک سنگ میل ہے. یہاں پہنچ کر اونچائی ختم ہو جاتی ہے. باقی راستہ نشیب میں طے کرنا پڑتا ہے. یہاں تک کہ انتشار تہذیب کی منزل آجاتی ہے جہاں اس تہذیب کی تاریخ ختم ہوجاتی ہے. اس کے بعد اس تہذیب کے قصے اساطیر الاولین کہلاتے ہیں اور اس کے آثار سطح زمین پر کم اور اس کے نیچے زیادہ ہوتے ہیں. اس مرحلے پر اس تہذیب کا حال درس عبرت میں لکھ لیتے ہیں اور اس کے آثار کو محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیتے ہیں. اس مردہ تہذیب کے مٹی کے ٹھیکروں پر عجائب گھر میں ٹکٹ لگ جاتا ہے اور یہ آمدنی موجودہ تہذیب کے کام آتی ہے.انتشار تہذیب کی کیفیات اور ماہیت کا جائزہ ٹائن بی کو اس نتیجے تک لے آتا ہے کہ جب معاشرہ ٹکڑے ٹکڑے اور روح عصر فگار ہو تو جان لیجئے کہ انتشار مکمل ہو چکا ہے. معاشرے کے تین ٹکڑے ہوجاتے ہیں” جابر اقلیت، بیزار عوام اور نامہرباں ہمسائے”. روح جب فگار ہوتی ہے تو لوگوں کا رویہ، احساسات اور طرز زندگی بالکل بدل جاتے ہیں. معاشرہ جب پارہ پارہ ہوجاتا ہے تو وہ محض اس داخلی حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشرے کی روح زخمی ہوچکی ہےاور زخم اس معاشرے کے ہر فرد کے دل پر لگ چکا ہے. دل زخمی ہوں تو تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے”فعالی یا انفعالی” طباعی کی جگہ بے جا اضطرار پیدا ہوتا ہے یا غیر ضروری احتیاط.طباعی کی تقلید کرنے والی اکثریت یا تو نافرمان ہوجاتی ہے یا اتنی فرمانبردار کہ خواہ مخواہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہے. جہاں تک احساسات کا تعلق ہے ان میں بے کسی اور بے دلی نمایاں ہوجاتی ہیں.طرز زندگی میں ایک روش قدامت پسندی کی ہوتی ہے اور دوسری جدیدیت کی، دونوں غیر حقیقت پسند طریق ہونے کی وجہ سے ٹکراؤ اور تشدد کا باعث بنتے ہیں. زندگی ایک بے معنی اور بے مقصد وقفہ بن جاتی ہے جس میں مختلف اثرات یوں گھل مل جاتے ہیں کہ وہ ایک بے ربط ڈھیر کی شکل اختیار کر لیتی ہے. اخلاق پست اور مذاق پست تر ہوجاتا ہے. فنون لطیفہ میں کثافت پیدا ہوجاتی ہے. زبان پہلے فصاحت و بلاغت کھو دیتی ہے، پھر بولیوں میں بٹ جاتی ہے. فلسفہ ہائے حیات اور مذاہب ایک دوسرے سے گڈمڈ ہوجاتے ہیں. زندگی کا سارا نظام بے ترتیب نظر آتا ہے. پھر اس گرتی دیوار کو کسی سپہ سالار، کسی فلسفی یا کسی اوتار کا سہارا ملتا ہے مگر وہ عارضی ہوتا ہے اور اس کے بعد جو گرتا ہے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہوجاتا ہے.
یہ نکتہ ہمیں ٹائن بی سے پہلے ابن خلدون کے ہاں بھی ملتا ہے جس کی ٹائن بی نے بہت تعریف کی ہے. ابن خلدون تہذیب اقوام کی ترقی اور تنزلی پر فلسفی کی حیثیت سے غور کر کے یہ نتیجہ اخذکرتے ہیں کہ ترقی کے لئے بدوی عصبیت اور فضیلت کے ساتھ ایک اعلی اور ارفع مقصد یا مثال کا ہونا ضروری ہے. اسی طرح ابن خلدون نے زوال کے بھی تین اسباب گنوائے ہیں “ضعف اشراف، تشدد افواج اور لہوولعب”.ٹائن بی نے اپنی طویل اور سلسلہ وار کتاب کا اختتام ایک طویل اور سلسلہ وار دعا پر کیا ہے. یہ دعا برگزیدہ ہستیوں سے خطاب کی صورت میں ہے. وہ مولانا رومؒ کی نفس سرشار سے الوہی نغمہ سنانے کی فرمائش کرتے ہیں. رسول اللہ ﷺ سے شفاعت کی درخواست کی ہے تاکہ کمزور و ناتواں انسان کو اپنی ناطاقتی سے بلند ہوکر حق کی خدمت کا موقع مل سکے. دعا کا یہ سلسلہ قرآن مجید کی ایک آیت پر تمام ہوتا ہے. یہ آیت قرآنی فلسفہ تاریخ میں ایک اصول کی حیثیت بھی رکھتی ہے. ان میں سے اگر صرف تین بنیادی آیات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ ٹائن بی کی فکر قرآن مجید سے کس قدر قریب اور متاثر تھی اور اس نے کتاب کے اختتام کے لئے قرآن ہی کی ایک آیت کیوں منتخب کی. ان تین آیات میں جو اصول بیان کئے گئے ہیں وہ اٹل اور محکم ہیں. ان سے کسی بھی تہذیب، تمدن،معاشرے اور ملت کو استثنا حاصل نہیں۔
پہلا اصول: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو (الرعد:آیت 11) یعنی خودارادیت کی ناکامی،طباعی کا فقدان.
دوسرا اصول: اگر ہم بعض کو بعض پر فوقیت نہ دیتے،تو معبدوں،مسجدوں اور گرجوں میں خدا کا نام لیوا کون رہ جاتا(الحج:آیت 40) اور زمین میں فساد برپا ہوچکا ہوتا(البقرہ:251) یعنی تہذیبوں کی فتح و شکست کی علت.
تیسرا اصول: اور بالآخر سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے(مائدہ:48,120؛یونس:4) یعنی اصول فنا. ٹائن بی اپنے مطالعہ تاریخ کو اس آیت پر ختم کرتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

(یہ تحریر مختار مسعود صاحب مرحوم کی کتاب آواز دوست کے باب قحط الرجال کے ایک مضمون کی تلخیص ہے)

Facebook Comments

احمدالعباد
پیشہ:ڈاکٹر۔ پسندیدہ مشاغل:نیند اور کتاب- سوچ:سطحی، عمل:منافقت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply