اورنگ زیب عالمگیرکا مقدمہ۔۔۔ثاقب ملک

جونہی کوئی دیسی لبرل، سیکولر چوزہ اپنے انڈے سے نکلتا ہے تو اسکی چونچ سب سے پہلے اورنگ زیب عالمگیر پر ضرب لگاتی ہے. اسکے بعد قائداعظم اور پھر چل سو چل.( ایسا کیوں کیا جاتا ہے اسکا جواب تحریر کے آخر میں دونگا )دوسری جانب جو مسلکی ریوڑ سے نکلتا ہے، یا اوریا مقبول جان، زید حامد قسم کی مخلوقات کے آگے سر جھکاتا ہے وہ اپنے گھوڑے دوڑاتے اسلامی ہیروز کی کہانی محمد بن قاسم کے بعد عالمگیر سے شروع کرتا ہے. تیسری جانب وہ ہندو جو ہندو توا کا پرچم لہراتے مسلمان دشمنی کو اپنی سیاسی بقا سمجھتے ہیں وہ بھی غراتے ہوئے عالمگیر پر پل پڑتے ہیں.

یہ سب تعصب، ردعمل اور تاریخ سے مکمل جہالت کا نتیجہ ہے.

اورنگ زیب عالمگیر پر بنیادی طور پر تین الزامات عائد کئے جاتے ہیں.

1. وہ مذہبی انتہا پسند تھا. ہندوؤں کا بدترین دشمن تھا. اس نے مندروں کو لوٹا اور انہیں گرا کر مسجدیں بنائیں. اسکے دور میں ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا جاتا تھا. ان پر جزیہ لگایا گیا. اسی کی وجہ سے ہندو مسلمان نفرت شروع ہوئی. یعنی وہ موجودہ مذہبی شدت پسندی کا باوا آدم ہے.

2. وہ ایک ناکام بادشاہ تھا. پورا دور حکومت وہ مرہٹوں، جاٹوں، راجپوتوں اور سکھوں سے لڑائی میں مصروف رہا. اس نے اپنی سلطنت اتنی وسیع کر لی کہ سنبھال نہ سکا. عوام اس سے تنگ تھے. مغل بادشاہت کا زوال اسکی وجہ سے ہوا. اسکی وجہ سے انگریز ہندوستان پر قابض ہوسکے.

3. وہ ایک منافق اور ظالم ترین بادشاہ تھا. اس نے اپنے باپ شاہ جہاں کو قید کئے رکھا. اپنے بھائی دارا شکوہ کو قتل کروا دیا. اپنے بیٹے اکبر کے خلاف جنگ کی. نماز بھی کوئی نہ چھوڑی اور اپنے خاندان کا کوئی بندہ بھی زندہ نہ چھوڑا. اسلامی حکومت کے نام پر بدترین مذہبی تھیو کریسی قائم کئے رکھی. اس نے صوفی سرمد کو پھانسی دلوائی. وہ شیعوں کے بھی مخالف تھا.

تاریخ دیکھتے ہیں.

پہلے الزام پر بات کرتے ہیں.

اورنگ زیب عالمگیر واقعتاً ہی ایک کٹر مذہبی انسان تھا. لیکن ہندوؤں سے دشمنی کا الزام ایچ ایلیٹ، ڈاسن، کننگھم جیسے متعصب گورے تاریخ دانوں اور پھر انکے پیروکار برصغیر کے مورخین کی کارستانی ہے، جن میں سر جادو ناتھ سرکار، آر سی مجمدار، ایشوری پرشاد وغیرہ شامل ہیں . مقصد ہندو مسلم دشمنی کی آڑ میں اپنا اقتدار مضبوط کرنا تھا. بعد میں ہندوؤں نے اسے اپنی محکومیت، مظلومیت کی وجہ سمجھ کر خوب اچھالا.

“تاریخی حقائق عالمگیر کی ہندو اور مندر دشمنی کے خلاف ”

1. اورنگ زیب عالمگیر کا صوبے دار اور مرہٹوں کے خلاف جنگوں کا چیف کوئی اور نہیں ایک ہندو راجپوت جے سنگھ تھا.

2. عالمگیر کے دور حکومت میں اسکی فوج میں ہندو عہدے داران کی تعداد شاہ جہاں کے علاوہ، تمام مغل بادشاہوں سے زیادہ حتیٰ کہ روشن خیال ترین حکمران اکبر سے بھی زیادہ تھی. سات ہزاری، پانچ ہزاری سرداروں سمیت عالمگیر کی مغل فوج میں 104 ہندو سردار تھے. شاہ جہاں کے ہاں 227، اکبر کے 46 ہندو سردار تھے.

3. “جرنل آف دی رائل ایشاٹک آف بنگال” 1911 میں تفصیل سے درج ہے کہ بنارس میں اورنگ زیب عالمگیر کے جاری کردہ فرمان کے مطابق ایک ہندو کی شکایت پر کہ ایک مسلمان مندر توڑ کر باغ بنانا چاہتا ہے، مغل بادشاہ نے 16 مارچ 1659 کو ایک فرمان جاری کیا کہ ہندو کی زمین اسے واپس دلائی جائے. اراضی کے متعلق ایسے کئی فرامین تاریخ میں درج ہیں.

4. بی این پانڈے جو الہ آباد میونسپلٹی کے چیئرمین( 1948- 53) رہے ان کے سامنے ایک اراضی کا جھگڑا آیا. یہ زمین سومیشیور ناتھ مہا دیو مندر کو دان یعنی عطاء کی گئی تھی. مہنت کے مرنے کے بعد دو شخص اسکے دعوے دار تھے، جن میں سے ایک نے اپنے حق میں اپنے خاندان کے پاس محفوظ اورنگ زیب کے کاغذات پیش کئے. ان کاغذات کی رو سے عالمگیر نے مندر کی ایک بڑی اراضی اور نقد اس شرط پر دان کر تھی کہ اس مندر سے حاصل شدہ آمدنی کو دیوتا پر چڑھاوے اور پوجا کے لئے استعمال کیا جائے گا.

5. اورنگ عالمگیر نے الہ آباد کے سومیشیور ناتھ مہادیو مندر، بنارس کے کاشی وشو ناتھ مندر، چتر کوٹ کے بالا جی مندر، گوہاٹی کے اومانند مندر، شترونجی میں جین مندر اور دیگر بے شمار چھوٹے مندروں کے لئے جاگیریں وقف کیں. “گیا” کے مندر کو اس نے زمین وقف کی. گجرات کے شہشترانگ سروور مندر کے گندے پانی کو صاف کرنے کا سب خرچہ سرکاری خزانے سے ادا ہوا.

6. مرہٹوں پر فتح پانے کے بعد ایک مغل افسر محرم خان نے غیر مسلموں کو غیر معتبر جانتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹانے کی درخواست کی، جس پر عالمگیر نے جواب دیا ” حکومت کے امور سے مذہب کا تعلق نہیں ہوتا. اگرچہ تمھارا مشورہ مان لیا جائے تو تمام ماتحت ہندو راجاؤں اور انکے ماتحت لوگوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا پڑے گا جو میں نہیں کر سکتا. اہل افسران کو عہدے سے معزول کرنے کی حمایت سمجھ دار لوگ نہیں کرتے.”

7. جنوبی ہندوستان میں واقع برہم پوری میں تعینات ایک افسر میر حسن نے اورنگ زیب عالمگیر کو لکھا” اسلام پوری کا قلعہ کمزور ہے، آپ عنقریب وہاں پہنچانے والے ہیں، قلعہ مرمت چاہتا ہے، آپ کا کیا حکم ہے؟. عالمگیر نے جواب لکھا “اسلام پوری کا لفظ لکھ کر تم نے مناسب نہیں کیا. اسکا پرانا نام برہم پوری تھا تمہیں وہی لکھنا چاہیے تھا. جسم کا قلعہ تو اس سے بھی کمزور ہے کبھی اسکا بھی کچھ علاج سوچا”.

8. 1659 میں عالمگیر نے سکوں پر کلمہ کھدوانا بند کر دیا. اسکا خیال تھا کہ کیونکہ یہ سکے ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ استعمال کرتے ہیں تو انکی بناوٹ عمومی ہونی چاہئے.

9. شاہ جہاں نے بندھیرا کے راجہ اندرامن کو حکم کی تعمیل نہ کرنے پر قید کر لیا. جب اورنگ زیب اس علاقے یعنی دکن کا صوبہ دار ہوا تو اندرامن کی رہائی کے شاہ جہاں سے التماس کی. شاہ جہاں نے لکھا کہ اندرامن نے اسے پے در پے تکلیف پہنچائی اس لئے اسے صرف اسی صورت میں رہائی مل سکتی ہے کہ وہ اسلام قبول کر لے. اورنگ زیب نے اس تجویز کی سختی سے مخالفت کی اور لکھا کہ ایسا کرنا تنگ نظری اور ناجائز ہوگا. ہمیں اسی کی شرائط کے مطابق اسے رہا کرنا چاہیئے.

اسکے علاوہ دیگر کئی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں جو اورنگ زیب عالمگیر کو ایک روادار بادشاہ ثابت کرتی ہیں ساتھ ہی ہندو دشمنی کی متھ کو بھی بے نقاب کرتی ہیں . دکن میں وہ برسوں رہا، بنگال میں رہا، الور رہا وہاں تو کسی مندر کو گرانے کی خبر نہیں ملتی. صرف بنارس اور متھرا میں ہی کیوں؟

اب کچھ جزیہ کی بات ہو جائے.

سب سے پہلے تو یہ نوٹ کر لیں کہ اورنگ زیب نے اپنے اقتدار کے 22 برس کے بعد غیر مسلموں پر جزیہ لگایا اور اپنی وفات سے قبل ختم کر دیا. اسکی بنیادی وجہ اسکا بغاوتوں کی سرکشی کے لئے مسلسل حالت جنگ میں رہنا تھا. جزیہ فقہ حنفیہ کے مطابق اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کی حفاظت کے لئے ٹیکس ہوتا ہے. خیر یہ بھی یاد رہے کہ تمام سرکاری ملازمین، غریب، عورتوں، بوڑھوں، مساکین، قحط اور خشک سالی سے متاثرہ لوگوں پر جزیہ معاف تھا.

” تاریخی تعصب”

اب تعصب ملاحظہ فرمائیں. نام نہاد لبرل سیکولر تاریخ دان مہاراجہ اشوک کی ایسے تعریفیں کرتے ہیں جیسے وہ پیغمبر تھا حالانکہ بدھ ماخذ کے مطابق اس نے اپنے 100بھائیوں کا قتل کروایا تھا( تعداد میں مبالغہ لگتا ہے. ). ساتھ ہی تاریخ میں درج ہے کہ اس نے ایک دنیاوی جہنم ٹائپ جگہ بنائی تھی جہاں لوگوں کو سزا دی جاتی تھی. بدھ مت کی ترغیب کے لئے اس نے بزرو طاقت لوگوں کو بدھ مت کا پیروکار بنوایا. اپنے حرم کی سینکڑوں عورتوں کو جلوا دیا کیونکہ کسی ایک نے اسے بدصورت کہہ دیا تھا. یقیناً اشوک کے اچھے کام بھی ہیں. وہ ہندوستان کو منظم کرنے والا پہلا بادشاہ تھا. لیکن یہ موضوع پھر کبھی فی الحال توجہ عالمگیر کے لئے تعصب اور نفرت پر مرکوز رکھیں.

مزید برآں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کشمیر کے ایک ہندو مہاراجہ ہرش نے مندر لوٹنے کا ایک محکمہ قائم کیا تھا. وہ مندر سے لوٹی گئی دولت کو لٹیروں سے آدھا آدھا تقسیم کر لیتا تھا. کبھی آپ نے انکا ذکر سنا؟. اورنگ زیب نے جتنے مندروں پر حملے کئے وہ سب شاہ جہاں کے دور میں پابندی کا شکاری تھے. وہاں مورتیاں سجانے اور اسکی اڑ میں دولت اکٹھا کرنے پر پابندیاں تھی. جب لوگوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کے لئے کچھ مندروں کو استعمال میں لایا تو عالمگیر نے ایکشن لیا. اسکا ہندو دشمنی سے کوئی واسطہ نہیں. کیونکہ عالمگیر نے اسی بنیاد پر گولکنڈہ کی شاہی مسجد بھی منہدم کروا دی تھی کیونکہ وہاں بھی ریاست کے خلاف بغاوت ہو رہی تھی.

مغل سلطنت کا زوال کیا اورنگ زیب کی وجہ سے ہوا؟ ”

اب دوسرے الزام پر آتے ہیں. کسی ایک شخص پر مغل یا ہندوستانی بادشاہت کا زوال تھوپنا کسی طور بھی انصاف نہیں ہوسکتا. انگریزوں نے اورنگ زیب کی وفات کے پچاس برس بعد بنگال پر قبضہ کیا تھا. کیا یہ اورنگ زیب کا قصور تھا؟. اورنگ زیب نے سب سے پہلے یورپی تاجروں پر چنگی ٹیکس کی رقم میں اضافہ کیا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ اسے انکے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش تھی. کیا اس بصیرت کا کسی نے احساس کیا؟

کیا اورنگ زیب کے جانشینیوں کی نا لائقی کا الزام اورنگ زیب کو دیا جانا چاہئے؟. ہاں موجودہ سسٹم میں گھرے معاشروں میں آپ ایسا الزام کسی حد تک کسی بھی جانے والے رہنما کو دے سکتے ہیں مگر اس دور میں ایسا ممکن نہیں تھا. آج امریکہ میں بھی ری پبکلن یا ڈیموکریٹ صدر پچھلے صدور کا بوجھ نہیں اٹھاتا نہ اگلے کی غلطیوں کا ذمہ دار پہلے صدور بھگتتے ہیں.

یوں بھی اورنگ زیب پر الزام دھرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اسکے جانشین بہادر شاہ اول کے دور میں مرہٹوں اور سکھوں کی بغاوت حل کر لی گئی تھی. تنزلی دراصل تعلیم و ٹیکنالوجی کے فقدان خاص کر اسلحہ سازی میں جیسے جدید توپ خانے اور گولہ بارود کی قلت یا پسماندہ اسلحہ ہونا کی وجہ سے بڑھی . اورنگ زیب کے بعد ریاستوں کے محصولات اکٹھا کرنے کا فیصلہ بولیوں کے ذریعے ہونے لگا یوں عام عوام پر لگان کا بوجھ بڑھنے لگا. امرا عیش پرستی میں مبتلا اور بصیرت سے عاری تھے.

اورنگ زیب کے دور کی اقتصادی حالت دیکھیں تو سن 1700 میں ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا. سالانہ آمدن 450 ملین ڈالر تھی جو دوسرے نمبر پر لوئی دا فرانس سے دوگنی تھی. اورنگ زیب کی حکومت چالیس لاکھ اسکوائر کلو میٹر تک پھیل چکی ہے تھی. دنیا کی جی ڈی پی کا ایک چوتھائی ہندوستان میں پیدا ہورہا تھا.

لیکن ہندوستان یورپ کی بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کا مقابلہ نہیں کر پایا. سولہویں سترہویں صدیاں یورپ کے عروج کا آغاز تھا. ہندوستان اس لحاظ سے اس وقت بھی پسماندہ تھا اور آج بھی پسماندہ ہے. اورنگ زیب پر یہ الزام درست ہے کہ دیگر مغل بادشاہوں کی طرح وہ بھی مستقبل کا درست اندازہ نہ کر سکا. اسکی اولین اور آخری ترجیح اپنے اقتدار کی طوالت اور استحکام تھا جس میں وہ کامیاب رہا.

اورنگ زیب توسیع پسند حکمران تھا اس وجہ سے اسے زیادہ بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا. مرہٹوں کی لوٹ مار کی گواہی تو ہندو مورخین بھی دیتے ہیں. انہوں نے نہ ہندوؤں کو بخشا نہ مسلمانوں کو. سکھوں نے اپنے آپ کو سچا بادشاہ کہہ کر منظم کیا تو اورنگ زیب کو انکی سرکوبی کرنے کے لئے نکلنا پڑا. گولکنڈہ، دیجا پور کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف جنگ بھی اقتدار کے لئے تھی.

اورنگ زیب اول و آخر کٹر بادشاہ تھا.

” شاہ جہاں کو قید کرنا، داراشکوہ، سرمد کی پھانسی”

اورنگ زیب پر اپنے باپ کو قید کرنے اور اپنے بھائی کو قتل کروانے پر شدید تنقید ہوتی ہے. ساتھ ہی سرمد کاشانی جو کچھ حلقوں میں صوفی تصور کیا جاتا ہے انکی موت پر بھی مغل بادشاہ کو مطعون کیا جاتا ہے.

کہانی یہ ہے کہ

اقتدار کسی باپ بھائی کو نہیں جانتا وہ بھی اس صورت میں کہ باپ اور بھائی بھی جانی دشمن بن چکے ہوں. اکبر کی اولاد میں خونی جنگ ہوئی جس کے بعد جہانگیر اپنے پانچ بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار پانے میں کامیاب رہا. جہانگیر کے چار بیٹے آپس میں برسوں لڑے اور آخرکار شاہ جہاں نے سب کو شکست دیکر مغل سلطنت سر پر سجائی. یہی کچھ اورنگ زیب عالمگیر نے کیا اس نے اقتدار کی جنگ میں اپنے بھائیوں کو مات دی.

پھر آخر اورنگ زیب پر اتنا واویلا کیوں؟

اورنگ زیب شاہ جہاں کی ساتویں اولاد تھا. اقتدار کی لڑائی سے قبل اگر تمام بھائیوں کا تقابل کیا جائے تو تجربے، صلاحیت، کامیابیوں، جرات اور حکمت عملی کے لحاظ سے اورنگ زیب سب سے بڑھ کر تھا. وہ گجرات، دکن، بلخ اور بدخشاں، ملتان اور سندھ کا کامیاب صوبے دار رہا. دکن میں اسکی سالانہ بچت پچاس ہزار تھی جو سب سے زیادہ تھی. بلخ اس نے فتح کیا. اسکے وضع کئے گئے مالگزاری ضابطہ کو انگریزوں کی جانب سے سر کا خطاب لینے والے مورخ جادو ناتھ سرکار نے بھی تاریخ ساز قرار دیا تھا. اسکے دور میں امن و امان اور رعایا کے حالات کہیں بہتر تھے یہ اسکے مخالف مورخین بھی مانتے ہیں جو کہ بھاری اکثریت میں ہیں.

دوسری جانب اسکے بھائی داراشکوہ، مراد اور شجاع اس تجربے، نظم و ضبط اور جنگی صلاحیت سے محروم رہے. داراشکوہ جو شاہ جہاں کا لاڈلا تھا وہ ہمیشہ باپ کے سائے تلے آگرہ اور دہلی ہی مقیم رہا. اسی بناء پر فوج اور صوبے داروں سے تعلق، عوام سے رابطے میں کمی اور آدمی کی صلاحیت کو پہچاننے کا اس میں شدید فقدان تھا. جب ایک بار شاہ جہاں نے داراشکوہ کو قندھار کی مہم پر بھیجا جہاں اورنگ زیب بھی کامیاب نہ ہوسکا تھا تو داراشکوہ ناکام تو خیر رہا ہی وہاں اپنی توہم پرستی اور جہالت کے سبب مذاق بنا رہا.

داراشکوہ قندھار فتح کرنے میں مدد کے لئے کئی عاملوں اور جادو گروں کو ساتھ لیکر کر گیا تھا جو اس سے بھاری رقوم اینٹھتے رہے مگر کام ٹکے کا نہ کیا. اندر گری نامی عامل داراشکوہ سے یہ کہہ خوب مال بٹورتا رہا کہ وہ چالیس موکلوں کی مدد سے قندھار فتح کریگا. ایک رات وہ ایک بھینس، ایک مینڈھا، پانچ مرغ اور کافی روپیہ پیسہ لیکر کسی پرسکون مقام پر عمل کرنے گیا اور پھر واپس نہ لوٹا اور نہ ہی قندھار فتح ہوا.

دراصل دارا شکوہ بادشاہ بننے کی اہلیت سے محروم تھا. وہ علمی، فکری مباحث، سہل پسندی، موسیقی کا رسیا تھا. اکبر ثانی بننے کی اس نے ناکام کوشش کی.

اورنگ زیب گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر سخت جان ہوچکا تھا. لیکن شاہ جہاں نے ہر صورت اپنے لاڈلے دارا شکوہ کو اقتدار دینے کا فیصلہ کر لیا تھا. تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی اور تاریخ نے اورنگ زیب کی وفات کے بعد بھی اسی طرح سے پلٹ کر آنا تھا.

خونی تاج کی چکا چوند اپنے جوبن پر تھی.

1. 6 ستمبر 1657 کو شاہ جہاں بیمار پڑا. 26 اکتوبر کو اسے آگرہ لایا گیا.

2.باپ کے نام پر دارا شکوہ اقتدار سنبھال چکا تھا. آتے ہی اس نے اورنگ زیب کے معتمد ساتھی میر جملہ کو فارغ کرکے اپنے عزائم کا اعلان کر دیا.

3.اسکے علاوہ دارا نے اورنگ زیب کو میسر فوج کو واپس بلانے کا حکم دے دیا.

4. اورنگ زیب کے سرکاری وکیل کو قید کرکے اسکا گھر اور عالمگیر سمیت تمام شہزادوں کی جاگیر ضبط کرا دی.

5.تینوں شہزادوں کے وکلاء اور معتمدین سے رازداری کا مچلکہ لیا، بنگال، گجرات اور دکن کے راستے بند کر دئیے تاکہ مسافروں کے ذریعے معلومات نہ پہنچ سکیں،اور آخر میں تینوں کی جانب فوج بھیج دی.

لیکن اسکے بھائی اپنی خاندانی روایت برقرار رکھتے ہوئے آسانی سے ہار ماننے کو تیار نہ تھے.

سب سے پہلے شجاع نے اپنے بادشاہ ہونے ک اعلان کرکے اپنے صوبے بنگال سے دہلی پر حملے کے لئے تیاری پکڑی. ادھر مراد نے اپنے صوبے گجرات کی خود مختاری کا اعلان کر دیا. سب سے آخر میں اورنگ زیب عالمگیر نے مراد کے ساتھ اتحاد کرکے دہلی پر حملے کے لئے اکٹھ کیا.

ادھر شاہ جہاں نے مراد کو لکھ بھیجا کہ آگر تم اورنگ زیب کو قتل کر دو تو تخت تمہیں دیدیا جائے گا. باپ اپنے بیٹے کا جانی دشمن ہوچکا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ اورنگ زیب کے پاس تجربہ کار فوج اور کئی جنگوں کا تجربہ ہے.

5 فروری 1658 کو اورنگ زیب تاج پانے کی مہم پر روانہ ہوا. راستے میں مراد اور شجاع کی افواج بھی مل گئی تھیں. مراد اور اورنگ زیب نے قرآن پر معاہدہ کیا جس کی رو سے پنجاب، افغانستان ، کشمیر اور سندھ مراد کے حوالے کرنے اور ایک تہائی مال غنیمت اسکی ملکیت ہونے کا فیصلہ ہوا. باقی سلطنت اور مال غنیمت اورنگ زیب کو ملنا تھا. پہلے جے سنگھ کو دارا نے مقابلے پر بھیجا جو ناکام رہا. پھر دارا شکوہ میدان میں اترا اور شکست کھائی. سامو گڑھ کی جنگ نے اورنگ زیب کے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی.

شاہ جہاں اور مراد کے اورنگ زیب سے خطوط کا تبادلہ اورنگ زیب کی وفات کے دس برس بعد میں مرتب ہونے والی کتاب “فیاض القوانین” میں درج ہے. ان خطوط سے واضح پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب بارہا مراد کو جنگی اقدام سے منع کرتا رہا. شاہ جہاں کو قید کرنے سے قبل اور بعد ازاں بھی اورنگ زیب کا رویہ اپنے باپ سے مودبانہ رہا. ظاہر ہے اتنا مودبانہ تو نہیں تھا کہ اقتدار انکی مرضی کے مطابق تقسیم کر لیتا.

اورنگ زیب نے جس طرح اور جس انداز میں اپنے بھائیوں دارا شکوہ، اور مراد کا قتل کروایا وہ تمام تر دلائل دینے کے باوجود ایک مسلم حکمران کے شایان شان نہیں تھا. خاص کر مراد جیسے بہادر بھائی کو سازش کرکے شراب پلا کر قتل کروانا بزدلانہ حرکت تھی گو مراد خود قرآن پر معاہدہ کرکے اس سے پھسل چکا تھا، اور سازشوں میں مصروف تھا مگر اورنگ زیب کی یہ ‘رکیک حرکت اسکے اقتدار کو تو مضبوط کر گئی مگر اسکے اخلاقی معیار پر سوالات چھوڑ گئی. دارا کو بھی کہیں دور جلا وطن کیا جا سکتا تھا مگر یہ معیار ہم پیغمبرانہ صفات والے حکمرانوں سے توقع کر سکتے ہیں.

دہلی کی گلیوں میں دارا کے لئے آہ و بکا ایک دھچکے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی. کیونکہ وہ دہلی ہی زیادہ تر مقیم رہا اور اسکی مزاج میں رواداری یقیناً موجود تھی اس لئے عوام کو داراسے ہمدردی ضرور تھی مگر دارا کی لالچ، نا اہلی اور جلد بازی اسے لے ڈوبی.

سرمد کاشانی جو آرمینیا کا یہودی تھا جو بعد میں مسلمان ہوا اور بعد ازاں اپنی ایک رباعی میں اس نے اپنے ہندو ہونے کا اعلان کر دیا ، برصغیر میں تجارت کی غرض سے آیا اور ایک ہندو بچے پر عاشق ہوگیا. لوگ اسے کس بنا پر صوفی کہتے ہیں میری سمجھ سے باہر ہے. صرف مظلومیت کی موت کیا اللہ کا ولی بنا دیتی ہے؟ چاہے وہ ایک بچے کے لئے در در پھرے اور برہنہ پھرے؟ اس پر الزام تھا کہ وہ کلمہ کا آغاز یعنی اللہ نہیں ہے پڑھتا ہے،اور آگے خدا کے اقرار کا حلف پورا نہیں کرتا . ایک مجذوب کی مجذوبیت سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیا جاتا تو بہتر تھا مگر منصور حلاج بننے کے لئے بیتاب سرمد کو اسکی خواہش کے عین مطابق ملاؤں نے پھانسی پر چڑھا امر کر دیا.

برصغیر کی ماتمی ذہنیت نے اٹھا کر اسے صوفی بنا دیا.

جہاں تک شیعوں کی بات ہے تو اورنگ زیب کے تینوں تاریخ دان، مستعد ساقی، کاظم شیرازی اور خافی خان سب شیعہ تھے. اسکے کھانے کا چیف محافظ عالی خان بھی شیعہ تھا.

“آخری نتیجہ”

اورنگ زیب سے سیکولر مورخین کی نفرت اور تعصب روا رکھنے کی وجہ بظاہر یہی لگتی ہےکہ وہ ایک کٹر مسلمان تھا، نماز اور قرآن کی پابندی کرتا تھا. شراب پر پابندی کو اس نے برقرار رکھا. قمار بازی، درشن بازی، مہنگے تحائف، قصیدہ گوئی پر اس نے بندش لگا دی تھی. متعصب لبرل مورخین سے یہ برداشت نہیں ہوسکتا کہ ایک نسبتاً اسلام کا نام لیوا بادشاہ چاہے سطحی ہی کیوں نہ ہو اسکی تعریف کیونکر کی جائے؟. اس طرح انکی دکانداری پر آنچ آتی ہے.

اقتدار کی جنگ میں اس نے وہی کیا جو اس دور میں سب کرتے تھے. اسکی کوئی بھی جنگ اسلام کے لئے نہیں تھی بلکہ سب کچھ اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے تھا. اسکے باوجود عمومی طور پر اورنگ زیب نے نسبتاً رحم دلی کا مظاہرہ کیا. اسکے دور میں عام عوام کے لئے سرکاری وکیل ہوتے تھے، ٹیکس کی شرح تمام مغل دور سے کم تر ترین تھی، وہ ساری عرضیوں پر خود جواب لکھتا تھا، دن میں تین چار دربار لگاتا تھا اور پرچہ نویسی سسٹم کی بدولت تمام برصغیر کے علاقوں کے حالات سے باخبر رہتا تھا.

تاریخ دان انصاف کریں یا نہ کریں، تاریخ اورنگ زیب عالمگیر سے ضرور انصاف کریگی.

“حوالہ جات منصفین اور کتابیں ”
یہ مضمون ایک برس سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا لیکن ان منصفین اور کتب کے مطالعے سے یہ ممکن ہوا. کچھ کتابوں کو چکھا ، کچھ کو پڑھا کچھ ویڈیوز دیکھیں. آپکی معلومات کے لئے نام لکھ رہا ہوں.

Advertisements
julia rana solicitors

عالمگیر نامہ.کاظم شیرازی
ماثر عالمگیری. مستعد ساقی خان
منتخب الباب. خافی خان
اوم پرکاش پرشاد. اورنگ زیب ایک نیا درشتی کونڑ
شبلی نعمانی.
بی این پانڈے. اسلام اینڈ انڈین کلچر
رام پنیانی. لیکچر
راجندر پرشاد. انڈیا ڈیواڈڈ
ولیم ارون. لیٹر مغلز
جادو ناتھ سرکار. ہسٹری آف اورنگ زیب
سیتش چندر. پارٹیز اینڈ پالیٹکس ایٹ مغل کورٹ اور متفرق
عرفان حبیب. ایگیرین سسٹم آف مغل انڈیا
محمد اطہر علی متفرق کتب
رومیلا تھاپر لیکچر اور متفرق کتب.

Facebook Comments

ثاقب ملک
رائٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply