کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/ قسط نمبر28

ادب کے بارے میں کچھ لیکھا جوکھا
آئینہ در آئینہ سے ماخوذ!

سوال: ایک شاعرکی زندگی اور موت کی بند عمارت میں دروازے کی درزوں میں سے امکانیات کا سود وزیاں دیکھنے سے عبارت ہے۔ یہ کھلم کھلا آسمانی مشاہدہ تو نہ ہوا؟ لیکن تجسس اور راز داری کا فائدہ اس کو ہی ملتا ہے۔
جواب:سوال کا پہلا جملہ ایک خوبصورت تلمیح ہے۔ بند عمارت، دروازے کی درزیں، کے بصری منظر نامے کے بعد، شاعری کا ایک بھولی بھالی لڑکی کی طرح ان درازوں میں سے امکانیات کا سود وزیاں دیکھنے کا اشارہ۔استعارہ، استنباط اور تلطیف عبارت euphemism کا حسین سنگم۔ لیکن سوال کے طور پر میرے لیے یہ سریع الفہم ہے، الم نشرح ہے، یسرنا ہے۔ میں اس کا مطلب پا گیا ہوں۔
کھلم کھلا آسمانی مشاہدہ تو سائنس کا کام ہے۔ کیا امکانات کا سود و زیاں نبیوں نے (بشمولیت حضور ﷺ) نے اس طرح دیکھا تھا؟ نہیں، نہیں اور نہیں۔ان کے لیے تو ان کے دل میں آسمانی مشاہدات کھلم کھلا موجودات کی طرح حاضر تھے۔۔۔ شاعری کے بارے میں پہلے بہت سی باتیں کہی جا چکی ہیں اس انٹرویو میں۔ شاعری جزویست از پیغمبری میں جو رمز نہاں ہے، اور جس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے، وہ یہ ہے، کہ شاعری per seیعنی خودکفیل ’پیغمبری‘ نہیں ہے، اس کا جزو ہے۔ صرف نجماً نجماًاس سے ملتی ہے۔ ایک ڈال ہے، ایک پات ہے، اُس شجر کا جو پیغمبری ہے۔ یہ اس درخت کا مرکزہ نہیں ہے۔
اب اگر یہ طے ہو گیا تو باقی کا کام میں باآسانی کر سکتا ہوں۔لیجیے، سقراط سے شروع کرتے ہیں اور Dylon Thomas تک پہنچ کر ختم کریں گے۔ سقراط لکھتا ہے۔
Not by wisdom do they {poets} make what they compose, but by a gift of nature and inspiration similar to that of the diviners and the oracles. (Socates in Plato’s Apology (4th c. B.C.) tr. Lane Cooper.
میں بذات خود رومانی شاعری کو اس حد تک پسند نہیں کرتا، جس حد تک انگریزی کی جدید شاعری کو چاہتا ہوں، لیکن رومانی شعرا میں شیلےؔ اس لیے میرا پسندیدہ ہے کہ ورڈزورتھؔ اور کالریجؔ کی نسبت شاعری کے بارے میں اس کے خیالات میں الجھاؤ بھی بہت کم ہے اور ان خیالات میں ایک مقّرر سا تخاطب کا لہجہ بھی نہیں ہے۔ A Defence of Poetry میں مشمولہ یہ اقتباسات پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔
Poetry, lifts the veil from the hidden beauty of the world, and makes familiar objects be as if they were not familiar. A Defence of Poetry (1821)
A poet is a nightingale, who sits in darkness and sings to cheer its own solitude with sweet sounds. A Defence of Poetry (1821)
Poets are the hierophants of an unapprehended inspiration, the mirrors of the gigantic shadows which futurity.casts upon the present. A Defence of Poetry (1821)
کارل سینڈبرگ ؔCarl Sandburg لکھتا ہے
Poetry is the opening and closing of a door, leaving people who look through to guess what is seen during a moment: as an eternity.
“Tentative(First Model) Definition of Poetry” Complete poems. (1950)
ولیم سٹیونز William Stevens نے صر ف ساٹھ برس پہلے لکھا تھا:The poet is the priest of the invisible.
“Adagia,” Opus Posthumous (1957)
ڈِلن تھامسؔ Dylan Tomas نے کچھ باتیں شاعری کے الوحی فن کے بارے میں اور دونوں دنیاؤں، عالم ِ لاہوت اور عالم ِ لاسوت کے بارے میں کہی ہیں، جو مجھے اور کسی دانشور کے ہاں اس خوبصورتی سے لکھی ہوئی نہیں مل سکیں۔
A good poem is a contribution to reality of the other world bequeethed to this world. And once it is the given, this world is never the same. A good poem helps to change the shape and significance of the universe, helps to extend everyone’s knowledge of himself and the world around him.
(On Poetry, Quite Early One Morning (1960)
ایک اور جگہ ڈلن تھامس لکھتا ہے۔
The best poem is that whose worked-upon unmgical passages come closest, in texture and inetensity to those moments of magical accident.
(On Poetry, Quite Early One Morning (1960)
میں نے خود کچھ نہ لکھ کر ان دانشور شعرا کی آراء پر اس لیے انحصار کیا ہے کہ میں اس سے بہتر انگریزی بھی نہیں لکھ سکتا اور اگر یہی خیالات میں اردو میں تحریر کروں گا تو سرقہ کا ملزم گردانا جاؤں گا۔ اس لیے انہی پر اکتفا کرتا ہوں۔

کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/ قسط نمبر27

 

 

جواب (۲): شاعری کی تعریف میں یہ مد بھی شامل ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی ایسے بارود کی طرح بھر دیے جائیں جو قاری کی سطح پر خود بخود ایک دھماکے کی صورت میں ظاہر ہو، اور اس کا ذہن ان معانی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس مشکل کا حل؟ ایک تو چچا غالب نے امکان اور عمل، دونوں کی سطح پر اپنی مدوریت اور ملفوفیت سے ظاہر کیا تھا، دوسرا استعارہ، علامت، لڑی وار پروئی ہوئی تشبیہات کو تصویری مفہوم کی سطح پر ایک chain of slides کی طرح پیش کرنے کا جو آپ کی تخلیقی قوت کا کیمکارڈر فلم کرتے ہوئے چلاتا چلا جاتا ہے (انکسار سے عرض کروں کہ میں خود یہ راستہ ماپتا ہوں) کیا Brevity is the soul of wit نہیں کہا گیا تھا؟

سوال ۔ شاعری کے جذباتی صداقت ہونے کا سیدھا سادھا مطلب یہ نہیں کہ ہم متوا زی صداقتوں کے نظام کو تسلیم وتجویز کرتے ہیں
جواب: تین۔ جی ہاں (اور) جی نہیں۔ ”متوازی صداقتیں“ عموماً ہمعصری محرکات کی پیدا شدہ اکائیاں ہی ہوتی ہیں، جنہیں دوام حاصل نہیں ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، ’مذہبی‘ ’تاریخی‘(مذہب اور تاریخ کی عصری تفسیر و تاویل کی روشنی میں) یہ صداقتیں کچھ دہائیوں کے بعد ہی اپنا چہرہ چھپاتی پھرتی ہیں کیونکہ زمانے کی رفتار نے اس چہرے کو مسخ کر دیا ہوتا ہے۔ٹائن بیؔ کہتا ہے:
History never looks like history when you are lliving through it. It looks truth. In the coming decades, however, truth is sifted from exaggeration and flasehood and then it looks history…..And yet, coming centuries might sift it further and put it in the garbage can of myth, fancy, fiction and fantasy.
اب اس کا جواب میں کیا دے سکتا ہوں کہ شاعری کی ’صداقت‘ کیوں، کب، کہاں اور کیسے ان قلیل المدتی سچایؤں سے افضل اور برتر ٹھہرتی ہے۔ ’کب‘ کا جواب تو میں نے دے دیا، یعنی کچھ دہائیوں یا کچھ صدیوں کے بعد۔’کیوں‘ کا جواب بھی اس بات میں مضمر ہے کہ، بقول Russell Lowell
Old events have modern meanings; only that survives
Of past history which finds kindred in all hearts and lives.
(“Mahmood the Image Breaker,” in Under the deWillows and Other Poems. 1808)
’ کہاں کا جواب ذرا آڑا ترچھا ہے۔ یعنی ’تاریخ‘ کے مقابلے میں یہ ’جغرافیہ‘ سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ جو سچائی آج اسرائیل میں مسلمہ، مصدقہ اور مستند تسلیم کی جاتی ہے، وہ عرب ممالک میں دروغ سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔یہی حالت دیگر ممالک میں بسنے والی قومیتوں کی ہے۔ اب رہا ’کیسے‘ کا سوال، توJean Cocteau اس کا جواب یوں دیتا ہے۔
What is history, after all? History is facts which become lies next door, in the next house or the next country in the end. On the other hand legends are lies which become histiory in the end, within the same door, locality or country.
شاعری کی صداقت کا تعلق تاریخ جذر و مد سے نہیں ہے۔ اس لیے موازنہ حسب بالا ’متوازی صداقتوں‘ سے کیا جانا ضروری نہیں ہے۔

سوال ۔ عقل کے فاضلانہ ذوق نے شعر و ادب کی راہ میں مزاحمت پیدا نہیں کی۔۔۔ ورنہ فلسفہ کی موجودگی میں۔۔۔۔؟؟؟
جواب:جی، مزاحمت کی بھی ہے، اور نہیں بھی کی۔ جب اقبال یہ کہتے ہیں۔ ”اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان ِ عقل: لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے“ تو وہ میانی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ The Middle Path کبھی صحیح راستہ نہیں ہوتا، لیکن دائیں بائیں لگاتار چلتی ہوئی دو کانٹے کی باڑیوں سے حفاظت ضرور مہیا کرتا ہے۔ یہاں تک تو ’عقل‘ کی بات تھی، جو غزلیہ شاعری میں،خاکسار کے قول کے مطابق، اس لفظ کے تابع مہمل ’وقل ‘ سے زیادہ مستعمل ہے۔ ہاں، اگر آپ بضد ہیں کہ’فلسفہ‘ کو بھی ’عقل‘ کے ضمیمہ کے طور پر شامل کر لیا جائے، تو، محترم، یہ مجھ جیسے ایک شاعر کے لیے بے حد جوکھم کا کام ہے کہ میں اس کا جواب دوں۔ کوشش کروں تو بھی نہیں دے پاؤں گا کہ میں تو صرف شاعر ہوں اور ’ادب‘ کے علاوہ ’فلسفہ‘ میں ڈاکٹریٹ کی دوسری ڈکری ہونے کے باوجود فلسفی نہیں ہوں۔ اس لیے معذرت۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال : انسان کی طینت میں موجود کمزور عناصر نے اپنے نشیبی بہاو کیلئے فنون ِ لطیفہ کی کفالت کی، کیونکہ مرویاتِ علمی سے استفادہ ہر شخص کے بس کی بات نہ تھی۔۔۔
جواب: ایک بار پھر میرا جواب اثبات میں بھی ہے اور نفی میں بھی۔ اگر آپ ارسطوؔ کے قول پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ شاعری (اس کے زمانے کے یونان میں Poetic Play)، تھیئٹر میں بیٹھے ہوئے سامعین کے دل و دماغ میں routine workaday کی زندگی سے پیدا شدہ، ہیجان، اعصابی حساسیت، تنک مزاجی وغیرہ کو خارج کرنے میں ایک نشیبی بہاؤ کا ساکام کرتا ہے، تو میرا جواب، ارسطو کے دور کے حوالے سے، اثبات میں ہو گا۔ لیکن آج جب کہ الیکٹرانک میڈیا، پڑھی جانے والی یا سنی جانے والی، شاعری کی نسبت لاکھوں گنا آگے بڑھ چکا ہے، ارسطوؔ کا قول اپنے معانی کھو چکا ہے۔ مرویات علمی سے استفادہ عوام الناس کے بس میں تب بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے، اس لیے سوال کا دوسرا حصہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔ شاعری علم و دانش کا سستا نعم البدل نہیں ہے۔ نہ ہی علم و دانش شاعری کا نعم البدل ہے۔ دونوں خود میں مختار ہیں۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/ قسط نمبر28

Leave a Reply