پرانے زمانے میں جب جنگیں دو بدو لڑی جاتی تھیں۔ سپاہ پیادہ اور سوار ہوا کرتی تھی تو جنگی حکمت عملی عام طور پر میمنہ، میسرہ، قلب اور عقب کی رکھی جاتی تھی۔ میمنہ اور میسرہ دائیں اور بائیں جانب کے دستے ہوا کرتے تھے، قلب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے وسطی دستہ ہوتا تھا اور جنگی سپہ سالار اور بادشاہ وقت (اگر جنگ میں شامل ہو) تو وہ وسطی دستے میں شامل ہوتے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے عقب میں دستہ تعینات کیا جاتا تھا تو وہ عقب کہلاتا تھا۔
فِلتھ جنریشن وار ۔ ۔۔۔۔اویس احمد/حصہ اول
اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اور جنگ کے روائتی طور طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ ہم فِلتھ جنریشن وار کے زمانے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس میں تمام میمنے، میسرے، قلب و عقب باہم شیر و شکر ہو چکے ہیں اور ایک ملغوبہ سا بن گیا ہے۔ وہ جنگی سپہ سالار ہو یا عام سپاہی، حکمرانِ عصر ہو یا عام عوام، سب کے سب ایک ہی ہتھیار سے لیس ہیں۔ پانچ انچ کے مختصر سے آلے کو استعمال کرتے ہوئے تین سے چار انچ کی انگلی سے وہ تباہ کن کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے کہ اس کے سامنے لٹل بوائے نامی امیریکی ایٹم بم بھی پانی بھرتا دکھائی دیتا ہے۔ انگلی ویسے بھی گولی سے زیادہ تکلیف دہ اور اہانت آمیز ہوتی ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر الفاظ کا زخم نہیں بھرتا۔ فلتھ جنریشن وار تلوار کی بجائے الفاظ سے لڑی جاتی ہے۔ اور یہ وہ عجیب الفاظ ہیں جو ذہن میں ترتیب پا کر منہ کے راستے باہر آنے کے ساتھ ساتھ انگلیوں پر ناچتے ہوئے کی بورڈ پر بھی اترتے ہیں۔ خیالات اور انگلی کا یہ ملاپ اسکرین پر نمودار ہونے والے افکارکو دوآتشہ کر دیتا ہے۔ تیز دھار الفاظ کے چرکے بے رحمی سے لگائے جاتے ہیں نتیجتاً گھاؤ بھی گہرے ہوتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے توسط سے عام لوگ بھی فلتھ جنریشن وار کا حصہ بن چکے ہیں۔ سیاسی راہنما ہوں، مذہبی راہنما ہوں، کھلاڑی ہوں یا پھر فنکار ہوں ان سب کی لاکھوں میں فین فالوونگ ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہم لوگ شخصی عقیدت اور پسندیدگی کے بت تراشنے کے عادی ہیں اور اپنی پسندیدہ شخصیت کو پسندیدگی کے اونچے ترین مینار کی نوک پر چڑھا دیتے ہیں اور پھر اس کا وہاں سے ہلنا جلنا محال ہو جاتا ہے۔ چونکہ ہم صالح ہیں اس لیے ہمارا ہی فرمایا ہوا مستند بھی ہوتا ہے اور جو بھی ہماری پسند یا عقیدت کی دیوار سے ٹکراتا ہے ہم اسے پاش پاش کر دینا عین سعادت سمجھتے ہیں اس لیے ہماری آنکھوں میں ہمہ وقت شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں۔ زبانوں پر انگارے دھرے ہوتے ہیں اور انگلیوں کی جنبش میں لاکھوں طوفان ہر وقت کروٹیں لے رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں فلتھ جنریشن وار کے تنخواہ دار لشکریوں کی جانب سے جیسے ہی کوئی درفطنی چھوڑی جاتی ہے ہم اس کو لے اچکتے ہیں اور پھر تمام میمنے میسرے وغیرہ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ پھر وہ گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ اچھے اچھوں کی عزت کی دھوتی رانوں سے اوپر سمٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر اس تمام صورت حال میں جو ذلیل ترین پہلو ہے وہ یہ ہے کہ فضول اختلافات کی بنیاد پر بلا لحاظ و مروت ہماری قوم کے غیرت مند مرد و زن اپنی غیرت اور حمیت کا پختہ ثبوت دیتے ہوئے خواتین پر رکیک ترین حملے شروع کر دیتے ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر ایک طویل فہرست ہے جس میں نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، مریم نواز شریف، جمائمہ خان، ریحام خان، مریم اورنگزیب، انوشہ رحمان، ماروی میمن، کشمالہ طارق، حنا ربانی کھر، عائلہ ملک، شیری رحمان، شیریں مزاری، فاطمہ بھٹو، صغریٰ امام، عابدہ حسین، ملالہ یوسف زئی، شرمین عبید چنائے، شہلا رضا اور نہ جانے کتنی خواتین ہیں جن کو کردار کشی کی مہم کا نشانہ بنایا گیا۔ مخالفت کے جنون میں اندھے ہو کر ہم لوگ اپنی اجتماعی اخلاقیات کے مسخ شدہ چہرے پر زناٹے دار طمانچے مارے چلے جاتے ہیں۔ رانا ثناءاللہ، فواد چوہدری، عابد شیر علی، طلال چوہدری اور عامر لیاقت وغیرہ اسی فلتھ جنریشن وار کے وہ نامور سپہ سالار ہیں جن کے قریب سے تہذیب کو گذرنا پڑے تو ناک پر رومال رکھ کر گذرتی ہے۔ رہی سہی کسر ان سپہ سالاروں کی کمان میں اندھے مقلد پوری کر دیتے ہیں اور ہماری قوم کا اجتماعی اخلاق دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں ستاروں کی طرح اندھیروں میں چمکنے لگتا ہے۔
فلتھ یعنی کچرے پر پائی جانے والی نسلوں کے لیے عبدالستار ایدھی مرحوم نے جھولے بنائے تھے۔ ہماری قوم کے صالحین نے ان جھولوں کو حرام زدگی کو فروغ دینے کی کوشش قرار دے دیا تھا۔ یہ اس قوم کے شعور کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جھولوں سے بچ جانے والی نسل ہی اب فلتھ جنریشن وار کی صف اول میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہوئے دادِ ذلالت حاصل رہی ہے۔ کاش یہ نسل عبدالستار ایدھی کے جھولوں میں ہی ڈال دی جاتی تو بہتر تربیت پا کر شاید معاشرے کا کارآمد طبقہ بن جاتی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں