ایک ریڈیالوجسٹ دوست کے لئے۔۔۔روبینہ فیصل

سائیکو پاتھ کی پہچان پر ، اور انہیں پہچان کر اپنا دامن بچانے پر ایک کالم لکھا تھا “حسن ترا بکھر نہ جائے کہیں “کہ نام سے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں۔۔۔ روبینہ فیصل
کوئی اور کہے تو کہے جب ایک ریڈیالوجسٹ آپ کو یہ کہے  کہ آپ کی تحریروں میں منفیت ہے تو انسان ایک دفعہ چونکتا ضرور ہے ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔
میں نے سوچنا شروع کیا ۔ جب سے میں نے خود کی پہچان ڈھونڈنی شروع کی ہے تب سے میں کسی بھی چھوٹی بڑی تنقید کو ۔۔” ہوں” ۔۔کہہ کر نظر انداز نہیں کرتی ۔ اور یہ تو ایک مخلص اور صاف ستھرے انسان کی طرف سے آیا ہوا ایک کمنٹ تھا ، جنہیں بہرحال میرے اس طرح کے دکھ ،تکلیف ، رنج میں ڈوبے کالم یا افسانے پڑھ کر لگتا ہوگا کہ مجھے صرف اس دنیا کا اندھیرا ہی نظر آتا ہے ، روشنی کیوں نہیں ؟
ریڈیالوجسٹ، اندھیرے میں بیٹھ کر مر ض کی تشخیص کرتے ہیں ۔ ایکس رے ، الٹر ساؤنڈ ، ایم آر آئی،سی ٹی ، پی ای ٹی۔۔سب کے چہرے کتنے سیاہ ہو تے ہیں ۔۔ سب کے سب نیگٹیوز ہوتے ہیں ۔لیکن انہیں دیکھے بغیر مر ض کی تشخیص ناممکن ہے ۔ اس لئے میرے اس پیارے سے دوست کو ، سارا دن اندھیری لیبارٹری میں ، کالے کالے نیگیٹوز کو گھورنا پڑتا ہے ۔۔۔۔اور مذاق میں میں انہیں کہتی ہوں” ایکس ریزسے باتیں کر نا اچھا لگتا ہے آپ بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔”
غور کریں تو بات مذاق کی نہیں ہے ۔۔ مسلسل اندھیرا ہمیں پاگل پن کی طرف دھکیل سکتا ہے ۔شائد اسی لئے میرے دوست کو لگا کہ میں بھی اتنا اندھیرا دیکھ کر پاگل نہ ہو جاؤں ( یا مکمل طور پر سمجھ ہی چکے ہیں ) ۔۔۔وہ شائد سارا سارا دن نیگٹیوز دیکھنے کی اذیت سے گذرتے ہیں ، اور جب کسی انسان میں کسی جان لیوا مر ض کی تشیخص ہو تی ہو گی تو وہ جانتے ہو نگے کہ یہ کر ب انسان کو اندر سے کیسے ادھ موا کرتا رہتا ہے ۔
مگر اے دوست !!
جیسے کوئی آپ کا کتنا بھی ہمدرد کیوں نہ ہو وہ آپ کو،” نیگیٹوز” دیکھنے سے نہیں بچا سکتا ۔کیونکہ یہ آپ کا پیشہ ہے جس میں آپ کا فرض پو شیدہ ہے ،اسی طرح زندگی کے اندھیروں کو محسوس کر کے ، اسے کم کر نے کی خاطر ، منفیت کو ہی دیکھنا ، لکھنے والے نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے ہے ۔۔ کیونکہ میں اگر منفیت کو نہ بھی دیکھوں ، نہ بھی لکھوں تو وہ پھر بھی موجود رہے گی ، یہیں ۔ جیسے اگر آپ ایم آر آئی اس خوف سے کر نی بند کر دیں کہ مریض کو کہیں کینسر نہ ہو ۔تو کیا آپ ایسا کر سکیں گے ؟کیا کینسر خود بخود تشخیص کے بغیر علاج کی منزل تک پہنچ جا ئے گا ؟
اسی طرح روح کے اندر پھیلے کینسرکا علاج کر نا ہے تو پہلے اس کی تشخیص ضروری ہے ۔ اور تشخیص کے لئے میرے پاس نیگیٹوز دیکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ۔میں دنیا کو کیسے یقین دلاؤں کہ میں پازیٹیو یٹی دیکھ کر ، خوشی سے چھلانگیں مارنا چاہتی ہوں ۔ میرے اندر کا شرارتی بچہ بھی مجھ سے آپ ہی کی طرح روٹھ کر پو چھتا ہے کہ یہ سب کیا ہے ،جب سب خوشیاں منا رہے ہیں تو تمھیں کیا تکلیف ہے ۔۔ ؟
میں کہتی ہوں پہلے مجھے یہ بتاؤ خوشی کہتے کسے ہیں ۔۔ کوئی بیمار ہے تو ا سکا حال نہ پو چھو ؟ کوئی بوڑھا ہو گیا تو اس سے جان چھڑاؤ ؟میوزک لاؤڈ کر دو ؟ کوئی بچے یتیم ہو گئے ہیں تو انہیں حالات کے حوالے کر دو۔۔میں بذات خود تو ایک خوشخال انسان ہوں ۔ ایک محبت کر نے والے شوہر کی بیوی، صحت مند،لائق فائق بچوں کی ماں ، کینڈا جیسے بڑے ملک کی شہری ،خدا کی ہر نعمت سے نوازی گئی ہوں مگرمجھے لائف انجوئے ہی نہیں کر نا آتی کیونکہ مجھے سطح پر تیرنا نہیں آتا اپنے اندر جھانک جھانک کر دیکھنے کی عادت ہے ۔۔ لوگوں کی تکلیفوں کو دیکھ کر اس کرب کو کھوجنے کی جستجو ہے جس نے انسان کو خوشی اور اطمینان کے نام پر ، کیا کیا جرائم اور کیا کیا لعنتوں سے متعارف نہیں کروایا ۔۔ سومیں بھی فطرتا ، ایک ریڈیالوجسٹ ہوں یا غوطہ خور ۔۔۔۔
جو انسان کی ذات میں غوطے لگا لگا کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ،کائنات کے یہ سال ، وہ سال ہیں ،جب ریڈیالوجسٹ کا کام بہت بڑھ گیا ہے ۔ بہت سے ایم آر آئی ، ایکسرے اور الٹر ساونڈز کر نے ہیں ۔ان سالوں میں بہت نیگیٹیوٹی لکھی جائے گی کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔مجھ سے بھی یہی ہو گا ۔۔ یہ کھدائی کا کام بہت سال تک جا ری رہنے والا ہے ، دو صدیاں ، تین صدیاں یا نجانے کتنی ۔۔ لیکن ایک دفعہ ٹھیک سے تشخیص کا کام ہو جائے تو پھر ہی علاج ممکن ہو سکے گا ۔۔ پھر نہ جانے کتنے سال علاج کرنے میں لگ جائیں گے۔ایکسرے کر نے والوں کی اپنی ہڈیوں میں ریڈیشینز اتریں گی ، ان کے اندرکتنی تاریکی پھیلے گی ، کتنے ریڈیالوجسٹ بلی چڑھیں گے تو تشخیص مکمل ہو گی ۔۔۔۔
سائیکو پاتھ والے کالم کے بعد جب چند ایک حیرت میں ڈوبے سوال، جیسے یہ کالم لکھا کیسے گیا ، کیوں اور کب جیسے ۔۔ کہ ساتھ ساتھ یہ تائیدی بیان کے اگر یہ کالم نہ پڑھتے تو ہماری زندگی میں قریب کھڑا ، منہ اور دل کی سیاہی کو نقاب میں چھپائے ،اندھیرے میں چھپا کھڑا ہمارا اپنا پیرا سائٹس ہمیں کھبی نظر نہ آتا ، اور ہم اسے محبت سمجھ کر اس کے پاگل پن کو جھیلتے جھیلتے خود بھی پا گل ہو جاتے ۔ ایسی ای میلز اور دوستوں کے وٹس ایپ میسجز پڑھ کر لگا ، کبھی کبھی تشخیص کے پہلے مرحلے میں بیماری پکڑی جائے تو علاج شروع کیا جا سکتا ہے ۔ جتنی جلدی بات سمجھ میں آجائے ، اتنی ہی جلدی اگلا مر حلہ شروع ہو سکتا ہے ۔ تو منفیت برائے منفیت یا خود ترسی کے لئے ہو ، اس میں ، اور منفیت ، علاج کے لئے ہو ، میں فرق ہو تا ہے ۔۔ یہ بات ایک ریڈیالوجسٹ سے زیادہ بہتر کون سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔
جن لوگو ں کے خلوص پر آپ کا دل ایمان لائے ، ان کی بات کا بھرم رکھنا ضروری ہو تا ہے ، چاہے پھر آپ اپنی بات بھی کرتے رہیں ۔
میرا منفیت کے ذریعے “انسان کا نیگٹیو “، علاج کی غرض سے، دیکھنے کا پہلا مر حلہ جاری وساری رہے گا ۔اندھیرے میں بیٹھ کر تنہا گھنٹوں گھنٹوں نیگیٹوز کو گھورتے رہنے والے اس ریڈیالوجسٹ دوست کی بات کا مان رکھنے اور منفیت کا علاج کرنے کی غرض سے ان پازیٹو توانائیوں کوجو کئی خوبصورت انسانوں کی صورت ہی ہمارے گرد بکھری ہو ئی ہیں انہیں بھی زیرِ بحث لاؤں گی ۔ ۔
کائنات کے اندھیرے دور کر نے کا سلسلہ پتھر وں کو رگڑ کر آگ دریافت کر نے سے شروع ہوا تھا ۔انسان کائنات کو تسخیر کر نے کے لئے ، سمندر کی اتھاہ گہرائی میں اتر گیا ، آسمان پر پہنچ گیا ،بیماریوں سے بھڑ گیا اور آسمانی آفات کے آگے ڈٹ گیا تھا ۔۔۔ یہ طاقت یہ کامیابی انسان کو کائنات کے اندھیروں میں اتر کر ملی تھی ، اب اپنی ذات کو تسخیر کر نے کی صدیاں شروع ہو نے والی ہیں اس لئے انسان کواپنے اندھیروں میں اترنا ہو گا، اپنی ڈارک سائڈز ، جن سے ہم آنکھیں چرا لیتے ہیں ، اپنی روح کی ایکسرے رپورٹ جسے دیکھ کر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ہو گا ، انہیں قبول کر نا پڑے گا ، انکاری ہو نے سے مرض غائب نہیں ہو جاتے ۔ ہم دوسروں کو اپنے چہرے کا وہ حصہ دکھاتے ہیں جو کاسمیٹک سرجری سے سجایا سنوارہو تا ہے ، تیزاب میں جھلسے سیاہ حصے پر دھوکے کے لئے سفید نقاب ڈال دیتے ہیں ۔۔ روح کے دونوں چہروں کو آپس میں ہمکلا م کر نے کی صدیوں کا آغاز ہو نے والا ہے ۔۔
نفسیاتی گنجلیں کھلنے کا وقت آگیا ہے ۔ اب کائنات نہیں انسان کی اپنی ذات کی تشخیص ، تحقیق اور علا ج کی صدیاں آنے والی ہیں ۔
یہ صدیاں ، سرنگ میں سفر کر نے کی صدیاں ہیں ۔ اندھیرے میں چلنا ہی پڑے گا ، دوسرے سرے پر جو روشنی نظر آرہی ہے ، اس تک پہنچنے کے لئے سرنگ کا سفر کر نا ہی پڑے گا ۔۔
اس لئے میرے ریڈیالو جسٹ دوست !! نیگٹیوز دیکھنے کا زمانہ ہے ۔ اس زمانے میں ایسی ہی تقدیریں ، ایسی ہی تحریریں دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گی ۔برادشت کر نا ہی ہو گا ۔۔۔ پازیٹو علاج کے لئے نیگٹوزکوکھنگا لناہی ہوگا ۔ہم جیسوں کو ہڈیاں گلانی  ہی ہوں  گی تاکہ آنے والی نسلیں جھوٹ ،مکر اور دھوکے سے نہیں سچ کے ساتھ زندہ رہنا سیکھیں ۔۔ہو سکتا ہے دنیا کا گمشدہ امن اسی طرح گھر لوٹ آئے

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”ایک ریڈیالوجسٹ دوست کے لئے۔۔۔روبینہ فیصل

  1. Salaams Ms Rubina Faisal: Please google us complete……UMMAA Broadcasting, Rolla, Missouri, USA….to understand our pposition published for decades in USA…we amercan independent media company..

Leave a Reply to Arshad Khan Cancel reply