قلم کی طاقت

ہر حساس انسان کی طرح مجھ سے بهی انسانیت کی توہین کسی صورت برداشت نہیں ہوتی – خواہ وہ نہتے نوجوانوں کو مار کے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا ہو یا معصوم کلیوں کو روندتے ہوئے کریہہ صورت درندوں کو دیکهنا، یا پھر اشرف المخلوقات کے سیاہ لمحوں کا حاصل کوڑے کے ڈهیر پر سانس لیتا انسانی وجود کسی جانور کے منہ میں دیکها جاتا ہے، نہ یہ سب سہا جاتا ہے،لیکن اس سب کے باوجود میں نے کبهی بهی اپنے معاشرے کو بدترین معاشرہ نہیں کہا، کبهی کسی مقام پر پاکستانیوں کو برا نہیں کہا۔۔۔ اپنے وطن اور ہم وطنوں سے محبت کرنا نہیں چھوڑا ، عزت کرنا نہیں چهوڑا،کیونکہ میں نے بچپن سے لے کر اب تک مہذب ،امن پسند پاکستانیوں کو ہی اپنے ارد گرد پایا ہے، ابهی دو دن پہلے ہی اپنی وہیل چیئر پر سڑک پار کرنے کے لیے موجود تهی کہ اسی اثناء میں پاس سے گزرتا ایک ٹریلر سڑک کے درمیان اس طرح کهڑا ہوا کہ ادهر کی ٹریفک ادهر اور ادهر کی ادهر رہ گئی اور میں اتنے رش کے باوجود آسانی سے سڑک پار کر گئی،اس کہ علاوہ بھی مجهے اپنے وطن کے عام گلی محلوں میں بنا کسی لالچ و طمع کے دعا دینے والے بزرگ ملتے ہیں،اجنبی مسلمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے گزرتے ہیں.،بهاگتے دوڑتے بچے آج بهی پاس سے گزرتے بزرگوں کے احترام میں اپنی کرکٹ روک لیتے ہیں سگریٹ چهپا لیتے ہیں، دروازے پہ ہونے والی دستک اور ہنکارا سن کے سروں پے آنچل اوڑھ لیے جاتے ہیں، ازان کی آواز پر ٹی وی اور موبائل بند کر دیئے جاتے ہیں،چھتوں پر پرندوں کے لیے دانہ پانی رکها جاتا ہے، بےوقت آئے مہمانوں کو خوش دلی سے خوش آمدید کہہ کہ چائے پانی پلایا جاتا ہے، اپنے بزرگوں کے پاؤں دبائے جاتے ہیں، ان سے کہانیاں سنی جاتی ہیں،میں بیرون ملک بهی گئی تو وہاں بهی پاکستانیوں کو بامروت بااخلاق تعاون کرنے والا ہی پایا ۔
تو ایسے میں اپنے اتنے پیارے وطن،مہذب معاشرے اور امن پسند ہم وطنوں کے بارے میں ہر وقت سوشل میڈیا اخبارات ٹی وی چینلز پر برائی ہی دیکهتی سنتی اور پڑهتی ہوں تو باخدا دل بہت دکهتا ہے،بوکاٹا کا شور مچانے والے قلمکاروں نے نجانے کس سے ٹھیکہ لیا ہے کہ جب بهی لکهنا ہے پاکستان اور پاکستانیوں کی برائیوں کو ہی سارے جگ میں نمایاں کرنا ہے،دینِ مبین جیسے انتہائی حساس اور اہم موضوع پر بهی بنا کسی تحقیق و مشاہدے کے جو منہ میں آیا بس بول دینا ہے،ان سب کا خمیازہ عجیب عجیب صورتوں میں سامنے آرہا ہے، نئی نسل اللہ اور اللہ والوں سے دور ہورہی ہے، اپنے وطن اور ہم وطنوں سے متنفر ہورہی ہے،ابهی چند دن قبل میڈیکل کالج کی ایک طلبہ نے ایک انتہائی مناسب رشتہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس لڑکے میں سب کچھ ٹهیک ہے لیکن اس نے ڈاڑھی رکهی ہوئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا کہ اس کے اندر کہیں (ملا) رہتا ہوگا۔۔۔جو شادی کے بعد لگنے والی پابندیوں کی صورت سامنے آئے گا، میں یہاں سب اچھا کا راگ بھی نہیں الاپوں گی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ خیر اور شر لازم و ملزوم ہیں ، یہ دنیا کے ہر خطے میں ہر شعبے میں ہر انسان میں موجود ہیں. لیکن محظ چند برے لوگوں کی وجہ سے جو اپنے نفس کے ہاتھوں جلے اور بکے ہوئے ہیں،ہم باقی کے گلشن کو بدصورت اور بدبودار نہیں کہہ سکتے،فردِ واحد کی سزا اور الزام سب کو نہیں دے سکتے، جب ہم اپنی اور اپنے گھر والوں کی برائیاں اور خامیاں دوسروں کو بتانا پسند نہیں کرتے تو خدارا پاکستان اور پاکستانیوں کو بھی اپنا سمجھیے انہیں دنیا بھر میں بدنام مت کیجیے – شر پهیلانے کا باعث مت بنیے دنیا میں اپنے حصے کی شمع جلائیے، اپنے قلم کی طاقت کو پہچانیے، جب بھی لکھنا ہو حق اور سچ لکھیے، اگر آپ اپنے لفظوں کی حرمت کا پاس نہیں کریں گے تو آپکے لفظوں سے تاثیر نکل جائے گی،اور یہ محض کھوکھلے لفظ رہ جائیں گے اور کهوکهلے لفظ کبهی بھی دلوں پے دستک دینے کی ہمت نہیں کرتے۔
(گل افشاں رانا)

Facebook Comments

Gull afshan
Writter nd poet

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قلم کی طاقت

Leave a Reply to راجہ محمد احسان Cancel reply