شب برأت واجب ہے اور نہ بدعت ۔۔۔۔ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

اللہ رب العزت نے جب سے حضرت انسان کوپیداکیاتبھی سے حق وباطل کی جنگ جاری ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ باطل پرست کبھی یہ نہیں چاہتاہےکہ حق پرست پر اللہ کی رحمت ہو، یااُسے انعام الٰہی ملے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کو شرافت و کرامت جیسے انعامات سے سرفراز فرمایا، توابلیس یہ دیکھ کرتلملااُٹھاکہ معلم الملکوت ہونے کے بعدبھی اُسے وہ مقام و مرتبہ نہیں مل سکا جومقام ومرتبہ ایک ہی آن میں حضرت آدم کو بخشش دیاگیا، جس کانتیجہ یہ نکلاکہ ابلیس نے حضرت آدم کوسجدہ کرنے سے انکارکردیااوراُسی دن سے ابلیس ، بنی آدم کے جان وایمان کا دشمن ہوگیا۔

یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میں محفوظ کرلینے کی ہےکہ ابلیس نے جب حضرت آدم کو جنت سے نکلوایاتو اُس نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں ابلیس ہوں، بلکہ حضرت آدم کواُن کے خیرخواہ ہونے کا یقین دلاکراوراللہ کے نام کا واسطہ دے کر ہی پھسلایاتھا، تبھی حضرت آدم ابلیس کی باتوں میں آئے، اسی طرح آج بھی جولوگ کسی مومن کو حق سے دورکرنے کی کوشش کرتے ہیں تووہ بھی مومن ہی کے لباس میں آتے ہیں اور ایک مومن کوبہکانے کے لیے وہ بھی اللہ ورسول کانام اوراُن کے فرمان وارشادکا سہارا لیتے ہی ، جس کا اثر یہ ہوتاہے کہ ابن آدم تذبذب اورکشمکش کا شکارہوجاتا ہے کہ وہ کیا کرےاور کیا نہیں کرے؟تقریباً یہ صورت حال جملہ ممالک ایشیامیں ہے ، جب کہ ہندوپاک میں یہ صورت حال کچھ زیادہ ہے۔

بدقسمتی سے ہم جس ملک وملت اورماحول وفضامیں جی رہے ہیں، اس میں جتنی بھی جماعتیں ہیں، وہ یاتوشریعت سے اوپر اُٹھ گئی ہیں یاپھرشریعت میں نقص وفسادپیداکررہی ہیں، اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہرفریق خود کو حق پرست اور دوسرے کو باطل پرست قراردینے میں اپنی ساری توانائی خرچ کررہا ہے، جب کہ دونوں میں سے کسی کی بات وحی الٰہی نہیں۔

یوں توایسےبے شمار مختلف دینی مسائل ہیں جن میں اختلاف پایاجاتاہے لیکن سردست ہم’’شب برأت‘‘کی حقیقت واضح کریں گے ، جس میں نوافل کی کثرت ، ایصال ثواب اورمُردوں کے لیے دعائے خیرکرناباعثِ ثواب ہے ، البتہ!اس رات میں کوئی بھی عبادت واجب یافرض نہیں ہے بلکہ سنت مستحبہ ہے۔ جس کاادانہ کرناگناہ تو نہیں ہے لیکن اس کا اداکرنااجروثواب کا باعث ضرور ہے۔

جب کہ ایک طبقہ وہ ہے جس کے نزدیک’’شب برأت‘‘کی کوئی اصل نہیں ہے، اس میں نوافل اورکسی بھی طرح کا ذکرو اذکار کرنااس کے نزدیک بدعت وگمراہی ہے۔اُن کی دلیل یہ ہے کہ ’’شب برأت‘‘کی عبادتوں کے تعلق سے جتنی بھی حدیثیں ہیں وہ سب ضعیف ہیں ، اس لیے اس رات میں نوافل کا اہتمام، تسبیح وتہلیل اور مُردوں کے لیے دعائے خیرکرنا بدعت وگمراہی ہے۔

ثاولاً تو مخالفین کا یہ کہنا ہی درست نہیں ہےکہ ’’شب برأت‘‘کی نوافل ا ور روزہ کے بارے میں جتنی احادیث وارد ہیں وہ سب ضعیف ہیں ، بلکہ اس رات کی عبادتوں کے تعلق سے ضعیف احادیث کے ساتھ حسن احادیث بھی وارد ہیں ، جیسےابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ والی حدیث جو’’سنن ابن ماجہ‘‘میں ہے اور امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی حدیث جو’’مسندبزاز‘‘میں ہے، جس میں مشرک اورکینہ رکھنے والوں کے سواتمام مخلو ق کی مغفرت کی بات کہی گئی۔

ثدوم یہ کہ اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیاجائے کہ’’شب برأت‘‘کے تعلق سے تمام حدیثیں ضعیف ہیں ، پھربھی یہ لازم نہیں آتاکہ اس میں نفل نماز وروزہ رکھناگناہ ہے ، یاممنوع ہے، کیوں کہ نفل نمازوروزے کی ممانعت پر صحیح یاحسن حدیث تو دور، کوئی ضعیف حدیث بھی وارد نہیں جس سے ممانعت ثابت ہو۔

ثسوم یہ کہ وہ کون سی صحیح، یاحسن حدیث ہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ ’’شب برأت‘‘میں نفل نمازاداکرنا درست نہیں ، یاشریعت کے خلاف ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نفل نماز اداکرنے سے اللہ کا قرب حاصل ہوتاہے، پھر نفل نماز کی ادائیگی بدعت کیسے ہوسکتی ہے؟اس کے باوجود اگر کوئی جماعت ’’شب برأت‘‘میں مختلف عبادات، مثلاًتسبیح وتہلیل، ذکرواذکار، ایصال ثواب اور نفل نماز اداکرنے کو درست نہیں مانتی، تو اِس کے سوا کیا کہاجاسکتاہے کہ وہ دین کے نام پرلوگوں کوگمراہ کررہی ہے۔

بعض لوگ حلوہ کے لیے بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ اس رات حلوہ پکانااورکھانابھی بدعت ہے ، یہ بھی سراسرنادانی ہے، کیوں کہ حلوہ ایک کھانے کی چیز ہے جس کو اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے حلال کررکھاہے، اسی طرح حلوہ بنانے کو فرض عین یاواجب جاننابھی ناسمجھی ہے، بلکہ یہ ایک مباح اورمستحب عمل ہے۔

اب رہ گئی بات ’’شب برأت‘‘کے موقع پرسڑکوں پر گھومنا، پھرنااورآتش پازی کرنا، تو یہ کسی بھی طرح سے شرعی عمل نہیں ہے، بلکہ یہ خرافات اور حرام ہے اوراس طرح کے اعمال سے ہرممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ ایسے اعمال، ثواب کے بجائے عذاب کا باعث بنتے ہیں۔ نیز پٹاخےپھوڑناغیراسلامی عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طرح سے اسراف بھی ہے اوراسراف و فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کابھائی قراردیاگیا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:واقعی فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اورشیطان اپنے رب کا ناشکراہے۔(بنی اسرائیل:۲۷)

القصہ!اس مبارک موقع پر زیادہ سے زیادہ نفلی عبادات کااہتمام ، ایصال ثواب اورمُردوں کے لیے دعائے خیر کرنابہترہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ مضامین ڈاٹ کام

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply