پاکستانی اردو۔۔۔داؤد ظفر ندیم

اردو زبان کو علمی اور سائنسی زبان بنانے کی کافی کوششیں کی گئیں عثمانیہ یونیورسٹی اور پاکستان بننے کے بعد اردو یونیورسٹی میں اسے اعلی تعلیم کے لئے ذریعہ تعلیم  بنایا  گیا ۔مقتدرہ، اردو سائنس بورڈ سمیت کئی اداروں نے اردو زبان میں اعلی تعلیم شروع کی مگر یہ معاملہ مقبول نہیں ہو سکا، بہت سے دوست کہہ رہے ہیں کہ اس کا سبب حکام اعلی کی عدم دلچسپی اور عدم توجہ تھی مگر صرف یہ کہنا کافی نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات کے لئے عربی فارسی سے لفظ درآمد کرنے پڑے اور ایسے ایسے ترجمے ہوئے کہ طالب علم کے لئے مسئلہ جو ہونا تھا، ہوا، اساتذہ کے لئے بھی مسئلہ ہوگیا ۔اب اس کا حل غیر اعلانیہ طور پر یہی نکالا گیا کہ اعلی تعلیم اور تحقیق سے اردو کو نکال دیا گیا۔ مگر اب بھی جذبہ حب الوطنی کا ابال کھانے والے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کو اعلی تعلیم کے ذریعے کے طور پر اپنائے بغیر حب الوطنی مکمل نہیں ہوتی حالانکہ ایسی بات نہیں، وہ یہ بھی مثالیں دیتے ہیں کہ انگلش میں لاطینی اصطلاحات ہیں ۔یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اصطلاحات اپنائی جا چکی ہیں اور جاپان چین یا فرانس کی مثال دینے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ لوگ سائنسی اور علمی پیش رفت میں شریک ہیں اس لئے ان کے لئے اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا ممکن ہے

Advertisements
julia rana solicitors

حقیقت یہ ہے کہ اردو میں اعلی تعلیم اور تحقیق کی کوششیں علم کے زوال کا باعث بنتی ہیں یہ انگریزی سے مرعوب ہونے کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کئی نسلوں سے اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے انگریزی کو ذریعہ بنایا ہوا ہے اس لئے ان کے لئے اب انگریزی کوئی اجنبی زبان نہیں۔ شہروں کے بعد دیہاتوں میں انگریزی میڈیم سکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی وفاق کی   تمام اکائیوں نے عملاً  یہ تسلیم کرلیا ہے کہ انگریزی زبان ہی اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے پاکستانی لوگوں کے لئے بہتر ہے اس لئے جو شخص اردو کو اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے اپنانے کا نعرہ لگاتا ہے تو اس کا سبب کوئی حب الوطنی نہیں بلکہ علم دشمنی ہے!

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply