اردو زبان کو علمی اور سائنسی زبان بنانے کی کافی کوششیں کی گئیں عثمانیہ یونیورسٹی اور پاکستان بننے کے بعد اردو یونیورسٹی میں اسے اعلی تعلیم کے لئے ذریعہ تعلیم بنایا گیا ۔مقتدرہ، اردو سائنس بورڈ سمیت کئی اداروں نے اردو زبان میں اعلی تعلیم شروع کی مگر یہ معاملہ مقبول نہیں ہو سکا، بہت سے دوست کہہ رہے ہیں کہ اس کا سبب حکام اعلی کی عدم دلچسپی اور عدم توجہ تھی مگر صرف یہ کہنا کافی نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات کے لئے عربی فارسی سے لفظ درآمد کرنے پڑے اور ایسے ایسے ترجمے ہوئے کہ طالب علم کے لئے مسئلہ جو ہونا تھا، ہوا، اساتذہ کے لئے بھی مسئلہ ہوگیا ۔اب اس کا حل غیر اعلانیہ طور پر یہی نکالا گیا کہ اعلی تعلیم اور تحقیق سے اردو کو نکال دیا گیا۔ مگر اب بھی جذبہ حب الوطنی کا ابال کھانے والے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کو اعلی تعلیم کے ذریعے کے طور پر اپنائے بغیر حب الوطنی مکمل نہیں ہوتی حالانکہ ایسی بات نہیں، وہ یہ بھی مثالیں دیتے ہیں کہ انگلش میں لاطینی اصطلاحات ہیں ۔یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اصطلاحات اپنائی جا چکی ہیں اور جاپان چین یا فرانس کی مثال دینے والے یہ نہیں سوچتے کہ وہ لوگ سائنسی اور علمی پیش رفت میں شریک ہیں اس لئے ان کے لئے اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا ممکن ہے
حقیقت یہ ہے کہ اردو میں اعلی تعلیم اور تحقیق کی کوششیں علم کے زوال کا باعث بنتی ہیں یہ انگریزی سے مرعوب ہونے کی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کئی نسلوں سے اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے انگریزی کو ذریعہ بنایا ہوا ہے اس لئے ان کے لئے اب انگریزی کوئی اجنبی زبان نہیں۔ شہروں کے بعد دیہاتوں میں انگریزی میڈیم سکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی وفاق کی تمام اکائیوں نے عملاً یہ تسلیم کرلیا ہے کہ انگریزی زبان ہی اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے پاکستانی لوگوں کے لئے بہتر ہے اس لئے جو شخص اردو کو اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے اپنانے کا نعرہ لگاتا ہے تو اس کا سبب کوئی حب الوطنی نہیں بلکہ علم دشمنی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں