ڈاگ معنے کتا

ہمارے علم میں ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی تعلیم انگریزی زبان میں ہوئی اور انہوں نے زیادہ عرصہ بھی ملک سے باہر گزارا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گفتگو میں انگریزی ادب کے حوالے اور انگریزی اصطلاحات ہی زیادہ استعمال ہوتی تھیں۔ یہ کوئی خامی نہیں بلکہ محترمہ کے علم کی دلیل تھی۔ ان سے قبل بھی ذوالفقار علی بھٹو اور قائد اعظم سمیت اکثر بڑے رہنماؤں کا انداز گفتگو یہی رہا تھا لیکن چونکہ پاکستان میں ضیا الحق کی باقیات کو محترمہ کی کردار کشی مطلوب تھی لہٰذا ان کے دسترخوان سے ہڈیاں چننے والے صحافی ایسا کوئی موقع جانے نہیں دیتے تھے، جس کے ذریعے محترمہ کی درست بات کو بھی غلط بنا کر پیش کیا جاسکے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مسلم لیگی قیادت کی مانند اکثر صحافی بھی انگریزی سے نابلد بلکہ"پیدل" ہی ہوتے ہیں۔ انہی صحافیوں میں سے ایک کالم نگار جو آج کل قریب المرگ ہونے کے باعث بزرگ صحافی کہلاتے ہیں اور برسوں تک مسلم لیگ کے وظیفہ خوار رہے ہیں، نے محترمہ کی ایک بات کو لے کر اپنے کالموں میں خوب واویلا مچایا۔
ہوا یوں کہ محترمہ کے پہلے دور حکومت کے دوران، جس میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ انہیں سانس لینے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھی، وزیراعظم نے کہا کہ سیاست میں دخل اندازی کے بجائے فوج کا کردار "واچ ڈاگ" کا ہونا چاہیے۔ انگریزی زبان سے واقف لوگوں کے لیے اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی لیکن ضیا الحق کی باقیات نے عوام کی کم علمی سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس بات کو نہایت غلط انداز میں استعمال کیا۔ وظیفہ خوار صحافیوں کے غول اس بات کو فوج کی توہین قرار دینے لگے اور انہی"بزرگ کالم نگار" نے اپنے کالموں میں فوج کے سپاہیوں کے "آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے خطوط" شائع کیے ،جن میں صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کے وارثوں نے خود کو کتا کہے جانے پر شدید دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
اس مہم کی اثر انگیزی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ہمارے ایک پڑوسی نے جو محلے کی مسجد کے موذن بھی تھے، ایک روز صبح صبح ہمارے دروازے پر دستک دی اور میرے والد سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا (میرے والد اس وقت پاک فضائیہ سے ریٹائر ہو چکے تھے) خیر۔۔۔ موذن صاحب نے نہایت گلوگیر لہجے میں کہا کہ رانا صاحب دیکھیے ذرا، اس عورت نے ہمارے مجاہدوں کو کتا کہا ہے۔ اس بات پر ہماری ہنسی چھوٹنے ہی والی تھی کہ والد نے گھور کر ہمیں خاموش کرا دیا اور موذن صاحب کو سمجھایا کہ وزیر اعظم نے فوجیوں کو کتا نہیں کہا بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق فوج کو چوکیدار یا محافظ کے فرائض نبھانے کی تلقین کی ہے لیکن وہ بیچارے اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے اور بار بار یہی کہتے تھے کہ یہ دیکھیے ڈی او جی "ڈاگ" لکھا ہے اور ڈاگ معنے کتا!
بہرطور جب ہم نے صحافت کی وادی میں قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ اس طرح کے آنسوؤں میں ڈوبے خطوط دراصل سیاسی رہنماؤں کی عنایات میں ڈوب (مر) کر لکھے جاتے ہیں اور یہ پراپیگنڈا کا ایک حصہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کا پراپیگنڈا قوم کی آنے والی نسلوں کو کھا جاتا ہے۔
آج جب میڈیا پر مسلم لیگی وزرا دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ ان کے خلاف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے تو قطعاً حیرت نہیں ہوتی کیونکہ یہی ہتھیار 80 کی دہائی سے لیکر آج تک آپ پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کرتے چلے آرہے ہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ مکافات عمل کے سوا کچھ نہیں۔ آج جس وقت ن لیگ کے پے رول پر پلنے والے صحافی اور دانشور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ میاں صاحب اب حقیقی جمہوریت پسند ہوگئے ہیں تو اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ میثاق جمہوریت کر لینے کے بعد بھی میاں صاحب قوم کے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھجوانے کی باتیں کرتے رہے اور میمو گیٹ سکینڈل میں منتخب صدر آصف علی زرداری کا استعفیٰ مانگتے رہے۔ اب ان میں اپنا بویا ہوا کاٹنے کی ہمت ہونی چاہیے ۔
حضور ! برسوں پہلے آپ ہی نے قوم کو پڑھایا تھا۔۔۔ڈی او جی۔۔۔ ڈاگ ۔۔۔ ڈاگ معنے کتا ۔۔۔ اور کنویں میں گرا ہوا یہ کتا ابھی تک نکلا نہیں۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply