نہ وہ لیڈر ہے، نہ ہی اس کا کوئی وژن ۔۔۔محمد احسن سمیع

عمران خان نے اپنے جلسے میں دو گھنٹے 92 کے ورلڈ کپ اور شوکت خانم کا راگ الاپنے کے بعد وہ معرکۃ الآراء 11 نکات پیش کئے جو اب مطالعہِ نیا پاکستان میں قائد اعظم کے 14نکات کی جگہ لیں گے۔ انصافی ہمیشہ کی طرح اپنے مہاتما کی بے سروپا باتوں اور دعوؤں  پر “یہ ہوتا ہے لیڈر، یہ ہوتا ہے وژن” کہتے سر دھن رہے ہیں۔ مین  اسٹریم میڈیا بھی جنگ اور جیو کا انجام دیکھ کر عبرت حاصل کر، اچھا بچہ بن بیٹھا ہے سو وہاں سے تو اب اس 65 سالہ  بابے کے محاسبے کی کوئی امید نہیں،  اب کہ جو معرکہ ہوگا وہ سوشل میڈیا پر ہی ہوگا۔ ہمارے بڑے بڑے میڈیائی مجاہدین جو آئے روز حکومت کو طعنے مارا کرتے تھے کہ اگر سازش ہورہی ہے تو نام لیں نا کہ کون سازش کر رہا ہے، اب معصوم بلونگڑے بن کر ایسے دبکے بیٹھے ہیں کہ ٹوئیٹر فیس بک پر بھی نام نہیں لے سکتے کہ کس نے ان کے اخبارات اور ٹی وی چینل بندوق کے زور پر بند کروائے۔ اگر میڈیا کنٹرولڈ نہ ہوتا تو ہمارا الیکٹرانک میڈیا جلسے کی لائیو کوریج کی اجازت نہ دیے جانے پر اس کا سرے سے بائیکاٹ ہی کرچکا ہوتا۔

دوسرے یہ کہ ان 11 نکات کے اعلان کے ساتھ ہی مہاتما جی سے مطالبہ کیا جاتا کہ حضور باتیں تو ساری بہت اچھی ہیں، مگر ذرا ان 11 نکات کے تناظر میں آپ کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا بھی ذکر نہ ہوجائے؟ مگر جب ٹیٹوے پر ڈیڑھ کلو کا سیاہ بوٹ رکھے ٹھاکر آپ کے بازو بھی مروڑ رہا ہو تو کون خود کو مزید مشکل میں ڈالتا ہے۔ مہاتما جی اب بھی اپنے آپ کو ناآزمودہ کار سمجھتے ہوں تو سمجھیں، قوم کو کس خوشی میں چغد سمجھ بیٹھے ہیں؟حضور اب آپ کوچہ اقتدار کے فریش مین نہیں رہے، ایک صوبے پر 5 سال حکمرانی کر چکے ہیں۔ اب   ان خوش کن نعروں سے صرف انصافیوں کا ہی جی بہل سکتا ہے، دوسری جماعتوں کے ووٹر کو توڑنا ہے تو ان کی جماعتوں کے مقابلے میں اپنی کارکردگی دکھانا پڑے گی، اور وہ آپ کے پلے سرے سے ہے ہی نہیں! چار سال ناچ گانے اور ہلڑبازی میں وقت برباد کرنے کے بعد پانچویں سال جو منصوبے جلد بازی میں بنا کسی منصوبہ بندی کے شروع کردیئے گئے تھے اب ان کا حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے تکمیل پانے کا کوئی امکان نہیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے لوگ ان کی نااہل ترین حکومت کے باوجود ان کی حمایت میں جواز تراشتے رہتے ہیں۔

کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا بنیادی پیمانہ اس کے وسائل کے  استعمال کی استعداد ہوتا ہے کہ جو آپ اپنے موجودہ وسائل کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں۔ ترجیحات کا تعین بھی یقیناً اہم ہے لیکن یہ ایک سبجیکٹو ایشو  ہے، جس  کا کبھی بھی دو جمع دو کرکے جواب نہیں نکالا جاسکتا۔ ایک بار جب مختلف لوگ اپنی ترجیحات طے کرچکیں، تو پھر ان کا موازنہ اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنی طے کردہ ترجیحات پر کس قدر پیش رفت کی، نہ کہ اس بات پر کہ کس کی ترجیحات زیادہ اچھی تھیں۔ یہ طے کرنا کہ انہیں زیادہ ضرورت کن چیزوں کی تھی، عوام کا کام ہے جو وہ انتخابات میں اپنی رائے کے اظہار کے ذریعے کردیتے ہیں، اور اس کے لئے انہیں کسی آسمانی مسیحا کی ضرورت نہیں جو آکر انہیں سبق پڑھائے۔ خیر، اب جبکہ پنجاب اور پختونخوا  حکومتیں اپنی مدت کی تکمیل کے قریب ہیں، ان کی کارکردگی کا موازنہ کرنے کے لئے یہ اصول نہیں چل سکتا کہ پانچ سال قبل کس نے اپنے لئے زیادہ بہتر ترجیحات متعین کی تھیں۔ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ کر ہم صرف اس بات کا تجزیہ کرنے کے مجاز ہیں کہ کون اپنی ترجیحات کو زیادہ کامیابی سے عملی جامہ پہنا سکا ہے۔

پانچ سال قبل  نون لیگ نے اپنے لئے بجلی اور انفراسڑکچر ڈیولپمنٹ کو  بطور ترجیح متعین کیا تھا، آج دیکھ لیں وہ اپنے دعووں کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے! 10 ہزار میگاواٹ سے زائد استعداد کے نئے منصوبے شروع ہوکر پایہ تکمیل کو پہنچ بھی چکے جن کے وجود سے انکار، سورج کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی حیدرآباد، اسلام آباد ہزارہ سمیت کئی  دوسرے موٹرویز مکمل ہوچکے ہیں یا مکمل ہونے والے ہیں۔ دوسری جانب جن کا دعویٰ تعلیم اور صحت کا انصاف کرنے کا تھا، انہوں نے دونوں شعبوں کا تحریک انصاف کردیا ہے۔ آج بھی پختونخوا  سے مریضوں کو پنجاب جانا پڑتا ہے، ڈینگی کی وبا پھیل جائے تو اس سے نمٹنے کے لئے بھی پنجاب سے ٹیم   بلانا پڑتی ہے۔ تعلیم کے انصاف کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ برس بورڈ کے امتحانات میں سرکاری اسکولوں کا نتیجہ اس قدر برا آیا کہ پشاور ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑگیا تھا۔ مثالی پولیس کا تو کیا ہی کہنا، اس کی کارکردگی اسماء، عاصمہ اور دیگر حالیہ کیسز میں سامنے آچکی ہے۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ہردوسرے دن اخبار میں خبریں چھپتی ہیں کہ فلانے معاملے میں پختونخوا  حکومت کا پنجاب سے مدد لینے کا فیصلہ، لیکن جلسوں  میں اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ابلیس کو شرما دیں۔ انفراسٹرکچر اور بجلی تو چھوڑدیجئے، ان کی بابت آپ کی استعداد تو 350 ڈیمز کی طرح خیالی ہی ہے، صحت، تعلیم اور پولیس کے محکموں میں ہی مقابلہ کر لیجئے اور گزشتہ پانچ سال میں دانش اسکولز کے معیار کا ایک بھی سکول بنایا ہے تو دکھا دیجئے، پنجاب ایجوکیشن اینڈومنٹ فنڈ جیسا ادارہ قائم کیا ہو تو دکھائیے جو اپنے وسائل سے سینکڑوں طلبہ کو اندرون اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے مواقع دے رہا ہو۔ پی آئی کے ایل ٹی جیسا تو دور کی بات، وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے لیول کا ہی کوئی ہسپتال بنایا ہو تو اس کا پتہ بتا دیں تاکہ ہم بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ کیا ہوتا ہے لیڈر اور کیسا ہوتا ہے وژن!  پولیس کی مدد کے لئے اگر پنجاب فارنزک لیبارٹری کے ہم پلہ کوئی ادارہ بنایا ہو تو وہ بھی دکھادیں! پنجاب آئی ٹی بورڈ جیسا کوئی ادارہ تو خیر آپ کیا ہی بنائیں گے، یہ ہی بتادیں کہ پانچ سال میں کتنے تھانے آٹومیٹ ہو گئے اور کتنی آن لائن ایف آئی آر درج ہوپائیں۔

جیسا کہ اوپر عرض کی کہ حکومت کی اہلیت کا اندازہ اس کے وسائل کے استعمال کی صلاحیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ نیچے دی گئی تصویر ایک مثال ہے، جس میں مالی سال 2016-2015 میں پنجاب اور پختونخواہ حکومت کا موازنہ، صوبائی اکاؤنٹنٹ جنرلز کی سالانہ فنانشل رپورٹس کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ جس کو اعداد و شمار کی صحت پر شک ہو وہ جاکر اکاؤنٹنٹ جنرل کی ویب سائٹ سے رپورٹ خود پڑھ لے۔ 2016 اس لئے کہ فی الوقت اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کی ویب سائٹ پر اس کے بعد کی رپورٹس میسر نہیں۔ اعداد شمار کسی شرح و بیان کے محتاج نہیں، بلکہ چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ باتیں کرنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ ہوا میں دعویٰ کوئی بھی کرسکتا ہے، اس کو پورا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ آپ پی ٹی آئی کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کسی ایک بھی سیکٹر میں یہ اپنا پورا بجٹ ہی خرچ نہیں کرسکے۔ تعلیم کے میدان کو ہی دیکھ لیں تو پنجاب حکومت نے 88 فیصد بجٹ استعمال کر لیا، جبکہ تحریک انصاف والے 60 فیصد بھی استعمال نہ کرسکے۔ صحت کے شعبے میں بھی پنجاب نے اپنے وسائل بھرپور طریقے سے استعمال کئے 92 فیصد بجٹ استعمال کیا، جبکہ پی ٹی آئی والے 82 فیصد سے زیادہ نہ بڑھ سکے۔ ترجیحات کے تعین کے حساب سے بھی دیکھا جائے تو دعووں کے برعکس انصافی حکومت نے فی کس بجٹ کا محض 4 فیصد ہی صحت پر خرچ کیا جبکہ پنجاب حکومت نے فی کس بجٹ اخراجات کا 4٫7 فیصد خرچ کیا۔ تعلیم اور بلدیات میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ اب چونکہ اس کا جواب ان کے پاس ہے نہیں، زمین پر کوئی کام دکھانے کو ہے نہیں اس لئے لوٹ کر اسی شوکت خانم کو سیاسی ڈھال بنایا جارہا ہے جس پر اگر کوئی تکنیکی اعتراض بھی کرے تو اسے اس عظیم ہسپتال کو سیاست میں ملوث کرنے پر شرم دلانا فرض سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو آپ کا مہاتما لیڈر ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی وژن!

Punjab Financial Statement 2015-2016:

Click to access 2015-16.pdf

KPK Financial Statement 2015-2016:

Click to access KP-Financial-Statements-2015-16.pdf

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply