ایران امریکہ سے ویران نہیں ہوگا۔۔۔اسد مفتی

ایران کی اٹامک ایجنسی کے ترجمان علی شیرزادیان نے کہا ہے کہ اگر آئی اے ای اے (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) روس، فرانس اور امریکہ کے ساتھ ایران کے نیو کلیئر مسئلہ پر بات چیت میں ناکام ہو جائے تو ایران خود اپنے طور پر مزید یورینیم افزودگی کے اقدامات کرے گا۔
جس طرح امریکہ نے جھوٹ اور فریب کا سہارا لے کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی بالکل اسی طرح وہ ایران کو بھی پریشان کرنا چاہتا ہے، عراق سے ’’فارغ‘‘ ہوکر امریکہ کی جارحیت پسندی نے ایران کا رخ کیا ہے اور دنیا کو یہ سمجھانے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے کہ ایران عالم انسانیت کے لئے بڑا خطرہ ہے لیکن آئی اے ای اے کےسابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد البرادی نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ایران پر کوئی حملہ اس سارے علاقے کو ’’آگ کے گولے‘‘ میں تبدیل کردے گا، انہوں نے کہا تھا کہ میرے خیال میں ایران پر فوجی حملہ سے بدتر کوئی اور بات نہیں ہوگی اور شاید تنظیم کا کوئی عہدہ دار کام بھی نہ کرسکے۔ کسی حملہ کے نتیجہ میں ایران کا موقف اور سخت ہوجائے گا اور ایسی صورت میں ایرانیوں بالخصوص بیرون ملک مقیم ایرانیوں کی مدد سے ایٹمی اسلحہ بنانے کا ایمرجنسی پروگرام شروع ہوجائے گا۔مغربی ملکوں کو پہلے ہی خدشہ ہے کہ ایران کا نیوکلیائی پروگرام ایٹم بم بنانے کا بہانہ ہے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اسے نیوکلیائی ٹیکنالوجی بجلی پیدا کرنے کے لئے چاہئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صدر بش نے جہاں بہت سی سوغات اپنے جانشین صدر اوباما کے لئے چھوڑی تھیں وہاں ایران کے ناکام ایجنڈے کو بھی شامل کرلیا جائے تو ٹرمپ کی پریشانیوں کی مکمل تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اوباما نے ایران کے خلاف جنگ کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سفارتی ذرائع سے معاملہ حل کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم امریکہ اسرائیل کو تباہ کرنے کی ایرانی دھمکیوں کو نہ تو نظرانداز کرسکتا ہے اور نہ ہی آنکھیں بند کرسکتا ہے ۔اس لئے ایران کو لچک دار رویہ اپنانا ہوگا اور ایٹمی پروگرام کو ترک کرنا ہوگا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایرانی قیادت نے ایٹمی پروگرام بند کردیا تو امریکہ بات چیت کے ذریعہ تمام مسائل کا حل تلاش کرے گا ورنہ مستقبل میں ایران کے خلاف مزید سخت پابندی عائد کی جاسکتی ہیں حکومت امریکہ جہاں اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے وہاں امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ تہران نے 2003ء میں نیوکلیائی ہتھیار سازی کا پروگرام بند کردیا تھا تاہم امریکی ’’ہاکس‘‘ کا کہنا ہے کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے بغیر بھی ایران خطرہ ہے۔ اسی مصرع میں طرہا لگاتے ہوئے سابق صدر بش نے اعلان کیا تھا کہ ’’ایران خطرہ تھا، ایران خطرہ ہے، ایران خطرہ رہے گا‘‘۔ بش کی ایران کے بارے میں زہر افشانی دیکھتے ہوئے موجودہ صدرٹرمپ بھی پیچھے رہنے والے نہیں ہیں انہوں نے یروشلم پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایران کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، ہمارے پاس ایران سے متعلق متفکر رہنے کے لئے کئی اور بھی وجوہات ہیں‘‘۔ امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کونسل کی جانب سے ’’نیشنل انٹیلی جنس اسٹیٹمنٹ‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ایران 2020ء تا 2022ء تک ہی اتنا یورینیم افزودہ کرے گا جس کی مدد سے ایٹم بم بنایا جاسکے، ٹرمپ انتظامیہ کے ذریعہ پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ’’ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ 2003ء میں تہران نے اپنا فوجی نیو کلیئر پروگرام بند کردیا تھا‘‘۔ بہرحال رپورٹ میں ٹرمپ اور نئی آنے والی حکومت کے لئے یہ مژدہ بھی سنایا گیا ہے کہ ’’ہم کسی حد تک اعتماد کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تہران نے نیوکلیئر ہتھیار بنانے کے متبادل کو موجود رکھا ہے‘‘۔
میرے حساب سے ایرانی صدر بھی صدام حسین کی طرح واشنگٹن بالخصوص وہائٹ ہائوس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات رکھتے ہیں اور وہ اپنی حکومت کو واشنگٹن کے رحم و کرم پر نہیں چلانا چاہتے اور یہ کہ وہ امریکی احکامات کا غلام نہیں بننا چاہتے اس لئے وہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے۔ ایرانی انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ صہیونی حکومت روبہ زوال ہے جو ایک مرجھائے ہوئے درخت کی مانند ہے جس میں طوفان کا مقابلہ کرنے کی تاب و طاقت نہیں مگر ادھر گزشتہ دنوں نیویارک ٹائمز نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی تھی کہ اسرائیل نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کے لئے بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں کا اہتمام کیا ہے، مغربی ملکوں کو شبہ ہے کہ ایران اپنے پروگرام کے ذریعے نیوکلیئر اسلحہ تیار کرنے کی کوشش کررہا ہے گزشتہ ہفتے ایران نے امریکہ کی یہ وارننگ مسترد کردی ہے کہ عالمی طاقتیں اس امرکا طویل انتظار نہیں کریں گی کہ ایران یہ ثابت کرے کہ وہ نیو کلیئر اسلحہ نہیں بنا رہا۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین علی زادہ نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ چھ عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہم اپنے ’’نیو کلیئر حقوق‘‘ نہیں سونپ سکتے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے اور مغربی ممالک کے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ ایران این پی ٹی اور آئی اے ای اے کی چھتری تلے اپنی ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ایران مذاکرات کے ذریعہ وقت حاصل کررہا ہے تاکہ وہ یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی میں مزید مہارت حاصل کرسکے۔ ایران نے بارہا کہا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کا مقصد بجلی پیدا کرنا ہے جبکہ مغربی تجزیہ کاروں کا خیال یا سوال ہے کہ جب ایران کے پاس وافر مقدار میں تیل موجود ہے تو پھر اسے بجلی پیدا کرنے کے لئے نیو کلیئر پاور پلانٹ ہی کیوں چاہئے؟ بہرحال میرے حساب سے بین الاقوامی طاقتیں غیرمعینہ مدت تک ایران کے تعاون کا انتظارنہیں کرسکتیں۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بہت سے فاتح زندگی بھر اپنی فتوحات کا سوگ مناتے رہتے ہیں کہ انکے مسائل ان کی ناکامی کے بجائے کامیابی سے شروع ہوتے ہیں…
زندگی میں بڑا ضروری ہے
یہ سمجھنا کہ کیا ضروری ہے

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply