سردار گنڈا سنگھ۔۔۔داؤد ظفر ندیم

سردار گنڈا سنگھ اوبیرائے کی سیالکوٹ کی تاریخ میں وہی حیثیث ہے جو لاہور کی تاریخ میں سر گنگا رام کی ہے۔ سردار گنڈا سنگھ اوبیرائے سیالکوٹ شہر میں اوبیرائے سپورٹس کا بانی تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب پیرس روڈ پر اس کی فیکٹری واقع تھی۔ جو کئی ایکٹر پر محیط تھی۔

یہ اس دور کی سیالکوٹ میں کھیلوں کے سامان کی سب سے بڑی فیکٹری تھی۔ فیکٹری میں کرکٹ بیٹ، ہاکی، بیڈمنٹن کے ریکٹ کی تیاری کا کام ہوتا تھا۔
پیرس روڈ پر واقع موجودہ بڑا ڈاکخانہ اور علامہ اقبال لائبریری کی جگہ گنڈا سنگھ گراونڈ واقع تھی۔

سردار صاحب کے دوسرے بیٹے سردار ہردیو سنگھ اپنی دھرم پتنی کے ساتھ فیکٹری میں سینکڑوں مزدور کام کرتے تھے۔ باقاعدہ ملازموں اور ہنر مندوں کی تنخواہیں برطانوی حکومت کے باقاعدہ ملازموں جیسی تھیں۔ ملازموں کو پراویڈنٹ فنڈ کی سکیم بھی ملتی تھی

1920 کے دوران سردار گنڈا سنگھ نے میرٹ پر ہندو، سکھ اور مسلمان ہنر مندوں میں سے دو مسلمان ہنر مندوں بونکن کے محمد نذیر اور جامنوں محلہ کے اللہ رکھا کو منتخب کیا اور انھیں اپنے ہنر کی مزید تربیت دلائی ان کی تنخواہ اس دور میں 70 روپے ماہوار مقرر کی گئی جب برطانوی پولیس کے سپاہی کو 3 سے 5 روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔
سردار گنڈا سنگھ ایک اصول پسند، تعصب سے پاک اور سخی انسان تھے ان کا مال پورے برصغیر اور پوری دنیا کی برطانوی نوآبادیوں کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی جاتا تھا۔سردار صاحب پیرس روڈ پر اس عمارت میں رہتے تھے جو اب ٹیلی فون ایکسچینج کا حصہ ہے

سردار گنڈا سنگھ کا گھر جہاں وہ اپنی موت تک مقیم رہے
سردار گنڈا سنگھ کو سیالکوٹ سے بہت زیادہ پیار تھا۔ وہ رفاہ عامہ پر بہت پیسے خرچ کرتے تھے انجمن اسلامیہ کی تعلیمی کوششوں کو انہوں نے سپورٹ کیا تھا۔ انہوں نے سردار گنڈا سنگھ ہائی سکول قائم کیا تھا جس کے پاس بڑی گراونڈ اور لائبریری تھی۔اسی سکول کی جگہ اب حکومت نے خواتین یونیورسٹی قائم کی ہوئی ہے۔سردار گنڈا سنگھ سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے چیئر مین رہے اس دوران انھوں نے سیالکوٹ کی خوبصورتی کے لئے بہت کام کیا۔
انھوں نے مبارک پورہ اور چاہ جٹاں جیسے محلے آباد کئے جہاں کشادہ اور کھلی گلیاں رکھی گئیں۔انھوں نے گنڈا سنگھ گراونڈ کے ساتھ ایک کشادہ اور شاندار حویلی تعمیر کی۔ جو سیالکوٹ میں فن تعمیر کا نمونہ تھی جسے قبضہ مافیا کھا گیا۔

سردار گنڈا سنگھ کی حویلی اور اس میں سوئمنگ پول ملازمین کی اکثریت مسلمان تھی جبکہ مینیجر خواجہ حاکم دین تھے۔گنڈا سنگھ کو سیالکوٹ سے بہت محبت تھی۔ جب ان کے چھوٹے بچے کی ولادت ہونے والی تھی وہ اور ان کی بیوی شہر سے باہر تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ فوری طور پر سیالکوٹ واپس آئے کہ انھیں یہ بات پسند نہیں تھی کہ ان کے بچے کی ولادت سیالکوٹ شہر سے باہر ہو۔ اور وہ پہلا سانس کسی دوسری جگہ لے

یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ سیالکوٹ میں سردار گنڈا سنگھ کی کوئی یادگار موجود نہیں۔ حتی کہ لائبریری اور خواتین یونیورسٹی اور خواجہ صفدر سکول اس کی ذاتی جگہوں پر بنائے گئے ہیں اور کوئی ادارہ بھی اس کے نام پر نہیں رکھا گیا۔
میونسپل کمیٹی میں سردار صاحب کے دور کا کوئی ریکارڈ نہیں، علامہ اقبال لائبریری میں ان کے بارے کوئی مواد نہیں
ان کی مشہور زمانہ تصویر جس میں مولانا ابراہیم میر، شہاب الدین جیسے لوگ ساتھ تھے اب نہیں مل سکتی۔سردار گنڈا سنگھ کی سمادھی نیکا پورہ پولیس سٹیشن کے ساتھ بڑے عمدہ طریقے سے تعمیر کی گئی تھی وہ بھی قبضہ مافیا نے غائب کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معلومات اور تصاویو کے لئےمختلف ویب سائٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں بلکہ میری زندگی لکھنے پڑھنے سے وابستہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply