انگریز، سندھ اور سول سروس کی بات نہ کریں تو کراچی کا ذکر بہت حد تک نامکمل ہی رہے گا ،یوں بھی یہ ہماری کچی پکی کاوش کون سی آرنلڈ ٹوائن بی اور ابن خلدون کی تاریخ پرکتابیں ہیں کہ ہم ان کے شواہد، تحقیق موضوعاتی جلد بندی کے بارے میں اتنے بہت سیریس ہوجائیں۔ہم تو یہ سلسلہ ابن بطوطہ کے میلان آوارگی و دشت نوردی کے انداز میں چھیڑ بیٹھے ہیں، ہمارے چیف ایڈیٹر انعام رانا کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے کچھ گم گشتہ مہاجروں کو اپنے پرکھوں کا پتہ چل جائے گا اور وہ کم از کم جان جا ئیں گے کہ سن ستر تک ان کا کراں چی کیسا ہوتا تھا۔ وہاں کس طرح کے سٹی مینجرز ہوتے تھے اور اب یہ کیوں کسی روہینگیا بیوہ کی میانما ر کی سرحد سے پرے کی جھونپڑی لگتا ہے۔

وہ جان لیں کہ انگریز کی حکمرانی چاہے متحدہ ہندوستان میں ہو، سندھ میں ہو یا کراچی میں، اس کی بنیاد میں چند ہی نکات شامل ہوتے تھے، وہ علاقے کے افراد کو بڑا ٹھوک بجا کر پرکھتا تھا۔ان کے مخالفین کا حساب رکھتا تھا۔دشمنوں بھی پالتا پوستا تھا۔وہاں کے وسائل پر بھرپور قبضہ جماکر وہاں کے حالات کا اجمالی جائزہ اپنی کتب اور گزیٹس میں درج کرتا تھا اور قانون پر تندہی اور بے خوفی سے عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتا تھا۔
1843 میں شہر حیدرآباد میں اس نے پہلے تو آغا خان اول کی خدمات کا فائدہ ایک ان کہے جھوٹے آسرے پر ٹالپر بلوچ حکمراں میر ناصر خان کے خلاف اٹھایا۔ آغا خان اول ا س آسرے میں رہے کہ میر ناصر خان اگر کراچی اور ٹھٹھہ کی عملداری انہیں سونپنے پر رضامند ہوگئے تو وہ ٹوٹی پھوٹی حکمرانی کی ڈیل ان ٹالپر سرداروں کو بھی دلوادیں گے۔ سندھ کے یہ غیور حکمران نہ مانے تو آغا خان اول نے ان ٹالپروں کی مدد کرنے کی بجائے انگریز کا ساتھ دیا۔ان کی افواج میں میر اکبر علی کی مدد سے غدار ی کو فروغ دیا اور جنگ میانی میں ان ٹالپر سرداروں کو ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان خدمات کے عوض انہیں اپنے لیے ہز ہائی نیس کا امامی لقب مل گیا۔
اس کی رو سے یہ Title in Perpetuity ہے اور ہر امام یہ لقب استعمال کرنے کا مجاز ہوگا۔دو ہزار پاؤنڈ سالانہ وظیفہ۔ہنزہ گلگت میں Free Preaching Rights مل گئے اس کے علاوہ خفیہ امداد یوں بھی کی گئی کہ آغا خان اول کے خلاف بغاوت بارہ اہم افراد نے کی تھی۔یہ تمام افراد آغا خان کے ساتھ ہی پہلے ایران سے بے دخل کیے جانے پر افغانستان اور بعد میں قندھار اور پھر کراچی آئے تھے۔
اَپُّن کا کرانچی، نیم ذاتی اور نیم سرکاری یادیں۔۔۔محمد اقبال دیوان/قسط7
جھرک نامی قصبہ جو آج کل ٹھٹھہ ضلع کا حصہ ہے ۔اس کا کراچی سے زمینی طور پر ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ قصبہ بحری راستے سے اتنا دور نہ تھا۔کراچی کی بستی ابراہیم حیدری اس بات کی گواہ ہے کہ کراچی میں ڈیفنس کا بڑا علاقہ سمندر سے چھینا گیا ہے ۔سمندر کی لہریں ان دنوں کراچی میں کلفٹن تک آتی تھیں جہاں چھوٹے چھوٹے ٹاپو (جزیرے)تھے۔

آج بھی کل منوڑہ، شمس پیر،چرنا،بنڈل،کھپریاں والا،بڈو آئی لینڈز کا نام آپ کثرت سے سنتے ہوں گے ۔آج جہاں کلفٹن میں بدنما گلف ٹاور کے سامنے بھٹو دور کا تین تلوار والا چوک ہے، قیام پاکستان کے وقت بس وہاں سے ایک سیدھی سڑک ایسی جاتی تھی کہ پارک ٹاور کے سامنے پارسیوں کی تعمیر شدہ جہانگیر کوٹھاری پریڈ کا نظارہ صاف دکھائی دیتا تھا۔اس نظارے کی شان و شوکت کا بیڑہ غرق سیدنا عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے پاس ہونے والی تعمیرات نے کردیا۔

جسٹس غلام علی فیروز نانا کی مشہور فیملی جو ہماری مہرباں بزرگ دوست انیتا غلام علی مرحومہ کے والد تھے ،ان کا گھر میری روڈ ایسا تھا کہ وہاں سمندر کا پانی آن کرہلکورے لیتا تھا۔ اسی لیے اس علاقے کو باتھ آئی لینڈ کہتے تھے۔اب یہاں سرکار کے بڑے افسر اپنے کرپشن کے سمندر میں ڈبکیاں مارتے ہیں۔پہلے کور کمانڈر صاحب بھی یہاں آباد ہوتے تھے۔جنرل اسلم حیات پر حملہ ہوا تو یہاں سے علاقہ مکینوں کو تسلی دیے بغیر مہران ہوٹل کے پیچھے جا بسے۔
آ غا خان دوم کا بنگلہ ان دنوں ان کے والد نے انہیں تحفتاً شادی کے موقع پر ڈیفنس کراچی میں ء فیز ٹو کی پہاڑی جسے محمدی ٹکری (ٹکری سندھی میں پہاڑی کو کہتے ہیں) پر خرید کر دیا تھا ۔ انگریزوں نے کراچی پر قبضہ کرنے کے بعد جن چند اولین عمارتوں کو تعمیر کیا تھا یہ ان میں سے ایک ہے۔اسے ان دنوں نام Honeymoon Hall کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا اور یہاں سرکاری ملازمین کا قیام تھا۔

اس رہائش گاہ جسے اب ہنی مون لاج کہا جاتا ہے یہاں اس عمارت میں آغا خان سوئم 2 نومبر سن 1877 , کو پیدا ہوئے اور اپنے والد کی وفات کے بعد وہ آٹھ سال کی کم عمر میں ہی امام بن گئے تھے۔آغا خان اول 16, دسمبر 1845 کو ممبئی منتقل ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ مشہور گجراتی اثنا عشری شیعہ خاندان بھی شامل تھے جو پہلے سب کے سب اسماعیلی تھے۔واقفان حال ہونے کے باعث انہیں آغا خان اول کی انگریزوں سے ساز باز ، روحانیت اور امامت کے دعوؤں کی حقیقت کا بخوبی علم تھا۔ انہیں جب یہ لگا کہ آغا خان جماعت کی آمدنی اور انگریزوں سے فوائد کے حصول میں ذاتی مفاد کو فوقیت دیتے ہیں اور اپنے لیے معاملات طے کرتے ہیں تو یہ بارہ سرکردہ گھرانے بغاوت پر اتر آئے ۔

ان کا جرم یہ تھا کہ یہ جماعت کی آمدنی میں حصہ مانگنے اور آغاخان کی روحانی حیثیت تسلیم نہ کرنے پر مصر تھے۔ ان سب گھرانوں کواسماعیلی جماعت سے سن 1848 میں خارج کردیا گیا۔وہاں سے نکالے جانے پر یہ اپنے ایران والے دین پر لوٹ گئے اور دوبارہ اثنا عشری بن گئے تھے۔ان میں حبیب ابراہیم فیملی (جو اس بغاوت کی سرخیل تھی)، حبیب فیملی، گوکل (شپنگ کمپنی کے مالکان)،ڈوسل (اسلحہ فروخت)، محمد علی علی بھائی،جناح صاحب کے دادا دھرمسی پونجا بھی ناراض اوراسماعیلی مذہب سے بے دخل کیے جانے والے افراد میں شامل تھے۔
اس کیس کو آغا خان کیس کہا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ سر جوزف آرنلڈ چیف جسٹس بمبئی ہائی کورٹ کی عدالت میں چلا تھا۔کیس کا آغا خان کی فیملی کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان کا امامت کادعویٰ انگریز کی عدالت سے ہمیشہ کے لیے ثابت ہوگیا۔اس کے علاوہ ان کا شیعہ مذہب کا ایک ذیلی فرقہ ہونے اور جماعت خانے سے حاصل شدہ آمدنی کے تنہا دعویدار ہو نے کا معاملہ بھی ٖفصیل ہوگیا۔ اب آغا خان کو اپنے پیروکاروں سے کوئی چیلنج در پیش نہ تھا۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اپُن کا کراں چی،سندھ ،سول سروس اور انگریز۔۔۔محمد اقبال دیوان/قسط8“